پاکستان اور آر ایس ایس
مودی حکومت آر ایس ایس کے مسلم کش ایجنڈے پر کھل کر عمل درآمد کر رہی ہے۔
تری پورہ میں مسلمانوں کا قتل عام اور مساجد کی تباہی کے واقعات سے پہلے آسام میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر بھارت سے نکالنے کی کارروائی کے دوران عورتوں ، مردوں اور بچوں پر تشدد ، ایک نوجوان کی ہلاکت اور پھر اس کے مردہ جسم کو پیروں سے روندے جانے جیسے سفاکانہ واقعات سے واضح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مودی حکومت آر ایس ایس کے مسلم کش ایجنڈے پر کھل کر عمل درآمد کر رہی ہے۔ آر ایس ایس کے آئین کا پہلا نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلمان غیر بھارتی ہیں انھوں نے ہندوؤں کی ثقافت اور دھرم کو بہت نقصان پہنچایا ہے چنانچہ وہ ہندوؤں کے دشمن ہیں اس لیے انھیں پہلی فرصت میں بھارت سے باہر نکال دینا چاہیے اور اگر وہ بھارت کو چھوڑنے میں پس و پیش کریں تو انھیں سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیا جائے۔
بی جے پی ، آر ایس ایس کے بطن سے پیدا ہوئی ہے ، اس کے سارے لیڈر آر ایس ایس کے رکن ہیں ، وہ مسلم دشمنی میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ مسلمان آبادیوں پر اپنے دہشت گردوں سے حملے کرا کے ان کا قتل عام کرانا اور ان کی جائیدادوں کو تباہ کرانا معمول بنا لیا ہے پولیس بلوائیوں کے ساتھ ہوتی ہے کہ انھیں کوئی آنچ نہ آنے پائے وہ خود بھی بلوائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہو جاتی ہے۔
دہلی کے مسلم کش فساد میں پولیس نے نہ صرف بلوائیوں کا ساتھ دیا بلکہ متاثرہ مسلمانوں کو فساد کا ذمے دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمے قائم کیے گئے اس وقت بھارتی عدلیہ بھی آر ایس ایس کے نظریات رکھنے والے ججوں پر مشتمل ہے جو بے قصور مسلمانوں کو قصوروار اور دہشت گرد بلوائیوں کو بے قصور قرار دیتی ہے۔ ہندو مسلم نفرت پھیلانے کا مشن بی جے پی کی گزشتہ جیت کا سبب بنا اور دوسرا الیکشن بھی اس نے اسی نفرت کی بنیاد پر جیتا۔
اب اگلے الیکشن کو بھی جیتنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ آر ایس ایس مسلمانوں کی تو ہے ہی دشمن اسے پاکستان کے وجود سے بھی سخت چڑ ہے۔ وہ پاکستان کو ایک پل بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے قیام کو ممکن بنانے والی بھی یہی تنظیم ہے اور مسلمانوں کی سوچ کو متحدہ ہندوستان سے ہٹا کر اپنا ایک علیحدہ وطن بنانے کا سبب بھی یہی تنظیم بنی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر لڑی تھی ، وہ دونوں ہی انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے متحد تھے مگر انگریز چونکہ ہندوستان کی دولت کو لوٹنے کے لیے یہاں آئے تھے چنانچہ وہ جلد ہندوستان کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے تاہم جنگ آزادی کے بعد وہ یہاں دیر تک ٹکنے کے لیے سوچ بچار کرنے لگے اور بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتحاد کو ختم کرکے انھیں باہم لڑایا نہیں جاتا وہ ہندوستان پر سکون سے حکومت نہیں کرسکتے۔
لارڈ کرزن ایک چالاک انگریز وائسرائے تھا جس نے منصوبے کے تحت ہندوؤں کو ڈرپوک اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوم قرار دیا اور انھیں غیرت دلائی کہ مسلمان ان پر کئی سو سال تک حکومت کرچکے ہیں اس لیے کہ ہندوؤں نے ان کی غلامی کو ہمیشہ کے لیے قبول کرلیا ہے۔ لارڈ کرزن کے اس زہریلے بیانیے کا ہندوؤں پر کافی اثر ہوا۔ انگریزوں نے اس کے ساتھ ہی ہندوؤں کو رعایتیں دیں اور مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کے لیے وظیفے دینا شروع کیے۔
ہندو توا کے نظریے کا بانی دامودر ساورکر پہلے انگریزوں کے خلاف مہم میں شامل تھا۔ اس نے مہاراشٹر کے ایک شہر میں انگریزوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں کے انگریز اسٹیشن ماسٹر کو قتل کردیا تھا۔ بعد میں انگریزوں نے اسے گرفتار کرلیا اور کالا پانی کی سزا دی گئی جس کے تحت اسے انڈومان کی بدنام زمانہ سیلولر جیل میں قید کردیا گیا۔
اس وقت اس جیل میں خاص طور پر آزادی پسندوں کو قید رکھا جاتا تھا اور انھیں سخت سے سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان سخت سزاؤں کو برداشت کرنا آسان نہ تھا تاہم سیکڑوں حریت پسند وہاں سزا کاٹ رہے تھے اور کسی نے بھی اپنی سزا کو معاف کرانے کے لیے قابض انگریزوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے۔ دامودر ساورکر اپنی سزا سے گھبرا گیا اور اس نے انگریز حکومت کو کئی معافی نامے ارسال کیے۔
ان معافی ناموں میں اس نے یہاں تک لکھا کہ اگر اسے رہا کردیا جائے تو انگریز سرکار اس سے جو بھی کام لینا چاہے وہ اسے انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ ساورکر چونکہ ایک لکھا پڑھا اور مضمون نگار تھا۔ انگریزوں نے اسے ہندو مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے تحریری مہم چلانے کا کام سونپ دیا۔ ساورکر نے رہائی کے بعد انگریزوں کے حکم کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کرنے کے لیے کئی کتابچے اور کتابیں لکھیں جس کا ہندوؤں پر خاصا اثر ہوا اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کا ایک گروہ وجود میں آگیا۔
ہندو مہاسبھا بھی اسی وقت قائم ہوئی اور پھر ایک ہندو قوم پرست کیشوبلی رام ہیڈگور جو پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھا نے 1925 میں راشٹریہ سیوک سنگھ (R.S.S) کی بنیاد رکھی۔ جس نے چند ہی سالوں میں اپنے زہریلے متعصبانہ پروپیگنڈے کے ذریعے ہندوؤں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ آر ایس ایس میں شامل افراد کو جنگجویانہ ٹریننگ دی گئی اور انھیں شہروں اور گاؤں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ بعد میں انگریزوں کی آشیرباد سے ناموس رسالت پر کتابچوں اور کتابوں کے ذریعے رکیک حملے کرائے جانے لگے۔
مسلمان ہندوؤں کی اس اسلام دشمن مہم جوئی سے سخت بیزار ہوگئے اس طرح مسلمانوں کا ہندوؤں سے جو بھائی چارہ 1857 کی جنگ آزادی اور پھر خلافت تحریک کے زمانے سے چلا آ رہا تھا وہ درہم برہم ہوگیا۔ ایسے میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی اور برطانوی سامراج اپنی نوآبادیوں کو چھوڑنے کی تیاری کرنے لگا۔
اس وقت مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے تھے یا تو وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر آزادی حاصل کرلیں یا پھر اپنے لیے ایک علیحدہ ملک بنانے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں چونکہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا نے اپنی دہشت گردی سے مسلمانوں کو بے زار کردیا تھا اس لیے ہندوؤں کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں ان کا رہنا ناممکن تھا چنانچہ مسلمانوں نے اپنے ایک آزاد اور اسلامی نظام سے مرصع وطن کے قیام کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جدوجہد شروع کردی اور بالآخر پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اب یہی پاکستان جس کے قیام کی ایک وجہ بلاشبہ آر ایس ایس کی دہشت گردی تھی اب وہی اسے مٹانے کی کوششوں میں گزشتہ 72 سالوں سے لگی ہوئی ہے مگر وہ اسے کبھی ختم نہیں کرپائے گی البتہ خود جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔