ایک روشن خیال عالم اور دانشورکا بچھڑنا…
وہ برصغیر کے روشن خیال عالم مولانا عبید اللہ سندھی کی روایت اور فکر کے پیروکار تھے۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو اب ہم موجود نہیں رہے، وہ برصغیر کے روشن خیال عالم مولانا عبید اللہ سندھی کی روایت اور فکر کے پیروکار تھے۔
انھیں برِصغیر کے چند علماء مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد کے روشن خیال فکر کی آخری کلاسک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ روایتی مولویوں سے ہٹ کر مذہب کی تشریح کی۔ ان کے آگے انسان ہی سب سے بڑی ہستی تھی،آپ نے انسانوں کی تفریق کیے بغیر انسانیت کے فلاح و بہبود ، سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق کی بات کی۔
بوہیو صاحب سندھ کی وہ محترم شخصیت تھے، جنھوں نے سیکولر روایات کو پروان چڑھانے کے لیے سندھ ساگر پارٹی کی بنیاد رکھی ، جس کے پلیٹ فارم سے سندھ کے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لیے جدوجہد میں کوشاں رہے۔ سندھ کے تشخص اور حقوق کے لیے انھوں نے تمام عمر جدوجہد کی۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو کا جنم 14 مارچ 1946 کو ضلع نوشہرو فیروز (سندھ) کے گاؤں خیر محمد بوہیو کے ایک استاد خیر محمد بوہیو کے گھر میں ہوا۔ انھوں نے بنیادی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول اور مدرسے سے حاصل کی جب کہ مزید تعلیم سکھر ایک کے مدرسے حاصل کی ، جہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد درسِ تعلیم سے بھی وابستہ رہے، اپنا پریس بھی شروع کیا ، جہاں مختلف علمی و ادبی شاعروں اور دانشوروں نے کام کیا۔ مولانا عزیز اللہ ''جمعیت علمائے اسلام '' میں مولانا مفتی محمود کے ساتھی بھی رہے۔
نظریاتی طور پر اختلاف ہوئے، اور وہاں زیادہ دیر تک اپنا ٹھکانا نہ بنا سکے۔ انھوں نے آگے چل کر مولانا عبید اللہ سندھی کی فکرکو پروان چڑھانے کے لیے ''سندھ ساگر پارٹی'' کی بنیاد رکھی۔ اپنے فکری وسعت سے روشن خیال سیاسی کارکنان بنائے ، ان کی فکری آبیاری بھی کرتے رہے۔ زندگی کی آخری گھڑیوں تک اپنی پارٹی اور اپنے آدرشوں پر قائم رہے۔ اہل سندھ کے وسائل کی بات کرنے پر بوہیو صاحب کو قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔
عزیز اللہ بوہیو سندھ کے وہ بہادر مولانا تھے ، جنھوں نے اپنی ساری زندگی اپنے روشن خیال نظریات ، سخت اصولوں اور عوام دوست فکر سے عام لوگوں کی فکری آبیاری میں گزاری۔ وہ بہت بڑے عالمِ دین اور روشن خیال دانشور تھے ، انھوں نے ہمیشہ سماج کی تبدیلی کے لیے سیاسی بنیادوں پر جدوجہد کی۔ انھیں ہمیشہ مخالفین کا سامنا رہا ، بنیاد پرست اور روایتی مولوی انھیں ہمیشہ اپنی فتوے دیتے رہے ، لیکن مولانا عزیز اللہ نے ہمیشہ ایسے ہتھکنڈوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے افکارکی بات بَبانگِ دْہْل کی۔
اپنی جدوجہد کے میدان میں انھیں مخالفین کی تنقید کا سامنا بھی رہا ،کیونکہ وہ ایک عملی انسان تھے جنھوں نے قرآن کی روشنی میں قوموں کے حقوق ، پانی اور دیگر وسائل کی بات کی۔ اس لیے وہ روایتی مولویوں کے لیے اختلاف کا سبب بنتے رہے۔
راقم کی پہلی ملاقات ان سے آبائی شہر مورو میں ہوئی ، انھیں سندھ کے نامور ادیب عظیم سندھی نے مورو میں اپنی بیٹھک پر لیکچر کے لیے بلایا تھا، یہ غالبا 1997 کا زمانہ تھا۔ انھوں نے اسلام اور سماج پرجو گفتگو کی تھی ، وہ ہمارے ذہنوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہاں سے رابِطہ جڑا ، جو ان سے، ان کی زندگی کی آخری گھڑیوں تک قائم رہا۔ ہم جب لیبر پارٹی میں ہوا کرتے تھے ، بوہیو صاحب اس وقت ہمارے لیبر پارٹی مورو کے دفتر میں ہمیشہ آیا کرتے تھے۔ وہی پر ان سے اکثر کارل مارکس ، اینگلز اور لینن کے افکار پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے دنیا کے بہت سے علوم کا مطالعہ کیا ہوا تھا ، وہ ہر موضوع پر دلیل سے بات کرتے تھے۔
لیبر پارٹی پاکستان کی پہلی کانگریس جو کہ سن 2000 میں منعقد ہوئی، مجھ سمیت لیبر پارٹی کے مندوبین تمام ملک سے کانگریس میں شرکت کے لیے لاہور کے جسٹس دْراب پٹیل آڈیٹوریم میں پہنچے تھے۔ بوہیو صاحب نے اس کانفرنس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس وقت ملک میں پرویز مشرف کی آمریت کا راج تھا۔ افغانستان میں 4 سال سے طالبان کی حکومت قائم تھی۔ بنیاد پرستی زور شور سے اپنے قدم مضبوط کیے جارہی تھی۔ ایسی صورتحال میں لیبر پارٹی کی کانگریس میں ایک سیشن اسی موضوع پر بھی رکھا گیا تھا۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو نے جس انداز سے بنیاد پرست رویوں پر اپنا موقف رکھا تھا ، اس کانفرنس میں بہت سے شرکاء کے لیے وہ نئی بات تھی اور یہ کہ جب اکثریتی مابعد الطبیعات قوتیں ایسی صورتحال کو اپنی فتح سمجھ رہی تھیں۔ بوہیو صاحب اس کی حمایت کرنے والوں پر کھل کر تنقید کیے جارہے تھے۔ مورو میں جب بھی لیبر پارٹی کی کوئی تقریب ہوا کرتی تھی۔ بوہیو صاحب اس میں شمولیت کرتے تھے۔ میں جب باضابطہ طور پرکراچی منتقل ہوگیا تو، بوہیو صاحب سے کراچی آنے کے بعد بھی رابطہ جاری رہا۔ جب بھی ان کا آنا کراچی ہوتا تھا ، مجھے ضرور ملاقات کا شرف دیتے تھے۔
کراچی میں ہم نے ایک بار عالمی انقلابی چے گویرا کا دن منایا تھا ، اتفاق سے اس تقریب میں بوہیو صاحب نے شرکت کی، انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ اتفاق سے کراچی میں تھا۔ چے گویرا کے حوالے سے اس پروگرام کا اخبار میں پڑھا۔ شرکت کرنے کے لیے چل پڑا۔ ہم نے ان کا یہ انداز دیکھا ، ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ ان کے انکار کے باوجود بھی ہم نے اپنی اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے انھیں اسٹیج پر بٹھایا۔ انھوں نے دو منٹ ہی بات کی ، لیکن چے گویرا کی جدوجہد کو انھوں نے بہت اچھے طریقے سے بیان کیا۔ بوہیو صاحب نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ آپ کا موضوع ایک عوام دوست معاشرے کی تکمیل ہوا کرتا تھا ، جن پر ان کی کئی تحاریر کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔
آج سے 7 سال قبل 2014 میں غیر مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے بھورو بھیل کی لاش کو قبرستان سے نکال کر بے حرمتی کی گئی تو مولانا عزیز اللہ بوہیو نے آبدیدہ ہوتے ہوئے اس عمل کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ اپنے غصے پر قابو نہ پاتے ہوئے بھیل برادری کے ساتھ اس ناروا سلوک پر انھوں نے پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں وصیت کی کہ ان کی وفات کے بعد، انھیں مٹیاری کے قریب بائی پاس پر بھیل برادری کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے۔
انھوں نے کہا تھا کہ جب اللہ اور اس کے پیغمبر نے انسانوں میں فرق نہیں کیا، یہاں مذہب کے نام پر ظلم کیوں جا رہا ہے؟ ان کے بقول یہ بھیل برادری سے یکجہتی کے طور پر ان کی وصیت ہے، جس پر ان کے ورثاء نے عمل نہیں کیا۔ انھیں ان کے گائوں میں ہی آسودہ خاک کیا گیا۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو نے اپنی سیاسی زندگی میں مظلوم قوموں کے حقوق اور ان کے وسائل کے لیے بغیر کسی رنگ و نسل اور فرق کے جدوجہد کی۔ ان کے بچھڑنے سے سندھ ایک روشن خیال عالم، دانشور اور سیاستدان سے محروم ہوگیا ہے۔ ان کے افکار تخلیقات کی صورت میں ہمیشہ روشن خیال سندھ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔
انھیں برِصغیر کے چند علماء مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد کے روشن خیال فکر کی آخری کلاسک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ روایتی مولویوں سے ہٹ کر مذہب کی تشریح کی۔ ان کے آگے انسان ہی سب سے بڑی ہستی تھی،آپ نے انسانوں کی تفریق کیے بغیر انسانیت کے فلاح و بہبود ، سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق کی بات کی۔
بوہیو صاحب سندھ کی وہ محترم شخصیت تھے، جنھوں نے سیکولر روایات کو پروان چڑھانے کے لیے سندھ ساگر پارٹی کی بنیاد رکھی ، جس کے پلیٹ فارم سے سندھ کے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لیے جدوجہد میں کوشاں رہے۔ سندھ کے تشخص اور حقوق کے لیے انھوں نے تمام عمر جدوجہد کی۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو کا جنم 14 مارچ 1946 کو ضلع نوشہرو فیروز (سندھ) کے گاؤں خیر محمد بوہیو کے ایک استاد خیر محمد بوہیو کے گھر میں ہوا۔ انھوں نے بنیادی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول اور مدرسے سے حاصل کی جب کہ مزید تعلیم سکھر ایک کے مدرسے حاصل کی ، جہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد درسِ تعلیم سے بھی وابستہ رہے، اپنا پریس بھی شروع کیا ، جہاں مختلف علمی و ادبی شاعروں اور دانشوروں نے کام کیا۔ مولانا عزیز اللہ ''جمعیت علمائے اسلام '' میں مولانا مفتی محمود کے ساتھی بھی رہے۔
نظریاتی طور پر اختلاف ہوئے، اور وہاں زیادہ دیر تک اپنا ٹھکانا نہ بنا سکے۔ انھوں نے آگے چل کر مولانا عبید اللہ سندھی کی فکرکو پروان چڑھانے کے لیے ''سندھ ساگر پارٹی'' کی بنیاد رکھی۔ اپنے فکری وسعت سے روشن خیال سیاسی کارکنان بنائے ، ان کی فکری آبیاری بھی کرتے رہے۔ زندگی کی آخری گھڑیوں تک اپنی پارٹی اور اپنے آدرشوں پر قائم رہے۔ اہل سندھ کے وسائل کی بات کرنے پر بوہیو صاحب کو قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔
عزیز اللہ بوہیو سندھ کے وہ بہادر مولانا تھے ، جنھوں نے اپنی ساری زندگی اپنے روشن خیال نظریات ، سخت اصولوں اور عوام دوست فکر سے عام لوگوں کی فکری آبیاری میں گزاری۔ وہ بہت بڑے عالمِ دین اور روشن خیال دانشور تھے ، انھوں نے ہمیشہ سماج کی تبدیلی کے لیے سیاسی بنیادوں پر جدوجہد کی۔ انھیں ہمیشہ مخالفین کا سامنا رہا ، بنیاد پرست اور روایتی مولوی انھیں ہمیشہ اپنی فتوے دیتے رہے ، لیکن مولانا عزیز اللہ نے ہمیشہ ایسے ہتھکنڈوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے افکارکی بات بَبانگِ دْہْل کی۔
اپنی جدوجہد کے میدان میں انھیں مخالفین کی تنقید کا سامنا بھی رہا ،کیونکہ وہ ایک عملی انسان تھے جنھوں نے قرآن کی روشنی میں قوموں کے حقوق ، پانی اور دیگر وسائل کی بات کی۔ اس لیے وہ روایتی مولویوں کے لیے اختلاف کا سبب بنتے رہے۔
راقم کی پہلی ملاقات ان سے آبائی شہر مورو میں ہوئی ، انھیں سندھ کے نامور ادیب عظیم سندھی نے مورو میں اپنی بیٹھک پر لیکچر کے لیے بلایا تھا، یہ غالبا 1997 کا زمانہ تھا۔ انھوں نے اسلام اور سماج پرجو گفتگو کی تھی ، وہ ہمارے ذہنوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہاں سے رابِطہ جڑا ، جو ان سے، ان کی زندگی کی آخری گھڑیوں تک قائم رہا۔ ہم جب لیبر پارٹی میں ہوا کرتے تھے ، بوہیو صاحب اس وقت ہمارے لیبر پارٹی مورو کے دفتر میں ہمیشہ آیا کرتے تھے۔ وہی پر ان سے اکثر کارل مارکس ، اینگلز اور لینن کے افکار پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے دنیا کے بہت سے علوم کا مطالعہ کیا ہوا تھا ، وہ ہر موضوع پر دلیل سے بات کرتے تھے۔
لیبر پارٹی پاکستان کی پہلی کانگریس جو کہ سن 2000 میں منعقد ہوئی، مجھ سمیت لیبر پارٹی کے مندوبین تمام ملک سے کانگریس میں شرکت کے لیے لاہور کے جسٹس دْراب پٹیل آڈیٹوریم میں پہنچے تھے۔ بوہیو صاحب نے اس کانفرنس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس وقت ملک میں پرویز مشرف کی آمریت کا راج تھا۔ افغانستان میں 4 سال سے طالبان کی حکومت قائم تھی۔ بنیاد پرستی زور شور سے اپنے قدم مضبوط کیے جارہی تھی۔ ایسی صورتحال میں لیبر پارٹی کی کانگریس میں ایک سیشن اسی موضوع پر بھی رکھا گیا تھا۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو نے جس انداز سے بنیاد پرست رویوں پر اپنا موقف رکھا تھا ، اس کانفرنس میں بہت سے شرکاء کے لیے وہ نئی بات تھی اور یہ کہ جب اکثریتی مابعد الطبیعات قوتیں ایسی صورتحال کو اپنی فتح سمجھ رہی تھیں۔ بوہیو صاحب اس کی حمایت کرنے والوں پر کھل کر تنقید کیے جارہے تھے۔ مورو میں جب بھی لیبر پارٹی کی کوئی تقریب ہوا کرتی تھی۔ بوہیو صاحب اس میں شمولیت کرتے تھے۔ میں جب باضابطہ طور پرکراچی منتقل ہوگیا تو، بوہیو صاحب سے کراچی آنے کے بعد بھی رابطہ جاری رہا۔ جب بھی ان کا آنا کراچی ہوتا تھا ، مجھے ضرور ملاقات کا شرف دیتے تھے۔
کراچی میں ہم نے ایک بار عالمی انقلابی چے گویرا کا دن منایا تھا ، اتفاق سے اس تقریب میں بوہیو صاحب نے شرکت کی، انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ اتفاق سے کراچی میں تھا۔ چے گویرا کے حوالے سے اس پروگرام کا اخبار میں پڑھا۔ شرکت کرنے کے لیے چل پڑا۔ ہم نے ان کا یہ انداز دیکھا ، ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ ان کے انکار کے باوجود بھی ہم نے اپنی اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے انھیں اسٹیج پر بٹھایا۔ انھوں نے دو منٹ ہی بات کی ، لیکن چے گویرا کی جدوجہد کو انھوں نے بہت اچھے طریقے سے بیان کیا۔ بوہیو صاحب نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ آپ کا موضوع ایک عوام دوست معاشرے کی تکمیل ہوا کرتا تھا ، جن پر ان کی کئی تحاریر کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔
آج سے 7 سال قبل 2014 میں غیر مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے بھورو بھیل کی لاش کو قبرستان سے نکال کر بے حرمتی کی گئی تو مولانا عزیز اللہ بوہیو نے آبدیدہ ہوتے ہوئے اس عمل کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ اپنے غصے پر قابو نہ پاتے ہوئے بھیل برادری کے ساتھ اس ناروا سلوک پر انھوں نے پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں وصیت کی کہ ان کی وفات کے بعد، انھیں مٹیاری کے قریب بائی پاس پر بھیل برادری کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے۔
انھوں نے کہا تھا کہ جب اللہ اور اس کے پیغمبر نے انسانوں میں فرق نہیں کیا، یہاں مذہب کے نام پر ظلم کیوں جا رہا ہے؟ ان کے بقول یہ بھیل برادری سے یکجہتی کے طور پر ان کی وصیت ہے، جس پر ان کے ورثاء نے عمل نہیں کیا۔ انھیں ان کے گائوں میں ہی آسودہ خاک کیا گیا۔
مولانا عزیز اللہ بوہیو نے اپنی سیاسی زندگی میں مظلوم قوموں کے حقوق اور ان کے وسائل کے لیے بغیر کسی رنگ و نسل اور فرق کے جدوجہد کی۔ ان کے بچھڑنے سے سندھ ایک روشن خیال عالم، دانشور اور سیاستدان سے محروم ہوگیا ہے۔ ان کے افکار تخلیقات کی صورت میں ہمیشہ روشن خیال سندھ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔