موسمی تبدیلیاں کیا رنگ لائیں گی
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر قلیل اور طویل المدت منصوبہ بندی کریں۔
صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں سموگ یا آلودہ دھند کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ شدید دھند کے باعث جہاں لاہور سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں نظامِ زندگی بْری طرح سے متاثر ہو گا وہیں شہریوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ ے گا اور بہت سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔
محکمہ موسمیات نے پنجاب کے میدانی علاقوں میں چھائی دھند کی وجہ ہوا کے دباؤ میں کمی اور فضائی آدلودگی کو قرار دیا ہے ۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس وقت لاہور اور پنجاب میں ایسا کوئی ایئر ٹیسٹنگ سسٹم موجود نہیں جس سے پتہ لگایا جاسکے کہ موسم میں ہونے والی اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ کیا ہے لیکن کچھ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اس موسمیاتی کیفیت کی وجہ لاہور میں ہونے والے تعمیراتی کام اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شایع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی جانب سے چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد پرالی کو جلانا بھی پاکستانی پنجاب میں سموگ کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔اس سوال پر کہ فصلوں کو جلانے کا عمل تو ہر سال ہی ہوتا ہے تو پھر اس مرتبہ یہ غیر معمولی صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟
اگر یہ آلودگی بھارت سے پھیل رہی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور ماضی میں بھی ایسی رپورٹس منظرِعام پر آئی ہیں جن میں اس جانب توجہ مرکوز کرائی گئی تھی۔
اس قسم کی فضائی آلودگی ایشیا کے بعض شہر جیسا کہ نئی دہلی اور شنگھائی وغیرہ میں عموماً ہوتی ہے لیکن نومبر کے مہینے میں یہاں یہ پہلی بار دیکھی گئی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہوا کا کم دباؤ اور مسلسل خشک موسم ہے۔ جب درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتو فضا میں آلودہ ذرات کی موجودگی کے باعث کیمیائی عمل ہوتا ہے جس کے باعث فضائی آلودگی کی یہ شکل سامنے آتی ہے جسے "لوئر اوزون" بھی کہا جاتا ہے۔لاہور میں دھوئیں کے بادل اس قدر شدید ہیں کہ گھروں کے اندر تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ دھند کے باعث موٹروے کے کئی سیکشن بند ہیں۔
بھارت اور چین کے کئی علاقے بھی اس آلودہ دھند کی لپیٹ میں ہیں۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں حکام نے ایک بار پھر سے فضائی آلودگی بڑھ جانے کے سبب ریڈ الرٹ جاری کیا ہے جسکے تحت گاڑیوں کی آمد و رفت اور تعمیراتی کام روک دیے جاتے ہیں۔ حکومت نے تقریباً ایک ہفتے پہلے بھی فضا میں زبردست دھند چھانے کے بعد پہلی بار اس طرح کا حکم جاری کیا تھا۔
آلودگی پر نگاہ رکھنے والے ادارے سی ایس ای کے مطابق نئی دہلی میں ہر سال زہریلی ہوا سے 10 سے 30 ہزار کے درمیان اموات ہوتی ہیں جب کہ شہر کے 44 لاکھ بچوں میں سے تقریباً نصف کے پھیپھڑے ہمیشہ کے لیے متاثر ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی اورسیلاب کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، قحط کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم کے مہینوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دو دہائیوں میں (2010سے2030) کے دوران موسم میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح 1950سے1990کے دوران چار مرتبہ دنیا کے مختلف خطوں کو شدید ترین گرمی کا شکار ہونا پڑاتھا اسی طرح ان دو دہائیوں میں پھر دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید ترین گرمی پڑنے کا امکان ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق 2050 عیسوی تک جنوبی ایشیا میںلاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔ پاکستانی ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ترک کر کے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ سمندری پانی کی سطح میں اضافہ اور نمکین و آلودہ پانی ہے۔ ماہرین اس نقل مکانی کی مہم کو ابھی محض آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین اور تحفظِ ماحولیات کے لیے سرگرم عناصر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لے۔
موسم اور ماحول میں تبدیلی کو روکنا تو غالباً انسانی بساط سے باہر ہے لیکن اس تبدیلی کے مطابق انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا با شعور قیادت کا فرض ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر قلیل اور طویل المدت منصوبہ بندی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اسی لیے دیا ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق زندگی کے معمولات کو ڈھالے۔ دنیا میں وہ قوم تا دیر قائم اور سرخرو ہوتی ہے جو ان تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔