سچ جھوٹ اور زبان
بنیادی انسانی حقوق کرہ ارض پر رہنے والے ہر فرد کا ناقابلِ تنسیخ حق بن چکا ہے۔
زبان سے لوگوں کو زخم پہلے بھی پہنچائے جاتے تھے۔ گالیاں وجود میں اس لیے آئیں کہ اپنے مخالفین کی تذلیل کی جائے۔ پچھلے 30 برسوں میں ٹیکنالوجی نے اطلاعات اور ابلاغ کا ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ چند دہائی پہلے تاروں والا ٹیلی فون لگانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔
اعلیٰ افسروں تک جن کی رسائی ہوتی تھی ان کو فون کی سہولت میسر ہوجایا کرتی تھی باقی لوگ اس ''نعمت'' سے محرم رہا کرتے تھے۔ ٹیلی فون لگ جائے تو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک رابطہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ٹرنک کال بک کرانے کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تب کہیں جاکر چند منٹوں تک بات کرنی ممکن ہوسکتی تھی۔
خط و کتابت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا خط روانہ کرنے اور جواب وصول کرنے میں ہفتوں بلکہ مہینوں بھی لگ جایا کرتے تھے۔ تار خوف کی علامت ہوا کرتا تھا کیوں کہ کسی بڑے واقعے سے مطلع کرنے کے لیے اس ذریعے کو کام میں لایا جاتا تھا،جب تک یہ صورت حال تھی اس وقت تک زبان کو بہت بڑے پیمانے پر تذلیل اور تضحیک کے لیے استعمال کرنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ اب معاملہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے، ہر دوسرے فرد کے ہاتھوں میں سیل فون ہے، وہ جب چاہے کسی سے بات کرسکتا ہے۔
دنیا میں کہیں بھی رہنے والے کسی فرد کو کوئی پیغام بھیج سکتا ہے۔ تصویر اور وڈیو بناکر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو شیئر کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی سہولت ہے جو انسان کو 21 ویں صدی میں حاصل ہوئی ہے، لیکن اس کے ذریعے جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس نوعیت کی کردار کشی کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہوسکتا ہے یہ عارضی مظہر ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ اعتدال اور توازن پیدا ہوجائے۔
ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اطلاعاتی انقلاب کے ذریعے تاریخ کے وہ ''سچ'' بھی سامنے آرہے ہیں جن سے پہلے بہت کم لوگ ہی واقف ہوا کرتے تھے۔ ماضی قدیم سے لے کر 21 ویں صدی کی موجود دہائی تک زبان اکثر ظلم کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر کام آتی ہے۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال سقراط کی ہے۔
اس کے خیالات اور خطبات سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایتھنز کی شہری ریاست نے اسے زہر کا پیالہ پلایا اور اپنے حسابوں اس کی آواز خاموش کردی لیکن آج ڈھائی ہزار برس بعد بھی اس کے خیالات دنیا کی تمام بڑی اور چھوٹی زبانوں میں موجود ہیں، اس کے سچے الفاظ کی فصلیں ہر زمین اور ہر زمانے میں لہلہاتی رہی ہیں اور اس بات کا اظہارکرتی رہی ہیں کہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے زبان سے بڑا اور موثر ہتھیار دنیا میں پایا نہیں جاتا۔
دس لاکھ سال یا شاید اس سے بھی پہلے جب ہم گروہ در گروہ جنگلوں میں رہتے تھے تو ہم نے بولنے کا آغاز کیا تھا۔ پہلے ہم بھی دوسرے جانوروں کی طرح محض آوازیں نکالتے ہوں گے لیکن جیسے جیسے ہماری ضرورتیں پیچیدہ ہوتی گئیں، ہم ان آوازوں کو ایک ترتیب اور تفہیم دیتے گئے اور اب دنیا کے مختلف خطوں میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ہزاروں برس سے فطرت ہمارے وجود میں آتے ہی سماعت کے ذریعے زبان کا بیج ہمارے ذہن کی زرخیز فضا میں بو دیتی ہے، یہ بیج دو سے تین برس کی عمر کے دوران پہلا پھول لے آتا ہے اور پھر عمر، تجربے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری زبان کی پھلواری ہری بھری ہوتی جاتی ہے۔ بلوغت کے بعد جب ہم سماجی تضادات اور ان سے ابھرنے والے ردّ ِعمل کا اظہار کرتے ہیں تو زبان آپس میں صرف بول چال اور تبادلہ خیال کا ہی ذریعہ نہیں رہتی، یہ ایک اوزار اور ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔
تاریخ میں انسان نے زبان کو گروہی، صنفی، علاقائی یا مذہبی بالادستی اور مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ رجز اور جنگی نغمے اپنی ایک مخصوص زبان رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رزمیہ شاعری لوگوں کو ہتھیار اٹھانے اور دشمن کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کسی خاص مذہب کے پھیلاؤ یا وطن کی آزادی کے حصول کے لیے بھی نثر اور شاعری کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انقلابی گیت آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتے ہیں۔
''زبان'' آج سے نہیں ہزاروں برس سے سماج میں تبدیلی لانے کا ایک نہایت اہم اور موثر ذریعہ رہی ہے، اسی لیے تاریخ میں باضمیر شاعر، ادیب اور مورخ، مقتدر طبقات کے لیے ایک ناپسندیدہ عنصر رہے ہیں۔ قدیم مصری ادب کی تاریخ اٹھا کر پڑھیے تو اس میں ہمیں ایسے کئی ادیب نظر آئیں گے جنھوں نے زبان کا باغیانہ استعمال کیا اور ساری عمر قید خانوں میں گزار دی اور کچھ ایسے بھی تھے جو اس زمانے کے فرعون کے حکم سے قتل کیے گئے۔
زبان صرف ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ہی نہیں، ظلم کو فروغ دینے اور جھوٹ کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے لیکن زبان کو غلط طور پر برتنے کا رویہ آخرکار پسپا ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس بارے میں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ ''زبان'' کو ادیبوں نے سچ کے فروغ کے لیے کس کس طرح استعمال کیا ہے اس کا اندازہ تقریباً 4000 برس پرانی اس مصری کہانی سے لگایا جاسکتا ہے جو بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئی تھی۔ یہ کہانی ایک کسان کی زبانی بیان کی گئی ہے اور اس میں وہ ملک کے ''منتظم اعلیٰ'' سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
''اے منتظم اعلیٰ! میرے آقا! آدمیوں کی ترازو، ان کی زبان ہوتی ہے اور پلڑوں سے (وزن میں) کمی کا پتہ چلتا ہے، سو جسے سزا ملنی چاہیے اسے سزا دے۔ کوئی تیری راست روی کا ثانی نہیں ہوگا۔ جہاں تک جھوٹ کا سوال ہے (اس کا معاملہ تمام ہوا) کیونکہ سچ اس کے مقابلے میں آگیا ہے۔ اگر جھوٹ چلتا پھرتا ہے تو یہ راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کشتی میں سوار ہوکر پار نہیں لگ سکتا۔ جھوٹ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جو اس جھوٹ کے ذریعے دولت مند بنتا ہے اس کی اولاد نہیں ہوتی۔ زمین پر اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو اس جھوٹ کے ساتھ جہاز میں سفر کرتا ہے وہ خشکی پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کا جہاز اس کے شہر میں لنگر انداز نہیں ہوسکتا۔ جانبداری مت کر۔ اپنے دل کا کہا مت سن۔ جسے تُو جانتا ہے اس سے اپنا منہ مت چھپا۔ جسے تُونے دیکھ لیا ہے اس سے آنکھیں اندھی مت کر، جو تجھ سے فریاد کرے اسے ٹھکرا مت۔ یہ کاہلی چھوڑ تاکہ سب لوگوں میں تیری یہ ضرب المثل دہرائی جائے (کہ) ''جو تیری مددکرتا ہے تُو اس کی مدد کر۔'' تاکہ آدمی اپنے جائز مؤقف کی خاطر تجھ سے فریاد کرسکے۔
کاہل آدمی کی کوئی گزری ہوئی کل نہیں ہوتی، جو سچائی کی طرف سے بہرا بن جائے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ لالچی انسان کے لیے خوشی کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ جو آج معزز ہے وہ کل مفلسی کا شکار ہوسکتا ہے اور مفلس فریادی بن جائے گا۔''چار ہزار برس پرانی اس کہانی کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ''زبان'' اس وقت بھی اپنی بات کہنے اور حق کا اظہار کرنے کے لیے کس طور ایک موثر ہتھیار کے مانند استعمال کی جاتی تھی اور اس وقت کے ''منتظم اعلیٰ'' بھی آج کے ''چیف ایگزیکٹو'' جتنا ہی اقتدار اور اسی جیسی شانِ بے نیازی رکھتے تھے۔ کہنے کو اکیسویں صدی شروع ہوچکی ہے اور کچھ لوگ اسے انسانی حقوق کے عروج کی صدی قرار دینے پر مصر رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صدی بھی ابھی تک ان لوگوں کے لیے کوئی نوید لے کر نہیں آئی جو مظلوم طبقات کی آواز کو اپنی تخلیقات میں زبان دیتے ہیں۔
بہت سے امید پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا ماضی سے بہت مختلف ہے۔ بہت سے حقائق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کو بلاتفریق یکساں حقوق اور یکساں مواقع حاصل ہونے چاہیے۔ بنیادی انسانی حقوق کرہ ارض پر رہنے والے ہر فرد کا ناقابلِ تنسیخ حق بن چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو عالمی پذیرائی مل چکی ہے، انتہا پسندی کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے، جبر اور استحصال کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہورہاہے۔ ہم جیسے تمام ترقی پذیر ملکوں کو یہ حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ جائز حقوق مانگنے اور اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف زبان کے غلط استعمال سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا تادیر ممکن نہیں رہے گا۔
اعلیٰ افسروں تک جن کی رسائی ہوتی تھی ان کو فون کی سہولت میسر ہوجایا کرتی تھی باقی لوگ اس ''نعمت'' سے محرم رہا کرتے تھے۔ ٹیلی فون لگ جائے تو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک رابطہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ٹرنک کال بک کرانے کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تب کہیں جاکر چند منٹوں تک بات کرنی ممکن ہوسکتی تھی۔
خط و کتابت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا خط روانہ کرنے اور جواب وصول کرنے میں ہفتوں بلکہ مہینوں بھی لگ جایا کرتے تھے۔ تار خوف کی علامت ہوا کرتا تھا کیوں کہ کسی بڑے واقعے سے مطلع کرنے کے لیے اس ذریعے کو کام میں لایا جاتا تھا،جب تک یہ صورت حال تھی اس وقت تک زبان کو بہت بڑے پیمانے پر تذلیل اور تضحیک کے لیے استعمال کرنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ اب معاملہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے، ہر دوسرے فرد کے ہاتھوں میں سیل فون ہے، وہ جب چاہے کسی سے بات کرسکتا ہے۔
دنیا میں کہیں بھی رہنے والے کسی فرد کو کوئی پیغام بھیج سکتا ہے۔ تصویر اور وڈیو بناکر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو شیئر کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی سہولت ہے جو انسان کو 21 ویں صدی میں حاصل ہوئی ہے، لیکن اس کے ذریعے جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس نوعیت کی کردار کشی کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہوسکتا ہے یہ عارضی مظہر ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ اعتدال اور توازن پیدا ہوجائے۔
ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اطلاعاتی انقلاب کے ذریعے تاریخ کے وہ ''سچ'' بھی سامنے آرہے ہیں جن سے پہلے بہت کم لوگ ہی واقف ہوا کرتے تھے۔ ماضی قدیم سے لے کر 21 ویں صدی کی موجود دہائی تک زبان اکثر ظلم کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر کام آتی ہے۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال سقراط کی ہے۔
اس کے خیالات اور خطبات سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایتھنز کی شہری ریاست نے اسے زہر کا پیالہ پلایا اور اپنے حسابوں اس کی آواز خاموش کردی لیکن آج ڈھائی ہزار برس بعد بھی اس کے خیالات دنیا کی تمام بڑی اور چھوٹی زبانوں میں موجود ہیں، اس کے سچے الفاظ کی فصلیں ہر زمین اور ہر زمانے میں لہلہاتی رہی ہیں اور اس بات کا اظہارکرتی رہی ہیں کہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے زبان سے بڑا اور موثر ہتھیار دنیا میں پایا نہیں جاتا۔
دس لاکھ سال یا شاید اس سے بھی پہلے جب ہم گروہ در گروہ جنگلوں میں رہتے تھے تو ہم نے بولنے کا آغاز کیا تھا۔ پہلے ہم بھی دوسرے جانوروں کی طرح محض آوازیں نکالتے ہوں گے لیکن جیسے جیسے ہماری ضرورتیں پیچیدہ ہوتی گئیں، ہم ان آوازوں کو ایک ترتیب اور تفہیم دیتے گئے اور اب دنیا کے مختلف خطوں میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ہزاروں برس سے فطرت ہمارے وجود میں آتے ہی سماعت کے ذریعے زبان کا بیج ہمارے ذہن کی زرخیز فضا میں بو دیتی ہے، یہ بیج دو سے تین برس کی عمر کے دوران پہلا پھول لے آتا ہے اور پھر عمر، تجربے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری زبان کی پھلواری ہری بھری ہوتی جاتی ہے۔ بلوغت کے بعد جب ہم سماجی تضادات اور ان سے ابھرنے والے ردّ ِعمل کا اظہار کرتے ہیں تو زبان آپس میں صرف بول چال اور تبادلہ خیال کا ہی ذریعہ نہیں رہتی، یہ ایک اوزار اور ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔
تاریخ میں انسان نے زبان کو گروہی، صنفی، علاقائی یا مذہبی بالادستی اور مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ رجز اور جنگی نغمے اپنی ایک مخصوص زبان رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رزمیہ شاعری لوگوں کو ہتھیار اٹھانے اور دشمن کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کسی خاص مذہب کے پھیلاؤ یا وطن کی آزادی کے حصول کے لیے بھی نثر اور شاعری کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انقلابی گیت آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتے ہیں۔
''زبان'' آج سے نہیں ہزاروں برس سے سماج میں تبدیلی لانے کا ایک نہایت اہم اور موثر ذریعہ رہی ہے، اسی لیے تاریخ میں باضمیر شاعر، ادیب اور مورخ، مقتدر طبقات کے لیے ایک ناپسندیدہ عنصر رہے ہیں۔ قدیم مصری ادب کی تاریخ اٹھا کر پڑھیے تو اس میں ہمیں ایسے کئی ادیب نظر آئیں گے جنھوں نے زبان کا باغیانہ استعمال کیا اور ساری عمر قید خانوں میں گزار دی اور کچھ ایسے بھی تھے جو اس زمانے کے فرعون کے حکم سے قتل کیے گئے۔
زبان صرف ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ہی نہیں، ظلم کو فروغ دینے اور جھوٹ کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے لیکن زبان کو غلط طور پر برتنے کا رویہ آخرکار پسپا ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس بارے میں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ ''زبان'' کو ادیبوں نے سچ کے فروغ کے لیے کس کس طرح استعمال کیا ہے اس کا اندازہ تقریباً 4000 برس پرانی اس مصری کہانی سے لگایا جاسکتا ہے جو بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئی تھی۔ یہ کہانی ایک کسان کی زبانی بیان کی گئی ہے اور اس میں وہ ملک کے ''منتظم اعلیٰ'' سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
''اے منتظم اعلیٰ! میرے آقا! آدمیوں کی ترازو، ان کی زبان ہوتی ہے اور پلڑوں سے (وزن میں) کمی کا پتہ چلتا ہے، سو جسے سزا ملنی چاہیے اسے سزا دے۔ کوئی تیری راست روی کا ثانی نہیں ہوگا۔ جہاں تک جھوٹ کا سوال ہے (اس کا معاملہ تمام ہوا) کیونکہ سچ اس کے مقابلے میں آگیا ہے۔ اگر جھوٹ چلتا پھرتا ہے تو یہ راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کشتی میں سوار ہوکر پار نہیں لگ سکتا۔ جھوٹ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جو اس جھوٹ کے ذریعے دولت مند بنتا ہے اس کی اولاد نہیں ہوتی۔ زمین پر اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو اس جھوٹ کے ساتھ جہاز میں سفر کرتا ہے وہ خشکی پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کا جہاز اس کے شہر میں لنگر انداز نہیں ہوسکتا۔ جانبداری مت کر۔ اپنے دل کا کہا مت سن۔ جسے تُو جانتا ہے اس سے اپنا منہ مت چھپا۔ جسے تُونے دیکھ لیا ہے اس سے آنکھیں اندھی مت کر، جو تجھ سے فریاد کرے اسے ٹھکرا مت۔ یہ کاہلی چھوڑ تاکہ سب لوگوں میں تیری یہ ضرب المثل دہرائی جائے (کہ) ''جو تیری مددکرتا ہے تُو اس کی مدد کر۔'' تاکہ آدمی اپنے جائز مؤقف کی خاطر تجھ سے فریاد کرسکے۔
کاہل آدمی کی کوئی گزری ہوئی کل نہیں ہوتی، جو سچائی کی طرف سے بہرا بن جائے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ لالچی انسان کے لیے خوشی کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ جو آج معزز ہے وہ کل مفلسی کا شکار ہوسکتا ہے اور مفلس فریادی بن جائے گا۔''چار ہزار برس پرانی اس کہانی کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ''زبان'' اس وقت بھی اپنی بات کہنے اور حق کا اظہار کرنے کے لیے کس طور ایک موثر ہتھیار کے مانند استعمال کی جاتی تھی اور اس وقت کے ''منتظم اعلیٰ'' بھی آج کے ''چیف ایگزیکٹو'' جتنا ہی اقتدار اور اسی جیسی شانِ بے نیازی رکھتے تھے۔ کہنے کو اکیسویں صدی شروع ہوچکی ہے اور کچھ لوگ اسے انسانی حقوق کے عروج کی صدی قرار دینے پر مصر رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صدی بھی ابھی تک ان لوگوں کے لیے کوئی نوید لے کر نہیں آئی جو مظلوم طبقات کی آواز کو اپنی تخلیقات میں زبان دیتے ہیں۔
بہت سے امید پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا ماضی سے بہت مختلف ہے۔ بہت سے حقائق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کو بلاتفریق یکساں حقوق اور یکساں مواقع حاصل ہونے چاہیے۔ بنیادی انسانی حقوق کرہ ارض پر رہنے والے ہر فرد کا ناقابلِ تنسیخ حق بن چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو عالمی پذیرائی مل چکی ہے، انتہا پسندی کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے، جبر اور استحصال کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہورہاہے۔ ہم جیسے تمام ترقی پذیر ملکوں کو یہ حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ جائز حقوق مانگنے اور اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف زبان کے غلط استعمال سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا تادیر ممکن نہیں رہے گا۔