سچ لاپتہ ہوگیا ہے
ہر حکومتی جھوٹ کا سب سے پہلا اثر ہی عام لوگوں پر پڑتا ہے
وزیراعظم عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل پاکستان کو اپنی حکومت میں ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور تبدیلی حکومت کے اقتدار کو تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور عوام اس ریاست کی تلاش میں ہیں جس میں حق دار کو جلد انصاف مل جاتا تھا۔
ریاستی حکام دروغ گوئی سے دور رہتے تھے اور نہ اپنے دوستوں کو نوازتے تھے بلکہ ہمارے خلفائے راشدین نے اقتدار کو عوام پر حاکمیت کا ذریعہ نہیں بنایا تھا۔ سرکاری طور انھیں بھی اتنا ہی کپڑا ملتا تھا جتنا عام لوگوں کو۔ انھوں نے کبھی نہیں کہا تھا کہ سرکاری تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس جیسے عالی شان محل نہیں تھے بلکہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر ریاست مدینہ کے معاملات چلائے جاتے تھے۔
اس وقت کے گورنر آج جیسے وسیع اور خوبصورت گورنر ہاؤسز میں نہیں رہتے تھے اور عوام کی خلفائے راشدین، گورنروں اور انصاف کرنے والے قاضیوں پر بھی نظر ہوتی تھی ایک شخص نے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے زیادہ کپڑے سے بنائے ہوئے لباس پر بھی اعتراض کیا تھا کہ اضافی کپڑا کہاں سے لیا گیا مال غنیمت مساوی طور تقسیم ہوتا تھا۔ انصاف فراہمی کی مثال تھی کہ قاضی، خلیفہ وقت کو طلب کرکے سوالات کیا کرتا تھا۔
ریاست مدینہ میں خلیفہ وقت کو آج کے صدر پاکستان کی طرح عدالتی استثنیٰ حاصل نہیں تھا نہ انصاف کا انتظار کرنے میں برسوں لگتے تھے ، اگر کسی حاکم کے فیصلے پر اعتراض ہوتا تو اس کا معاملہ آج کی طرح لٹکایا نہیں جاتا تھا۔ اس وقت کوئی پارٹی تھی نہ اس کے اکاؤنٹس میں دوسرے ملکوں سے سرمایہ آتا تھا اور کسی شخص کو چھ سال سے زائد عرصہ تک پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ریاست مدینہ کے حاکم غیر ملکی حکمرانوں سے قیمتی تحائف وصول کرتے تھے نہ مال غنیمت کی طرح کم قیمت پر خریدتے تھے اور نہ ہمارے حکمرانوں کی طرح قیمتی تحائف ذاتی سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔
آج بے انتہا قیمتی تحائف معمولی رقم دے کر خرید لیے جاتے ہیں اور بنوانے کے دعوے کیے جاتے ہیں حالانکہ حکمرانوں کے آنے جانے کے لیے بہترین سڑکیں ہی نہیں بلکہ حکمرانوں اور منصفوں کے لیے پرآسائش گھر بنانا، ان سرکاری گھروں ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کے کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان و دیگر شہروں میں موجود ذاتی گھروں کی آرائش، جدید سہولتوں، گاڑیوں، ملازموں کی فراہمی بھی اب سرکاری اداروں کی ذمے داری بنا دیے گئے ہیں جن پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بادشاہت نہیں جو اپنے محلوں میں مستقل رہتے تھے۔ ہمارے یہاں ہر حکمران اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے دروغ گوئی کرتا تھا نہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بتا کر دینے کے سنہری خواب دکھاتا تھا۔
ریاست مدینہ کا حکمران کمر پر آٹے کی بوری رکھ کر بھوکے خاندان کو پہنچاتا تھا اور دریائے فرات پر کتے کے بھوکے مر جانے کو بھی اپنی ذمے داری قرار دیتا تھا۔ کسی خلیفہ وقت پر دروغ گوئی، وعدے کرکے پورے نہ کرنے کا کبھی الزام نہیں لگا جب کہ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار سے تین سال میں کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا بلکہ عوام پر ہی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے اور ریاست مدینہ چاہتے اور جنت میں جانا چاہتے ہیں۔
اسلام میں حق سچ اور انصاف پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے مگر ملک میں کسی کو اس کا حق مل رہا ہے نہ سچ بولا جاتا ہے جب کہ عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں۔ یہاں عدالتی حکم امتناعی بڑوں کو فوراً مل جاتا ہے اور وہ دھاندلی ثابت ہو جانے پر بھی اپنی مدت پوری کرلیتے ہیں۔ عدالتوں میں حلف اٹھا کر جھوٹ بولنا معمول، خود منصفوں کو سالوں انصاف نہیں ملتا بلکہ مقدمات سماعت کے لیے سالوں منتظر رہتے ہیں۔
سپرپاور امریکا ہم سے کچھ مانگتا نہیں بلکہ ہمارے وزیر سرعام کہتے ہیں کہ ہمیں ''ایبسولوٹلی ناٹ'' کہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ قائمہ کمیٹی میں سی پیک میں تاخیر کا ثبوت ملتا ہے مگر حکومت اپنی غلطی ماننے کے بجائے جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں مصروف ہے۔ ہر بجٹ میں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ مہنگائی نہیں ہوگی مگر بجٹ پاس ہوتے ہی حکومت مہنگائی خود بڑھا دیتی ہے۔
ہمیشہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ہمارے فیصلوں کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا جب کہ ہر حکومتی جھوٹ کا سب سے پہلا اثر ہی عام لوگوں پر پڑتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی دروغ گوئی ہوتی رہی مگر تبدیلی حکومت میں غلط بیانیوں، گمراہ کن دعوؤں سے ملک کو دروغستان بنا دیا گیا ہے اور دروغ گوئی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرا دیے گئے ہیں اور ملک ریاست مدینہ کیا بنتا ریاست دروغستان بنا دی گئی ہے۔