حکومتی پالیسیاں اور قومی صحت
بائیسکل سواری کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملک آلودگی سے محفوظ رہتا ہے
وطنِ عزیزکے اکثریتی عوام'' بظاہر'' چیخ رہے ہیں کہ چینی اور پٹرول کی قیمتیں حد سے بڑھ کر عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ چینی کی قیمت 160روپے فی کلو اور پٹرول145روپے فی لٹر ہو چکا ہے ۔ چند دن پہلے ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے ٹی وی پر آکر پوری قوم سے خطاب فرمایا تھا۔
اس شہرۂ آفاق قومی خطاب میں انھوں نے جہاں پاکستان کے دو کروڑ غریب خاندانوں میں 120ارب روپے کی خطیر رقم کی سبسڈی دینے کا اعلان فرمایا تھا، وہیں یہ بھی متنبہ کر دیا تھا کہ ممکن ہے جلد ہی پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑ جائیں ۔ ابھی اُن کے اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہو پائی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں 8روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ۔
ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ۔ نجی ٹی ویوں اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز و اسلوب میں حکومت اور خانصاحب کے خلاف محاذ کھول دیے گئے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ پٹرول اور چینی کی قیمتوں میں '' مبینہ طور پر '' اضافے کے پردے میں دراصل ہمارے محبوب وزیر اعظم پوری قوم کی صحت بنانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ حیرت مگر یہ ہے کہ میرے سمیت کوئی بھی اُن کی نصیحت اور صحت آمیز پر وگرام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
پٹرول کی قیمت میں ''مبینہ طور پر کمر شکن'' اضافے پررونے دھونے اور احتجاج میں واویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس اقدام کے پسِ پردہ وزیر اعظم صاحب پاکستان کے 22کروڑ عوام کی صحت بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ پٹرول دسترس میں نہیں ہوگا تو بسوں،ویگنوں اور ٹیکسیوں کے کرایوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ اضافہ عوام افورڈ نہیں کر سکیں گے تو لا محالہ طور پر شہریوں کی اکثریت بائیسکل کا استعمال کرے گی ۔
نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام کی اکثریت ، جو کاروں اور بسوں پر سفر کرنے کی سہل انگاری کی عادی ہو چکی ہے ، سائیکل چلا کر صحت کی طرف گامزن ہو جائے گی ۔ قوم صحتمند ہوگی تو پورا ملک تندرست ہو گا۔ ملک بھر کے اسپتالوں پر بیماروں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ یوں ایک سادہ سے نسخے اور اقدام سے ہمارے محبوب وزیر اعظم نے پوری قوم کے اجتماعی مفاد میں ایک شاندار فیصلہ کیا ہے ۔ قوم مگر ہے کہ نا شکری ہو کر وزیر اعظم صاحب کی نقاد بن رہی ہے ۔
پٹرول کی قیمت میں ''ذرا سا اضافہ '' کرکے وزیر اعظم جناب عمران خان نے دراصل بالواسطہ قوم کی صحت بنانے کا پروگرام بنایا ہے ۔ اُلٹا ہم سب اُن کے درپے ہو رہے ہیں ۔ جوں جوں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے ہوں گے، پوری قوم کی صحت سنوارنے کے حوالے سے جناب عمران خان کے فیصلے احسان بن کر روشن تر ہوتے جائیں گے۔
ہمیں احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے ۔ قوم کی صحت بحال کرنے اور سنوارنے کے حوالے سے اس احسان کو اگر ملک بھر میں کسی شخص نے مانا اور پہچانا ہے تو وہ جناب بہرہ مند خان تنگی ہیں ۔چار سدہ کے علاقے ''تنگی'' سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی صاحب نے پٹرول کی قیمتوں سے تنگ آ کر یہ حیران کن اقدام نہیں کیا بلکہ وہ جناب عمران خان کے وضع کردہ صحت بنانے کے نئے اصولوں پر عمل کرنے والے اوّلین فرد کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔
ایوانِ بالا کے رکن بہرہ مند خان تنگی صاحب کہنے کو تو پیپلز پارٹی کے نہایت مشہور اور وفادار جیالے ہیں ۔ لیکن انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر جناب آصف علی زرداری کے نہیں ، جناب عمران خان کے پیروکار ہیں ۔ پٹرول میں تازہ ترین اضافے کے دوسرے روز جب تنگی صاحب سینیٹ کا اجلاس اٹینڈ کرنے آئے تو بائیسکل پر سوار تھے ۔ ہم سب نے انھیں سائیکل پر سوار آتے یوں دیکھا کہ ایک معاون انھیں سائیکل پر سہارا دیے کشاں کشاں لا رہا تھا۔تین سال قبل جب سینیٹ کے انتخاب ہو رہے تھے تو میڈیا میں یہ کہا گیا تھا کہ تنگی صاحب مالی طور پر سب سے کمزور اُمیدوار ہیں ۔
تنگی صاحب نے خود بھی کہا تھا کہ ''میری تنگدستی کے باوصف جناب آصف علی زرداری نے میری کمٹمنٹ دیکھ کر مجھے سینیٹ کا ٹکٹ دیا ہے ۔''وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے ۔ لیکن اب بائیسکل پر سوار ہو کر وہ سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہُوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کا ہاتھ اب بھی خدا نخواستہ تنگ ہے ۔ نہیں ، بلکہ جناب بہر مند خان تنگی نے وزیر اعظم پاکستان کے نئے نسخے پر عمل کرکے قوم کو اپنے عمل سے بتایا ہے کہ قومیں یوں صحتمند ہُوا کرتی ہیں ۔
منتخب ہونے سے قبل جناب عمران خان ویسے تو یہ دلکش ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ دیکھیے آزاد قوموں کے مغربی وزرائے اعظم سائیکلوں پر بھی اپنے دفاتر آتے ہیں ۔ اس بیان کا قوم نے از خود یہ ترجمہ کر لیا تھا کہ ڈٹ کر کھڑا ہونے والا عمران خان اقتدار کے سنگھاسن پر رونق افروز ہوگا تووہ بھی مغربی ممالک کے دیانتدار وزرائے اعظم کی مانند بائیسکل ہی پر سوار ہو کر پرائم منسٹر سیکریٹریٹ تشریف لایا کریں گے ۔ بائیس کروڑ عوام کی منتظر آنکھیں یہ موعودہ اور جانفزا منظر دیکھنے کو ترس گئی ہیں ۔ پلک جھپکتے میں تین سال گزر گئے ہیں لیکن یہ منظر اسلام آبادکے اُفق پر ہنوذ طلوع نہیں ہو سکا ۔ اس صحت افزا، سادہ نسخے پر اگر کسی نے عمل کرکے دکھایا ہے تو وہ فقط سینیٹر بہر مند خان تنگی ہیں ۔
وزیر اعظم جناب عمران خان اسپورٹس مین رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ماشاء اللہ اب بھی باقاعدہ کسرت کرتے ہیں ۔ انھیں فِٹ رہنے کے لیے شاید بائیسکل چلانے کی حاجت نہیں ہے لیکن پوری قوم کو وہ بائیسکل پر سوار کروا کر صحتمند دیکھنے کے شدید آرزُو مند ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک چین کے شہریوں کی اکثریت بائیسکل سوار تھی ، چینی صحتمند تھے۔
جب سے انھیں کاروں میں بیٹھنے کی بُری لَت پڑی ہے، سست اور کاہل الوجود ہو گئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نہیں چاہتے کہ پاکستان کے اکثریتی عوام بھی بسوں، کاروں ، ویگنوں اور ٹیکسیوں میں سوار ہو کر سفر کریں اور نکمے ہو کر رہ جائیں ؛ چنانچہ وہ پٹرول کی قیمتوں میں جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ اور مستقل مزاجی سے اضافہ کرتے جا رہے ہیں ، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پوری قوم کے محسن قبلہ عمران خان صاحب خدانخواستہ اپنی قوم کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ تو بالواسطہ قوم کی صحت بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بائیسکل سواری کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملک آلودگی سے محفوظ رہتا ہے ۔ پاکستان میں ویسے بھی آلودگی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔ سائیکل سوار ماحول دوست بھی ثابت ہوتے ہیں ۔ یوں پوری قوم کو سائیکل پر سوار کروا کر خان صاحب پاکستان میں آلودگی کم کروانے کے متمنی بھی ہیں۔اِسی طرح عمران خان کی حکومت چینی کی قیمتوں میں اس لیے مسلسل اضافہ کررہی ہے کہ قوم کم سے کم چینی استعمال کرے تاکہ پوری قوم کو شوگر کے مہلک امراض سے بچایا جا سکے۔ ہم مگرعجب قوم ہیں کہ اچھی صحت کے حوالے سے وزیر اعظم کے کیے گئے مستحسن اقدامات کو سراہنے اور ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔اُلٹا پی ڈی ایم کی قیادت عمران خان کے خلاف دسمبر میں کوئی ''ملک گیر'' مارچ شارچ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے ۔
اس شہرۂ آفاق قومی خطاب میں انھوں نے جہاں پاکستان کے دو کروڑ غریب خاندانوں میں 120ارب روپے کی خطیر رقم کی سبسڈی دینے کا اعلان فرمایا تھا، وہیں یہ بھی متنبہ کر دیا تھا کہ ممکن ہے جلد ہی پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑ جائیں ۔ ابھی اُن کے اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہو پائی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں 8روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ۔
ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ۔ نجی ٹی ویوں اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز و اسلوب میں حکومت اور خانصاحب کے خلاف محاذ کھول دیے گئے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ پٹرول اور چینی کی قیمتوں میں '' مبینہ طور پر '' اضافے کے پردے میں دراصل ہمارے محبوب وزیر اعظم پوری قوم کی صحت بنانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ حیرت مگر یہ ہے کہ میرے سمیت کوئی بھی اُن کی نصیحت اور صحت آمیز پر وگرام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
پٹرول کی قیمت میں ''مبینہ طور پر کمر شکن'' اضافے پررونے دھونے اور احتجاج میں واویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس اقدام کے پسِ پردہ وزیر اعظم صاحب پاکستان کے 22کروڑ عوام کی صحت بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ پٹرول دسترس میں نہیں ہوگا تو بسوں،ویگنوں اور ٹیکسیوں کے کرایوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ اضافہ عوام افورڈ نہیں کر سکیں گے تو لا محالہ طور پر شہریوں کی اکثریت بائیسکل کا استعمال کرے گی ۔
نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام کی اکثریت ، جو کاروں اور بسوں پر سفر کرنے کی سہل انگاری کی عادی ہو چکی ہے ، سائیکل چلا کر صحت کی طرف گامزن ہو جائے گی ۔ قوم صحتمند ہوگی تو پورا ملک تندرست ہو گا۔ ملک بھر کے اسپتالوں پر بیماروں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ یوں ایک سادہ سے نسخے اور اقدام سے ہمارے محبوب وزیر اعظم نے پوری قوم کے اجتماعی مفاد میں ایک شاندار فیصلہ کیا ہے ۔ قوم مگر ہے کہ نا شکری ہو کر وزیر اعظم صاحب کی نقاد بن رہی ہے ۔
پٹرول کی قیمت میں ''ذرا سا اضافہ '' کرکے وزیر اعظم جناب عمران خان نے دراصل بالواسطہ قوم کی صحت بنانے کا پروگرام بنایا ہے ۔ اُلٹا ہم سب اُن کے درپے ہو رہے ہیں ۔ جوں جوں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے ہوں گے، پوری قوم کی صحت سنوارنے کے حوالے سے جناب عمران خان کے فیصلے احسان بن کر روشن تر ہوتے جائیں گے۔
ہمیں احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے ۔ قوم کی صحت بحال کرنے اور سنوارنے کے حوالے سے اس احسان کو اگر ملک بھر میں کسی شخص نے مانا اور پہچانا ہے تو وہ جناب بہرہ مند خان تنگی ہیں ۔چار سدہ کے علاقے ''تنگی'' سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی صاحب نے پٹرول کی قیمتوں سے تنگ آ کر یہ حیران کن اقدام نہیں کیا بلکہ وہ جناب عمران خان کے وضع کردہ صحت بنانے کے نئے اصولوں پر عمل کرنے والے اوّلین فرد کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔
ایوانِ بالا کے رکن بہرہ مند خان تنگی صاحب کہنے کو تو پیپلز پارٹی کے نہایت مشہور اور وفادار جیالے ہیں ۔ لیکن انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر جناب آصف علی زرداری کے نہیں ، جناب عمران خان کے پیروکار ہیں ۔ پٹرول میں تازہ ترین اضافے کے دوسرے روز جب تنگی صاحب سینیٹ کا اجلاس اٹینڈ کرنے آئے تو بائیسکل پر سوار تھے ۔ ہم سب نے انھیں سائیکل پر سوار آتے یوں دیکھا کہ ایک معاون انھیں سائیکل پر سہارا دیے کشاں کشاں لا رہا تھا۔تین سال قبل جب سینیٹ کے انتخاب ہو رہے تھے تو میڈیا میں یہ کہا گیا تھا کہ تنگی صاحب مالی طور پر سب سے کمزور اُمیدوار ہیں ۔
تنگی صاحب نے خود بھی کہا تھا کہ ''میری تنگدستی کے باوصف جناب آصف علی زرداری نے میری کمٹمنٹ دیکھ کر مجھے سینیٹ کا ٹکٹ دیا ہے ۔''وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے ۔ لیکن اب بائیسکل پر سوار ہو کر وہ سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہُوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کا ہاتھ اب بھی خدا نخواستہ تنگ ہے ۔ نہیں ، بلکہ جناب بہر مند خان تنگی نے وزیر اعظم پاکستان کے نئے نسخے پر عمل کرکے قوم کو اپنے عمل سے بتایا ہے کہ قومیں یوں صحتمند ہُوا کرتی ہیں ۔
منتخب ہونے سے قبل جناب عمران خان ویسے تو یہ دلکش ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ دیکھیے آزاد قوموں کے مغربی وزرائے اعظم سائیکلوں پر بھی اپنے دفاتر آتے ہیں ۔ اس بیان کا قوم نے از خود یہ ترجمہ کر لیا تھا کہ ڈٹ کر کھڑا ہونے والا عمران خان اقتدار کے سنگھاسن پر رونق افروز ہوگا تووہ بھی مغربی ممالک کے دیانتدار وزرائے اعظم کی مانند بائیسکل ہی پر سوار ہو کر پرائم منسٹر سیکریٹریٹ تشریف لایا کریں گے ۔ بائیس کروڑ عوام کی منتظر آنکھیں یہ موعودہ اور جانفزا منظر دیکھنے کو ترس گئی ہیں ۔ پلک جھپکتے میں تین سال گزر گئے ہیں لیکن یہ منظر اسلام آبادکے اُفق پر ہنوذ طلوع نہیں ہو سکا ۔ اس صحت افزا، سادہ نسخے پر اگر کسی نے عمل کرکے دکھایا ہے تو وہ فقط سینیٹر بہر مند خان تنگی ہیں ۔
وزیر اعظم جناب عمران خان اسپورٹس مین رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ماشاء اللہ اب بھی باقاعدہ کسرت کرتے ہیں ۔ انھیں فِٹ رہنے کے لیے شاید بائیسکل چلانے کی حاجت نہیں ہے لیکن پوری قوم کو وہ بائیسکل پر سوار کروا کر صحتمند دیکھنے کے شدید آرزُو مند ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک چین کے شہریوں کی اکثریت بائیسکل سوار تھی ، چینی صحتمند تھے۔
جب سے انھیں کاروں میں بیٹھنے کی بُری لَت پڑی ہے، سست اور کاہل الوجود ہو گئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نہیں چاہتے کہ پاکستان کے اکثریتی عوام بھی بسوں، کاروں ، ویگنوں اور ٹیکسیوں میں سوار ہو کر سفر کریں اور نکمے ہو کر رہ جائیں ؛ چنانچہ وہ پٹرول کی قیمتوں میں جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ اور مستقل مزاجی سے اضافہ کرتے جا رہے ہیں ، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پوری قوم کے محسن قبلہ عمران خان صاحب خدانخواستہ اپنی قوم کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ تو بالواسطہ قوم کی صحت بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بائیسکل سواری کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملک آلودگی سے محفوظ رہتا ہے ۔ پاکستان میں ویسے بھی آلودگی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔ سائیکل سوار ماحول دوست بھی ثابت ہوتے ہیں ۔ یوں پوری قوم کو سائیکل پر سوار کروا کر خان صاحب پاکستان میں آلودگی کم کروانے کے متمنی بھی ہیں۔اِسی طرح عمران خان کی حکومت چینی کی قیمتوں میں اس لیے مسلسل اضافہ کررہی ہے کہ قوم کم سے کم چینی استعمال کرے تاکہ پوری قوم کو شوگر کے مہلک امراض سے بچایا جا سکے۔ ہم مگرعجب قوم ہیں کہ اچھی صحت کے حوالے سے وزیر اعظم کے کیے گئے مستحسن اقدامات کو سراہنے اور ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔اُلٹا پی ڈی ایم کی قیادت عمران خان کے خلاف دسمبر میں کوئی ''ملک گیر'' مارچ شارچ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے ۔