پاک ترک ادب ترجمہ رشتے اور مستقبل
ناگزیر ہے کہ اردو ترکی ترجمے کی روایت میں وسعت پیدا کی جائے
KARACHI:
قرآن حکیم کے تراجم بار بار ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح غالب اور اقبال کے فارسی کلام کے۔ایسا کیوں ہوتا ہے اس سوال پر میں اکثر غور کرتا اور سوچتا پھر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر یہ فرض کر لیتا کہ برکت کے لیے، محبت کے لبالب بھرے ہوئے جذبات کی تسکین کے لیے یا پھر اس لیے کہ چلیے، اور کوئی مقصد پورا ہوتا ہے، ہو، نہیں ہوتا نہ ہو، ایک علمی سرگرمی تو بہرحال یہ ہے اور وہ بھی ایسی کہ ایک پنتھ کئی کاج، کتاب کی کتاب، نام کا نام اور بوقت ضرورت ترقی کی ترقی۔
کسی معاملے کا اس کے تاریک رخ سے جائزہ لینے میں ایسا کوئی خاص ہرج نہیں ہے کہ ہماری علمی روایت میں ایسی وارداتوں کا چلن عام ہے، کہیں اس میں کوئی کوتاہی رہ جائے تو ہم لوگ از راہ غیبت پروری یہ کمی پوری کر لیتے ہیں۔
میرا یہ انداز فکر پانی کے اسی رخ پر بہتا رہتا، اگر بیچ میں استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نہ آ جاتے۔ ایک زمانہ بیتا، اقبال کی مثنوی' پس چہ بائید کرد، اے اقوام شرق' کا ترجمہ کر کے انھوں نے نیک نامی کمائی۔ اب کچھ دن ہوتے ہیں کہ ایک اور اردو ترجمہ اس مثنوی کا شایع ہوا ہے اور صاحب ترجمہ صاحب علم ہی نہیں مصنف کثیر التعداد کتب بھی ہیں۔ چوں کہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں، اس لیے ترقی وغیرہ کے آزار سے بھی نجات پا چکے ہیں،پھر انھوں نے یہ ترجمہ کیوں کیا؟ یہ سوال میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔
کچھ دن ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی معیت میں بردر میں مجھے محمد عاکف ایر سوئے یونیورسٹی جانے کا موقع ملا، یہ یونیورسٹی کیا ہے؟ آپ یہ جان لیں تو آپ جنگل میں منگل والا اردو کا یہ محاورہ بآسانی سمجھ لیں۔ شاعر کبیر محمد عاکف ایر سوئے سے منصوب یہ جامعہ واقعی ایک ایسا گلشن ہے جسے کسی نے نہایت احتیاط اور پیار سے کسی آراستہ کیا ہے۔
محبت کے ایسے منطقوں سے علم اور پیار و محبت کی خوشبو اٹھتی ہے تو انسان بے اختیار ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔ بس، اس شام برادر محترم ڈاکٹر محمد کامران اور میں نے ڈاکٹر صاحب کو رہنما بنایا اور زمستانی ہواں کا لطف لینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جنگل تو اسرار کے گھر ہوتے ہیں، خاص طور پر ان کی راتیں۔ بس، وہ بھی کچھ ایسی ہی رات تھی جس کی قلب و روح کو یخ کر دینے والی ہوا کا لطف لینے کے لیے یہ مسافر نکلے تھے، عین اس وقت جب سالدہ جھیل سے آنے والی سیٹیاں بجاتی ہوا نے ہمارے کانوں میں گدگدی کی، اسی اثنا میں کچھ درندوں کی آواز ایک کورس کی صورت بلند ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ کسی جنس غیر کے دانتوں کا تر نوالہ بننے سے بہتر ہے کہ واپس لوٹ چلیں۔ یہ خیال ڈاکٹر کامران کو بھایا نہیں۔ انھوں نے منطق کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ درندہ خواہ کتنا ہی خونی کیوں نہ ہو، تین افراد پر حملہ نہیں کرتا۔ مخدومی ڈاکٹر سعادت سعید نے یہ سخن سنا اور جنگل سے ہی گہرے اور رازدانہ لہجے میں گویا ہوئے کہ اگر وہ بھی تعداد میںتین ہوئے تو؟ مہم جوئی کا سارا دم خم ہوا ہو گیا۔
ترجمے کی بات چھڑی تو یہ جملہ میرے ذہن میں تازہ تھا، اسی سبب سے خیال ہوا کہ اس ذہن رسا سے جانے کیسا پھڑکتا ہواجملہ سرزد ہو اور اس سے میرا سوال پھلجھڑی کی طرح ٹمٹما کر رہ جائے لیکن وہ استاد ہی کیا جس مسکراہٹ میں بھی دانش کی پھوار نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ سوال سنا تو ترک چائے کا ہونٹوں کی طرف جاتا ہوا مخروطی پیالہ میز پر رکھ کر فرمایا:
'' ترجمہ ہم اس لیے کرتے ہیں تاکہ خود سمجھ سکیں''۔
ڈاکٹر صاحب نے اس ایک ہی جملے میں سارا فلسفہ پانی کر کے رکھ دیا تھا۔ ہمارے اساتذہ کی روایت یہ ہے کہ وہ ایک آدھ جملے یا کبھی کبھی کسی ایک لفظ حرف سے کوئی اشارہ کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں، آگے آپ کی بساط۔ دانش کے اس موتی سے میں یہ سمجھا کہ اول ترجمہ کرو اور خود سمجھو، یہ مرحلہ طے ہوا اور اشاعت کی نوبت آگئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی سخن فہمی افادہ عام کی منزل سے ہوتی ہوئی صدقہ جاریہ کی منزل کی طرف چل نکلی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے سخن سے میں نے ترجمے کے فن کی معراج کو جانا اور سوچا کہ اب کچھ توجہ برادر محترم پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کے موضوع کی طرف بھی ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل کا تو میں ہمیشہ سے قتیل رہا ہوں لیکن ان کی پہلی کتاب جس کے مطالعے کا مجھے موقع ملا، ترجمے پر ہی مشتمل تھی۔ ڈاکٹر صاحب میرے ہاں تشریف لاتے ہیں تو بچے انھیں گھیر کے بیٹھ جاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کسی سحر البیان قصہ گو کی طرح انھیں بتاتے ہیں کہ ترک جو فی الاصل خانہ بدوش ہیں، سردیوں کی طویل راتیں بتانے کے لیے کیسے کیسے جتن کیا کرتے تھے۔
ان میں ایک قسمت بینی بھی ہے جو ترک کافی کی چھوٹی سی پیالی میں بچ رہنے والی تلچھٹ سے بننے والی پراسرار شکلوں میں پڑھی جاتی ہے۔ ایک شب جانے کیا ہوا کہ بات قسمت بینی سے چلتی ہوئی ملا نصرالدین تک جا پہنچی، یوں معلوم ہوا ڈاکٹر صاحب نے بھی ملا صاحب کا ترجمہ کر رکھا ہے۔
یہ خوب صورت کتاب پڑھے اب تو زمانہ بیت چکا ہے بلکہ یوں کہیے کہ بار بار پڑھے لیکن جس شب ملا کے ترجمے کی بات میں نے سنی، ایک جھٹکا سا لگا۔ ہم برصغیر کے مسلمان جو بعد میں پاکستانی ہوئے، بہت خوش قسمت رہے ہیں، ملا نصیرالدین ہوں، شیخ سعدی شیرازی ہوں، یہ سب کردار ماں کی لوری کے ساتھ ہمارے کانوں میں پڑے اور ہم کبھی سوچ بھی نہ سکے کہ چھوٹی چھوٹی حکایت میں حرف نصیحت اس خوبی سے بیان کرنے والوں کا تعلق ہماری سرزمین سے نہیں۔
اس حیرت کا ایک پہلو تو یہ ہے، اس کا ایک پہلو نظریاتی بھی ہے، اسے اقبال کی زبان میں چاہے تو مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا سمجھ لیں، چاہے روح و بدن کی اس بے مثال محبت پر قیاس کر لیں جس میں ہم پاکستانی اور ترک ایسے بندھے ہیں کہ من و تو کا فرق سمجھ میں نہیں آتا۔ رشتوں کی یہ گہرائی اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر صاحب کے ترجمے سے یہ سمجھ میں آیا کہ الف لیلہ جیسی اساطیر ہوں یا ملا نصرالدین جیسی حکایات، یہ کبھی ختم نہ ہونے والا کام ہے جیسے کچھ حکایات وہ ہیں جن کے تراجم صدیوں قبل ہمارے بزرگوں نے کیے اور وہ ہماری ثقافتی روایت کا حصہ بن گئے۔
وہ بھی اس خوبی کے ساتھ کہ ان کہانیوں میں ماحول اور آب و ہوا کا فرق تک محسوس نہ ہوا لیکن ڈاکٹر خلیل طوقار کے ترجمے نے یاد دلایا کہ ثقافتی ہم آہنگی اپنی جگہ لیکن ایسا بھی نہیں کہ کوئی ترجمہ کرنے والا اٹھے اور الف تا یے، سب کچھ کو دوسری زبان کا چولا پہنا کر نچنت ہو جائے۔ کئی کام اس کے بعد بھی کرنے بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ملا نصرالدین کا جو ترجمہ کیا ہے، اسے پڑھ کر دو احساس ہوتے ہیں، اول یہ کہ ہمارے بزرگوں نے ترجمہ ضرور کیا لیکن ملا نصرالدین کا خزانہ لا متناہی ہے جسے دوسری زبانوں میں منتقل کیا جانا ابھی باقی ہے۔
دوسری بات یہ سمجھ میں آئی کہ بدلتے ہوئے وقتوں کے ساتھ زبان بھی بدلتی ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہماری دانش کی روایت ہمارے بچوں تک بھی منتقل ہو جائے تو اس لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان میں بھی جدت پیدا کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ترجمے میں یہی کارنامہ انجام دیا ہے لیکن کرنے کا ایک کام اور بھی ہے۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں گزشتہ چھ سات دہائیوں سے تعلیمی رویوں میں بے پناہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا تعلق معاش سے ہے جس نے ہمارے بچوں کو ہماری روایت اور زبان سے کاٹ کر مغربی زبانوں سے منسلک کر دیا ہے۔ اس کایا کلپ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کا رشتہ ملا نصرالدین کی ظریفانہ دانش ہی سے نہیں ٹوٹا بلکہ وہ اس تربیتی نظام سے بھی محروم ہو گئے ہیں جو ان کے بزرگوں کو میسر تھا۔ اس طرح ہمارے ادبی، لسانی اور ثقافتی رشتوں کی گہرائی اور گیرائی سطحیت کی تکلیف دہ کیفیت میں داخل ہو چکی ہے جو ہمارے مستقبل کے لیے زیادہ سود مند نہیں۔
اس لیے ناگزیر ہے کہ اردو ترکی ترجمے کی روایت میں کچھ ایسی وسعت پیدا کی جائے کہ مغربی زبانوں کے شناور ہمارے بچے ہماری قرنوں پرانی روایت سے جڑے رہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ ملا نصرالدین جیسے بزرگوں کا کام مغربی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن میرا احساس یہ ہے کہ ہمارے بچے انگریزی کے توسط سے مغربی ثقافتی روایت کی گہرائی میں تو غوطہ زن ہو جاتے ہیں لیکن ترجمے کے باوجود ہمارے بزرگوں کا ورثہ ان تک نہیں پہنچ پاتا۔
یہ کام کیسے ہو گا؟ ممکن ہے کہ ہمارے بھائی فرخ سہیل گویندی کی توجہ سے یہ مسئلہ کسی قدر حل ہوسکے۔ گویندی صاحب نے ایلف شفق اور اورحان پاموک سمیت بے شمار جدید ترک ادیبوں کو اردو میں متعارف کرایا ہے، یہ کارنامہ کچھ ایسا چھوٹا بھی نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی خدمت کا دائرہ ہم جیسے بڈھے طوطوں کے ذوق کی آبیاری ہی کر پایا ہے لیکن ہمارے بچوں کی ضرورت ہماری ضرورت سے بہت مختلف ہے۔
( پاکستانی اور ترک ادب کے ترجمے کے موضوع پر استنبول یونیورسٹی کے بین الاقوامی سمپوزیم میں پیش کیا گیا)