ناقص تفتیش سے اسلحہ ایکٹ کا ملزم ضمانت پر رہا ہوگیا
استغاثہ کی نااہلی نے قانون سازاور سیکیورٹی اداروں کی کوشش ناکام بنادی،عدالت نے ناجائز اسلحے کےملزم کی ضمانت منظور کرلی
AKRON:
بدامنی کے خلاف سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کو تفتیشی ادارے ناکام بنانے لگے، قانون ساز اداروں کے قوانین ناقص ثابت ہورہے ہیں، تفتیشی اداروں اور استغاثہ کی نااہلی نے قانون ساز اور سیکیورٹی اداروں کی تمام کوششیں ناکام کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں جاری بدامنی کے مقدمے میں غیر قانونی اسلحے کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سندھ اسمبلی نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیکر اس کی سزا7 سے بڑھاکر 14سال کردی اور غیر قانونی اسلحہ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی ہیں لیکن استغاثہ کی نااہلی کے باعث خصوصی قوانین کے باوجود ملزمان ضمانت پر رہا ہورہے ہیں، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس حسن فیروز پر مشتمل سنگل بینچ نے فرزان خان کے خلاف خصوصی تفتیشی یونٹ کے تھانے میں سندھ اسلحہ ایکٹ 2013 کے تحت درج مقدمے میں50 ہزار روپے کی ضمانت منظور کرلی ہے، محمد ندیم خان ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران عدالت نے آبزرو کیا کہ تفتیشی افسر نے قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے اور نہ ہی برآمدہ پستول کی تفصیل فراہم کیں، تمام گواہ پولیس اہلکار ہیں جبکہ ایف آئی آر میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ ملزم کو خفیہ اطلاع پر ایک چائے کے ہوٹل کے قریب سے گرفتار کیا گیا لیکن کوئی شہری اس میں گواہ نہیں ہے۔
نئے قانون میں لازمی قراردیا گیا ہے کہ ملزم کو گرفتار کرکے قریبی تھانے میں پیش کیا جائے گا اور تھانہ انچارج ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کرائے گا، لیکن تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد رضوان کے مطابق وہ ہیڈ کانسٹیبل محمد انور اور پولیس کانسٹیبل شاہ کے ہمراہ گشت پر تھا کہ اسے موبائل فون پر اطلاع ملی کہ ایک مسلح شخص شیرشاہ پراچہ بس اسٹاپ پر موجود ہے اطلاع ملتے ہی ایس آئی یو نے کارروائی کی اور ملزم کو حراست میں لے لیا جبکہ متعلقہ ریکارڈ میں پولیس ٹیم کی آمدورفت کا کوئی اندراج نہیں ہے، اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل شہزاد سلیم نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نئے قانون کے تحت غیر قانونی اسلحہ کی سزا 14سال کردی گئی ہے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہے، ملزم کو کھلی جگہ پر گواہوں کی موجودگی میں گرفتارکیا گیا ہے تاہم فاضل بینچ نے آبزرو کیا کہ درخواست گزار کے وکیل محمد ندیم خان کا موقف درست ہے کہ نئے قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا 14سال ہے لیکن کم سے کم سزا7 سال ہے اس لیے شک کافائدہ دیتے ہوئے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کاحکم دیا جاتا ہے۔
بدامنی کے خلاف سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کو تفتیشی ادارے ناکام بنانے لگے، قانون ساز اداروں کے قوانین ناقص ثابت ہورہے ہیں، تفتیشی اداروں اور استغاثہ کی نااہلی نے قانون ساز اور سیکیورٹی اداروں کی تمام کوششیں ناکام کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں جاری بدامنی کے مقدمے میں غیر قانونی اسلحے کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سندھ اسمبلی نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیکر اس کی سزا7 سے بڑھاکر 14سال کردی اور غیر قانونی اسلحہ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی ہیں لیکن استغاثہ کی نااہلی کے باعث خصوصی قوانین کے باوجود ملزمان ضمانت پر رہا ہورہے ہیں، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس حسن فیروز پر مشتمل سنگل بینچ نے فرزان خان کے خلاف خصوصی تفتیشی یونٹ کے تھانے میں سندھ اسلحہ ایکٹ 2013 کے تحت درج مقدمے میں50 ہزار روپے کی ضمانت منظور کرلی ہے، محمد ندیم خان ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران عدالت نے آبزرو کیا کہ تفتیشی افسر نے قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے اور نہ ہی برآمدہ پستول کی تفصیل فراہم کیں، تمام گواہ پولیس اہلکار ہیں جبکہ ایف آئی آر میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ ملزم کو خفیہ اطلاع پر ایک چائے کے ہوٹل کے قریب سے گرفتار کیا گیا لیکن کوئی شہری اس میں گواہ نہیں ہے۔
نئے قانون میں لازمی قراردیا گیا ہے کہ ملزم کو گرفتار کرکے قریبی تھانے میں پیش کیا جائے گا اور تھانہ انچارج ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کرائے گا، لیکن تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد رضوان کے مطابق وہ ہیڈ کانسٹیبل محمد انور اور پولیس کانسٹیبل شاہ کے ہمراہ گشت پر تھا کہ اسے موبائل فون پر اطلاع ملی کہ ایک مسلح شخص شیرشاہ پراچہ بس اسٹاپ پر موجود ہے اطلاع ملتے ہی ایس آئی یو نے کارروائی کی اور ملزم کو حراست میں لے لیا جبکہ متعلقہ ریکارڈ میں پولیس ٹیم کی آمدورفت کا کوئی اندراج نہیں ہے، اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل شہزاد سلیم نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نئے قانون کے تحت غیر قانونی اسلحہ کی سزا 14سال کردی گئی ہے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہے، ملزم کو کھلی جگہ پر گواہوں کی موجودگی میں گرفتارکیا گیا ہے تاہم فاضل بینچ نے آبزرو کیا کہ درخواست گزار کے وکیل محمد ندیم خان کا موقف درست ہے کہ نئے قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا 14سال ہے لیکن کم سے کم سزا7 سال ہے اس لیے شک کافائدہ دیتے ہوئے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کاحکم دیا جاتا ہے۔