دنیا کی روشن ترین ایکسرے مشین جو سی ٹی اسکین سے بھی 100 گنا بہتر ہے
اسے ہیئرآرکیکل فیز کنٹراسٹ ٹوموگرافی کا نام دیا گیا ہے جو روایتی سی ٹی اسکین سے 100 گنا طاقتور ہے
KARACHI:
دنیا کی سب سے روشن ایکس رے مشین تیار کی گئی ہے جو ایک جانب تو روایتی سی ٹی اسکین سے سو 100 گنا زائد تفصیل سے عکس دکھاتی ہے تو دوسری جانب کسی بھی ایسی شے کو ظاہر کرسکتی ہے جس کی جسامات ایک مائیکرون یعنی ایک میٹر کے دس لاکھویں حصے جتنی شے کو ظاہر کرسکتی ہے۔
ذراتی اسراع گر(پارٹیکل ایسلریٹر) کی مدد سے تیار کردہ اس ٹیکنالوجی کو ہیئرآرکیکل فیز کنٹراسٹ ٹوموگرافی ( ایچ آئی پی سی ٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ اب یہ تمام جسمانی اعضا کی باریک ترین تفصیلات کو تھری ڈی انداز میں ظاہر کرتی ہے۔ سب سے پہلے اسے کووڈ سے فوت شدہ ایک مریض کے پھیپھڑے پرآزمایا گیا ے جس میں خون کی نالیوں میں آکسیجن رکنے کا منظر بھی دیکھا گیا ہے۔
ایکس رے ٹیکنالوجی یورپی سنکروٹرون ریسرچ مرکز (ای ایس آر ایف) میں وضع کی گئی ہے جہاں دنیا کی روشن ترین ایکس رے حاصل کی گئ ہے جو روایتی ایکس رے سے 100 ارب گنا طاقتور ہے۔ کورونا وبا کے دوران اس پر سنجیدگی سے کام شروع کیا گیا۔ اب یہ حال ہے کہ اس سے خون کی باریک ترین نالیوں کو تھری ڈی انداز میں دیکھا جاسکتا ہے بلکہ بعض اقسام کے خلیات بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اب یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین اسی ٹیکنالوجی سے پورے انسانی جسم کا تھری ڈی اٹلس تیار کرر ہے ہیں جو دنیا بھر کے ڈاکٹروں، سرجن اور سائنسدانوں کے لیے بہت مددگار ہوگا۔ واضح رہے کہ دنیا کے طاقتور ترین ایم آر آئی اور سی ٹی اسکینر ایک ملی میٹر سے نیچے کی شے نہیں دکھا سکتے۔ لیکن نئی ٹیکنالوجی سے تیارشدہ انسانی جسمانی اٹلس پوری دنیا کے لیے مفت میں دستیاب ہوگا۔
امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کووڈ میں پھیپھڑوں پر ہونے والے نقصانات اور دیگر تفصیل کو بھی سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ اگلے مرحلے میں مشین اکتساب اور مصنوعی ذہانت سے مزید بہتر انداز میں تشخیص میں مدد مل سکے گی۔ تاہم ماہرین کی اکثریت نے اس کام کو غیرمعمولی انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔
دنیا کی سب سے روشن ایکس رے مشین تیار کی گئی ہے جو ایک جانب تو روایتی سی ٹی اسکین سے سو 100 گنا زائد تفصیل سے عکس دکھاتی ہے تو دوسری جانب کسی بھی ایسی شے کو ظاہر کرسکتی ہے جس کی جسامات ایک مائیکرون یعنی ایک میٹر کے دس لاکھویں حصے جتنی شے کو ظاہر کرسکتی ہے۔
ذراتی اسراع گر(پارٹیکل ایسلریٹر) کی مدد سے تیار کردہ اس ٹیکنالوجی کو ہیئرآرکیکل فیز کنٹراسٹ ٹوموگرافی ( ایچ آئی پی سی ٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ اب یہ تمام جسمانی اعضا کی باریک ترین تفصیلات کو تھری ڈی انداز میں ظاہر کرتی ہے۔ سب سے پہلے اسے کووڈ سے فوت شدہ ایک مریض کے پھیپھڑے پرآزمایا گیا ے جس میں خون کی نالیوں میں آکسیجن رکنے کا منظر بھی دیکھا گیا ہے۔
ایکس رے ٹیکنالوجی یورپی سنکروٹرون ریسرچ مرکز (ای ایس آر ایف) میں وضع کی گئی ہے جہاں دنیا کی روشن ترین ایکس رے حاصل کی گئ ہے جو روایتی ایکس رے سے 100 ارب گنا طاقتور ہے۔ کورونا وبا کے دوران اس پر سنجیدگی سے کام شروع کیا گیا۔ اب یہ حال ہے کہ اس سے خون کی باریک ترین نالیوں کو تھری ڈی انداز میں دیکھا جاسکتا ہے بلکہ بعض اقسام کے خلیات بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اب یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین اسی ٹیکنالوجی سے پورے انسانی جسم کا تھری ڈی اٹلس تیار کرر ہے ہیں جو دنیا بھر کے ڈاکٹروں، سرجن اور سائنسدانوں کے لیے بہت مددگار ہوگا۔ واضح رہے کہ دنیا کے طاقتور ترین ایم آر آئی اور سی ٹی اسکینر ایک ملی میٹر سے نیچے کی شے نہیں دکھا سکتے۔ لیکن نئی ٹیکنالوجی سے تیارشدہ انسانی جسمانی اٹلس پوری دنیا کے لیے مفت میں دستیاب ہوگا۔
امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کووڈ میں پھیپھڑوں پر ہونے والے نقصانات اور دیگر تفصیل کو بھی سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ اگلے مرحلے میں مشین اکتساب اور مصنوعی ذہانت سے مزید بہتر انداز میں تشخیص میں مدد مل سکے گی۔ تاہم ماہرین کی اکثریت نے اس کام کو غیرمعمولی انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔