گلاسگو میں مثبت ماحولیاتی اداکاریاں
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے چھہتر سربراہانِ مملکت و حکومت اپنے پرائیویٹ جیٹس میں آئے۔
ISLAMABAD:
اقوامِ متحدہ کے تحت گلاسگو میں ( اکتیس اکتوبر تا بارہ نومبر ) ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق چوٹی کانفرنس کو خطرناک اور ناقابلِ واپسی حد کے اندر جانے سے روکنے والی آخری بڑی کانفرنس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مگر کانفرنس کا ایجنڈہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں جس طرح اپنے اپنے مفاداتی عدسے پہن کر بال کی کھال نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے ہرگز محسوس نہیں ہو رہا کہ اس دنیا کو اپنی بربادی کی جانب تیز رفتار سفر روکنے کی کوئی عجلت ہے۔
عالمی درجہِ حرارت کو مزید ڈیڑھ سنٹی گریڈ بڑھنے سے روکنے کے لیے تشویش تو ہر تقریر میں ظاہر کی جا رہی ہے مگر اس درجہِ حرارت میں اضافے کے سب سے بڑے سبب یعنی کاربن کے اخراج کی دو ہزار تیس تک چالیس فیصد کمی کے لیے کیا کیا جائے۔اس پر محض آئیں بائیں شائیں چل رہی ہے۔
فیصلہ ساز رہنماؤں پر دباؤ بڑھانے کی خاطر سنیچر کو لندن ، نیروبی اور سڈنی سمیت متعدد شہروں میں بیک وقت عالمگیر مظاہرے بھی کیے گئے۔گلاسگو میں تو خیر مسلسل احتجاجی اکٹھ سے دنیا بھر سے جمع ہونے والے سماجی و ماحولیاتی کارکن خطاب کر رہے ہیں۔ سنیچر کو گلاسگو میں ہونے والے مظاہرے میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ان مظاہرین میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور نوعمروں کی ہے جنھیں اپنی بقیہ زندگی میں گزشتہ کسی بھی نسل کے مقابلے میں ماحولیاتی ابتری کے سنگین چیلنج کا سب سے زیادہ سامنا ہو گا۔
اگرچہ اب تک سو سے زائد ممالک دو ہزار تیس تک جنگلات کی کٹائی اور زمین کی نامیاتی اکھاڑ پچھاڑ کی روک تھام کا عہد کر چکے ہیں۔پچیس ممالک زمینی ایندھن میں مزید سرمایہ کاری اگلے برس سے روکنے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔دو ہزار چالیس تک کوئلے کے استعمال سے مکمل پرہیز کا بھی متعدد اقوام نے وچن دیا ہے۔ دو ہزار تیس تک میتھین گیس کے اخراج میں تیس فیصد کمی کے اصول سے بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ان اہداف کے حصول کے لیے ترقی پذیر اقوام کی مدد کے لیے ایک سو بلین ڈالر کے فنڈ کی تشکیل پر بھی رضامندی سامنے آئی ہے۔
البتہ آسٹریلیا سمیت کوئلہ پیدا کرنے والے کلیدی ممالک اور تیل نکالنے والی ریاستیں اور ارضیاتی ایندھن کے ارب ہا ڈالر کاروبار سے جڑی کثیر القومی کارپوریشنز کسی ایسے معجزے کے انتظار میں ہیں کہ ان کا دھندہ بھی چلتا رہے اور ماحولیاتی مسئلے کی شدت بھی خود بخود کم سے کم ہوتی چلی جائے۔
اس ناممکن ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوئلے اور تیل کی لابیاں دنیا کی مختلف پارلیمانوں کے ارکان کو رجھانے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ تاکہ دنیا دکھاوے کے لیے ایسے قوانین بنائے جائیں جو بظاہر ماحولیاتی بہتری کے لیے ہوں مگر ان میں جان بوجھ کر ایسے قانونی شگاف اور باریکیاں چھوڑ دی جائیں جن کی مدد سے ان قوانین کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو سکے اور جو بھی چاہے موم کی ناک کی طرح ان قوانین کو اپنی مفاداتی سمت کی جانب موڑ سکے۔
مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جن اہداف پر دو ہزار پندرہ کی پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں اتفاق ہوا تھا۔چھ برس گذرنے کے بعد انھی اہداف کو اگلے آٹھ برس میں حاصل کرنے میں کیسے کامیابی ہو گی ؟
اس کانفرنس کے شرکا کے لیے ہر وہ پکوان بن رہا ہے جس کے اجزائے ترکیبی ان نباتات و حیوانات پر مشتمل ہیں جنھیں سنگین بقائی خطرہ لاحق ہے۔ ان کانفرنسوں میں ماحولیاتی ابتری کے سبب بھک مری اور غذائی قلت کی شکار ایک چوتھائی عالمی آبادی پر تو بات ہوتی ہے۔مگر اس بابت موثر قانونی سازی کسی ملک کی ترجیحاتی فہرست میں نہیں کہ ہم ، ہماری فیکٹریاں اور بڑی بڑی کارپوریشنز جو تیار خوراک صنعتی پیمانے پر فروخت کر رہی ہیں۔اس میں سے آدھی خوراک بنا استعمال ضایع ہو جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی خوراک کی تیاری پر لگ بھگ دس فیصد ماحولیاتی وسائل ضایع ہو رہے ہیں۔ امریکا میں روزانہ فی کس چار ہزار کیلوریز والی خوراک تیار ہو رہی ہے۔جب کہ انسان کو اوسطاً روزانہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار کیلوریز درکار ہیں۔ اور یہ خوراکی بے مصرفیت درجہ حرارت کو بڑھانے والی لگ بھگ دس فیصد گیسی اخراج کا سبب ہے۔یہ وہ اخراج ہے جسے محض بہتر منصوبہ بندی سے کم کیا جا سکتا ہے۔ تیار خوراک کے زیاں کو دو ہزار تیس تک نصف کرنے کا ہدف ضرور موجود ہے مگر مسئلہ وہی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا ہے۔
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے چھہتر سربراہانِ مملکت و حکومت اپنے پرائیویٹ جیٹس میں آئے اور کل ملا کے کانفرنس سے چھ دن پہلے سے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس تک گلاسگو اور نواحی ایرپورٹوں پر ایک سو بیاسی پرائیویٹ مسافر اور کارگو پروازیں اتریں یا ٹیک آف کیا۔
ان پروازوں نے کاربن کے اخراج میں ٹنوں کے حساب سے اضافہ کیا۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ ماحولیاتی کانفرنس میں علامتی طور پر کمرشل پرواز سے بھی آیا جا سکتا ہے تاکہ کاربن کا اخراج پرائیویٹ جیٹ کے مقابلے میں کم از کم ہو۔گویا کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی '' دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت '' میں تبدیل ہو چکی تھی۔
اس اجتماع میں بیشتر یورپی سربراہانِ حکومت ، امریکی و چینی صدور اور مودی سمیت ترقی پذیرممالک کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔مقصد یہ تھا کہ اعلیٰ ترین سطح پر ماحولیاتی بہتری کے عہد کا اعادہ ہو سکے۔
عمران خان اگرچہ ایک ماحول دوست رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔وہ بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں پر عالمی تعریف کے بھی مستحق قرار پائے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی ابتری سے متاثر ہونے والے دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔
اس کے باوجود جہاں دیگر عالمی رہنماؤں کو گلاسگو میں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کی فرصت مل گئی۔ہمارے وزیرِ اعظم اس دوران ریاض میں صحرائی ماحولیات کی علاقائی کانفرنس میں شریک تھے۔جب کہ گلاسگو کانفرنس میں خان صاحب کے ماحولیاتی مشیر ملک امین اسلم نے پاکستان کی نمایندگی کی۔اس تجاہلِ عارفانہ پر کیا عرض کیا جائے ؟ کوئی فائدہ ؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
اقوامِ متحدہ کے تحت گلاسگو میں ( اکتیس اکتوبر تا بارہ نومبر ) ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق چوٹی کانفرنس کو خطرناک اور ناقابلِ واپسی حد کے اندر جانے سے روکنے والی آخری بڑی کانفرنس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مگر کانفرنس کا ایجنڈہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں جس طرح اپنے اپنے مفاداتی عدسے پہن کر بال کی کھال نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے ہرگز محسوس نہیں ہو رہا کہ اس دنیا کو اپنی بربادی کی جانب تیز رفتار سفر روکنے کی کوئی عجلت ہے۔
عالمی درجہِ حرارت کو مزید ڈیڑھ سنٹی گریڈ بڑھنے سے روکنے کے لیے تشویش تو ہر تقریر میں ظاہر کی جا رہی ہے مگر اس درجہِ حرارت میں اضافے کے سب سے بڑے سبب یعنی کاربن کے اخراج کی دو ہزار تیس تک چالیس فیصد کمی کے لیے کیا کیا جائے۔اس پر محض آئیں بائیں شائیں چل رہی ہے۔
فیصلہ ساز رہنماؤں پر دباؤ بڑھانے کی خاطر سنیچر کو لندن ، نیروبی اور سڈنی سمیت متعدد شہروں میں بیک وقت عالمگیر مظاہرے بھی کیے گئے۔گلاسگو میں تو خیر مسلسل احتجاجی اکٹھ سے دنیا بھر سے جمع ہونے والے سماجی و ماحولیاتی کارکن خطاب کر رہے ہیں۔ سنیچر کو گلاسگو میں ہونے والے مظاہرے میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ان مظاہرین میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور نوعمروں کی ہے جنھیں اپنی بقیہ زندگی میں گزشتہ کسی بھی نسل کے مقابلے میں ماحولیاتی ابتری کے سنگین چیلنج کا سب سے زیادہ سامنا ہو گا۔
اگرچہ اب تک سو سے زائد ممالک دو ہزار تیس تک جنگلات کی کٹائی اور زمین کی نامیاتی اکھاڑ پچھاڑ کی روک تھام کا عہد کر چکے ہیں۔پچیس ممالک زمینی ایندھن میں مزید سرمایہ کاری اگلے برس سے روکنے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔دو ہزار چالیس تک کوئلے کے استعمال سے مکمل پرہیز کا بھی متعدد اقوام نے وچن دیا ہے۔ دو ہزار تیس تک میتھین گیس کے اخراج میں تیس فیصد کمی کے اصول سے بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ان اہداف کے حصول کے لیے ترقی پذیر اقوام کی مدد کے لیے ایک سو بلین ڈالر کے فنڈ کی تشکیل پر بھی رضامندی سامنے آئی ہے۔
البتہ آسٹریلیا سمیت کوئلہ پیدا کرنے والے کلیدی ممالک اور تیل نکالنے والی ریاستیں اور ارضیاتی ایندھن کے ارب ہا ڈالر کاروبار سے جڑی کثیر القومی کارپوریشنز کسی ایسے معجزے کے انتظار میں ہیں کہ ان کا دھندہ بھی چلتا رہے اور ماحولیاتی مسئلے کی شدت بھی خود بخود کم سے کم ہوتی چلی جائے۔
اس ناممکن ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوئلے اور تیل کی لابیاں دنیا کی مختلف پارلیمانوں کے ارکان کو رجھانے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ تاکہ دنیا دکھاوے کے لیے ایسے قوانین بنائے جائیں جو بظاہر ماحولیاتی بہتری کے لیے ہوں مگر ان میں جان بوجھ کر ایسے قانونی شگاف اور باریکیاں چھوڑ دی جائیں جن کی مدد سے ان قوانین کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو سکے اور جو بھی چاہے موم کی ناک کی طرح ان قوانین کو اپنی مفاداتی سمت کی جانب موڑ سکے۔
مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جن اہداف پر دو ہزار پندرہ کی پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں اتفاق ہوا تھا۔چھ برس گذرنے کے بعد انھی اہداف کو اگلے آٹھ برس میں حاصل کرنے میں کیسے کامیابی ہو گی ؟
اس کانفرنس کے شرکا کے لیے ہر وہ پکوان بن رہا ہے جس کے اجزائے ترکیبی ان نباتات و حیوانات پر مشتمل ہیں جنھیں سنگین بقائی خطرہ لاحق ہے۔ ان کانفرنسوں میں ماحولیاتی ابتری کے سبب بھک مری اور غذائی قلت کی شکار ایک چوتھائی عالمی آبادی پر تو بات ہوتی ہے۔مگر اس بابت موثر قانونی سازی کسی ملک کی ترجیحاتی فہرست میں نہیں کہ ہم ، ہماری فیکٹریاں اور بڑی بڑی کارپوریشنز جو تیار خوراک صنعتی پیمانے پر فروخت کر رہی ہیں۔اس میں سے آدھی خوراک بنا استعمال ضایع ہو جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی خوراک کی تیاری پر لگ بھگ دس فیصد ماحولیاتی وسائل ضایع ہو رہے ہیں۔ امریکا میں روزانہ فی کس چار ہزار کیلوریز والی خوراک تیار ہو رہی ہے۔جب کہ انسان کو اوسطاً روزانہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار کیلوریز درکار ہیں۔ اور یہ خوراکی بے مصرفیت درجہ حرارت کو بڑھانے والی لگ بھگ دس فیصد گیسی اخراج کا سبب ہے۔یہ وہ اخراج ہے جسے محض بہتر منصوبہ بندی سے کم کیا جا سکتا ہے۔ تیار خوراک کے زیاں کو دو ہزار تیس تک نصف کرنے کا ہدف ضرور موجود ہے مگر مسئلہ وہی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا ہے۔
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے چھہتر سربراہانِ مملکت و حکومت اپنے پرائیویٹ جیٹس میں آئے اور کل ملا کے کانفرنس سے چھ دن پہلے سے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس تک گلاسگو اور نواحی ایرپورٹوں پر ایک سو بیاسی پرائیویٹ مسافر اور کارگو پروازیں اتریں یا ٹیک آف کیا۔
ان پروازوں نے کاربن کے اخراج میں ٹنوں کے حساب سے اضافہ کیا۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ ماحولیاتی کانفرنس میں علامتی طور پر کمرشل پرواز سے بھی آیا جا سکتا ہے تاکہ کاربن کا اخراج پرائیویٹ جیٹ کے مقابلے میں کم از کم ہو۔گویا کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی '' دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت '' میں تبدیل ہو چکی تھی۔
اس اجتماع میں بیشتر یورپی سربراہانِ حکومت ، امریکی و چینی صدور اور مودی سمیت ترقی پذیرممالک کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔مقصد یہ تھا کہ اعلیٰ ترین سطح پر ماحولیاتی بہتری کے عہد کا اعادہ ہو سکے۔
عمران خان اگرچہ ایک ماحول دوست رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔وہ بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں پر عالمی تعریف کے بھی مستحق قرار پائے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی ابتری سے متاثر ہونے والے دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔
اس کے باوجود جہاں دیگر عالمی رہنماؤں کو گلاسگو میں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کی فرصت مل گئی۔ہمارے وزیرِ اعظم اس دوران ریاض میں صحرائی ماحولیات کی علاقائی کانفرنس میں شریک تھے۔جب کہ گلاسگو کانفرنس میں خان صاحب کے ماحولیاتی مشیر ملک امین اسلم نے پاکستان کی نمایندگی کی۔اس تجاہلِ عارفانہ پر کیا عرض کیا جائے ؟ کوئی فائدہ ؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )