اقبالؒ کے معاشی افکار کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے

’’جو مسلمان خود کو قومی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہتا ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ قوم کی اقتصادی حالت سدھارے‘‘

علی گڑھ میں لیکچرجہاں اقبال نے سرمایہ داری کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا، وہیں وہ ہمیشہ اشتراکیت کے الحاد کے مخالف رہے ۔ فوٹو : فائل

علامہ اقبالؒ کی علمی وجاہت میں فلسفہ ، تاریخ ، شاعری اور مذہب نمایاں ترین پہلو ہیں، تاہم ان کی عظمت کا ایک بھاری بھر کم پہلو ان موضوعات کے سامنے قدرے دب کر رہ گیا ہے یعنی ان کے معاشی افکار۔

ان کے کلام پر غور کریں تو ان کی تمام شاعری کے پسِ منظر میں اقتصادی نظریات اور ان کے درمیان تصادم کا مسلسل ذکر ہے ۔ تاہم اس فکری پہلو کی اہمیت کا جس قدر تقاضا تھا اس کے مطابق منظم انداز میں ان کے معاشی افکار پر زیادہ کام نہیں ہوا ۔

افکارِ اقبال کی تفہیم کے لئے ان کے علمی اور فکری ادوار کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ ان کی شاعری، فلسفے اور افکار کا پہلا دور لاہور میں ان کے ایام طالب علمی اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج میں بطور استاد کا ہے۔ یہیں سے 1905 میں وہ فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے یورپ روانہ ہوئے۔

یورپ سے ان کی واپسی 1908 میں ہوئی۔ جس اقبال کی چار دانگ اور عہد در عہد دھوم ہے ، وہ اقبال یورپ سے واپسی کے بعد متشکل ہونا شروع ہوا۔ ان کے اردو اور فارسی کلام کا زیادہ تر وقیع اور فکری حصہ اسی دور میں تشکیل پایا اور اپنے عہد کی سیاست، ادب اور سماج پر انفرادیت کے ساتھ اثر انداز ہوا۔

علم الاقتصاد ۔ معیشت پر اردو میں اولین کتاب

علامہ اقبال کے افکار معیشت کا پہلا بھر پور اظہار اور اس موضوع کے ساتھ ان کی دل بستگی ان کی تصنیف علم الاقتصاد سے سامنے آئی ۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اقبال کی علمی کوششوں کا پہلا ثمر 1903 میں علم الاقتصاد کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ مشہور ماہر اقبالیات ممتاز حسن کے بقول علم الاقتصاد اردو زبان کی جدید معاشیات پر پہلی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کی علم الاقتصاد اردو میں اپنی اولیت اور اہمیت کے اعتبار سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

مسلمانوں کی معاشی حالت ِ زار پر فکر مندی

معاشیات کے مسائل اقبال کی علمی اور فکری زندگی کی سب سے بڑی دلچسپی نہ بن سکے مگر انہیں اس موضوع سے عمر بھر گہری دلچسپی رہی۔ اس کی جھلک ان کی دیگر تحریروں اور تقریروں میں جا بجا موجود ہے۔

1910 میں انہوں نے علی گڑھ میں ٌ ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ٌ کے عنوان سے ایک لیکچر دیا اور فرمایا؛ سب سے زیادہ اہم عقدہ ہر ا س مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہے، یہ ہے کہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت سدھارے۔ اس کا یہ فرض ہے کہ ہندوستان کی عام اقتصادی حالت پر نظرِ غائر ڈال کر ان اسباب کا پتہ چلائے جنہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی ہے۔

دسمبر1930والے ا لہٰ آباد کے خطبہ صدارت میں جہاں انہوں نے پاکستان کاتصور پہلی بار دنیا کے سامنے پیش کیا، انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ مسلمانوں کی اقتصادی بد حالی اور مقروضیت کا ذکر کیا ۔

اسی طرح مارچ 1932 میں لاہور میں ایک تقریب کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان نوجوانوں کی انجمنیں اس غرض سے قائم کی جائیں کہ وہ اور باتوں کے علاوہ تجارت اور کاروبار کے میدان میں تنظیم کے لئے جدو جہد کریں اور دیہات میں مسلمان کاشتکاروں کی اقتصادی بد حالی اور قرض کے ازالے کے لئے ایک بیداری مہم چلائیں۔

معاشی مسائل سے اقبال کی دلچسپی ان کی شاعری میں بھی جا بجا جھلکتی ہے۔ ٌ خضرِ راہ ٌ میں شاعر جناب ِ خضر سے سوال کرتا ہے؛

زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ؟

خضر کا جواب ایک پیغام کی صورت بندہ مزدور کے نام کچھ یوں ہے؛

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت

اقبال نے اپنے عہد میں جنگِ عظیم اوّل سے قبل اور بعد کا پُرآشوب دور دیکھا ، ترک سلطنت کا زوال اور حصے بخرے ہوتے دیکھے ۔ اس دور میں صنعتی انقلاب کی نت نئی ایجادات، مشینری اور ٹیکنالوجی نے یورپ کا نیا معاشی جہان ترتیب دیا جس میں سرمایہ اور سرمایہ دار مالک و مختار ٹھہرا۔ کارخانوں کی پیداوار کو چالو رکھنے اور مزید بڑھانے کے لئے انگلستان اور یورپ کے کئی دیگر ممالک نے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نوآبادیاں قائم کیں۔

یورپ کے کارخانوں میں مزدوروں کے حالات کار ، رہائش اور حقوق انتہائی یکطرفہ اور ظالمانہ روا رکھے گئے۔ اپنے قیام کے دوران علامہ اقبال نے یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھا اور اس پر غور کیا جس کا ان کی شاعری میں جا بجا ذکر ہے۔

سولہویں اور سترھویں صدی میں کلیسا اور سیاست کو علیحدہ کرنے کے بعد یورپ میں طاقت اور دولت کا مرکز سرمایہ داروں کی طرف شفٹ ہو گیا۔ روس اور یورپ میں مزدوروں کے مسلسل استحصال اور سرمایہ داری کی اندھی طاقت کے رد عمل میں کئی اسکالرز اور فلاسفرز نے روایتی سرمایہ داری نظام کی ہیبت ناکیوں کا پردہ چاک کیا اور متبادل خیالات پیش کئے۔

معروف فلاسفر کارل مارکس کی فکر جو اشتراکیت کے نام سے معروف ہوئی کا لب لباب یہ ہے کہ جدید صنعتی سرمایہ کاری میں رفتہ رفتہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو تا جائے گا اور باقی خلق خدا ان کی محتاج۔ کارل مارکس نے تاریخ کو انسانوں کے مابین معاشی کشمکش اور اقتصادی طبقات کی مسلسل باہم آویزش پر مبنی ایک سلسلہ بتلایا ۔

اشتراکیت کے ان نظریات کے مطابق مذہبی استبداد نے ہمیشہ سیاسی اور معاشی ظلم کی معاونت کی ہے۔ روس میں زار اور کلیسا کا زبردست تعاون تھا۔ اشتراکیت کے ظہور سے قبل ہی مغرب کے سائنس دانوں اور اہل فکر کے ہاں مذہبی عقائدعملی زندگی سے خارج ہو چکے تھے جن کی جگہ مادیت نے لے لی۔ اشتراکیت کے نظریے نے الحاد اور مادیت کو یکجا جانا اور عوام کی حقوق طلبی میں شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت کے نظریات کا حاصل یہ تھا کہ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو اجتماعی معاشرت اور سماج کے قدیم اور روایتی ڈھانچے کا قلع قمع کر دے۔

اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو سراہتے ہیں کہ اس نے مزدور اور دہقانوں کی حالت ِزار اور سرمایہ داری کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا مگر وہ اشتراکیت کے الحاد کے مخالف تھے۔ اقبال سرمایہ داری نظام کے بھی اسی لئے خلاف تھے کیونکہ اس نظام میں سرمائے اور منافع کی ایک مسلسل ہوس اور لالچ میں مزدور اور دہقان ایک منظم اور مسلسل بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اقبال طبعاٌ انقلاب پسند تھے اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے۔ انہوں نے اشتراکیت کی چند پہلووں کی تعریف کے سوا اس کے دیگر عملی پہلووں کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرمایہ داری نظام پر بھی کھل کر تنقید کی۔ پیام َ مشرق میں اس موضوع پر ان کی تین نظمیں ہیں جن میں سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور مزدور کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔

اقبال سوشلزم کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ زمین پر کسی کی شخصی ملکیت نہیں۔ زمین کی ملکیت کے بارے اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ اقبال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ریاستی اتھارٹی پیداوار کا کچھ حصہ ملکی ضروریات کے لئے طلب کر سکتی ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بالِ جبریل میں الارضِ للہ کے عنوان سے ایک نظم اس موضوع پر ہے؛

دِہ خُدایا! یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں


تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں

بالِ جبریل میں ایک اور ولولہ خیز نظم فرشتوں سے فرمانِ خدا ہے؛

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امراء کے درو دیوار ہلا دو

سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو

بالِ جبریل میں لینن خدا کے حضور میں عرض گزار ہے؛

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

ضربِ کلیم میں کارل مارکس کی زبان سے مغرب کے معیشت دانوں سے کچھ یوں خطاب ہے؛

تری کتابوں میں اے حکیم ِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خمدار کی نمائش مریز و کج دار کی نمائش

علامہ اقبال کے جداگانہ معاشی افکار

معیشت پر لینن اور کارل مارکس کی زبان سے اقبال نے بہت کچھ کہا اور کہلوایا ، اقبال کے افکارِ معیشت کے حوالے سے زیادہ تر حوالے بھی انہی نظموں سے معروف ہیں ، البتہ بغور جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اگرچہ سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ میں اقبال مزدور کے حامی ہیں مگر کارل مارکس اور لینن کی اشتراکیت کو وہ مساواتِ شکم تو سمجھتے ہیں مگر فکری اعتبار سے اسے لادینیت اور منفیت کا مظاہر سمجھتے ہیں؛

روس را قلب و جگر گر دید خوں

از ضمیرش حرف لا آمد بروں

کردہ ام اندر مقاماتش نگاہ

لا سلاطیں، لا کلیسا لا الہ

اشتراکیت کے ساتھ ساتھ اقبال کے ہاں مغربی تہذیب پر بھی جابجا تواتر سے تنقید و تنقیص ہے ۔ ضربِ کلیم میں مغربی تہذیب جو سرمایہ داری کی نقیب اور اجارہ دار ہے، اس کے دو پہلووں کے بارے میں کڑی تنقید کی؛

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بیکار زن تہی آغوش

اقبال کے معاشی افکار ایک مستقل موضوع ہے۔ یہ مضمون ان کے معاشی افکار اور اس موضوع سے ان کی عمر بھر کی دل بستگی کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش ہے۔اقبال کو اواخر عمر میں مسلمانوں کے افلاس اور اقتصادی زبوں حالی کا کس قدر شدید احساس تھا، اس کا بیّن ثبوت ان کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خط و کتابت سے ظاہر ہو تا ہے۔ اقبال 28 مئی 1937 کو قائد اعظم ؒکو خط میں لکھتے ہیں؛

''مسلمانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پچھلے دو سو سال سے ان کی معاشی حالت برابر گرتی جا رہی ہے۔ عام طور پر ان کا یہ خیال ہے کہ ان کا افلاس ہندو سود خوروں اور سرمایہ داروں کی بدولت ہے۔ ابھی نہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ ان کے افلاس میں بیرونی استعمار کا بھی برابر کا دخل ہے مگر یہ احساس پیدا ہو کر رہے گا۔ ''

معاشیات پر اقبال کے شعری کلام اور دیگر تحریروں کے مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے رہنماؤں میں قوم کی اقتصادی مشکلات کا جو احساس اور شعور اقبال کو تھاوہ کسی اور کو نہ تھا۔ وہ سرمایہ داری نظام اور مغربی تہذیب کے شدید نقاد ہیں ، دوسری جانب وہ اشتراکیت کے صرف ان پہلووں کی حد تک اس سے اتفاق کرتے ہیں جو مزدوروں اور کاشتکاروں کے حقوق اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و مکر کا پردہ فاش کرنے سے متعلق ہیں، تاہم وہ اشتراکیت میں الحاد اور مذہب بیزاری کے عنصر کے بالکل خلاف تھے۔

اقبال کے فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ معاشرت ہو یا معیشت اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو مساوات، انسان کی عزت و آبرو اور اس کے روح و شکم کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اقبال اپنی شاعری اور فکر میں اس امر کے داعی ہیں کہ مسلمانوںکی نشاۃ ثانیہ کا ظہور ممکن ہے اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات، نئے علم و ہنر کی تخلیق و تحصیل ، اجتہاد، خود انحصاری اور عشق و مستی کے اسی جذبے کو پھر سے اپنا سکیں جس کی وجہ سے مسلمان کئی سو سال دنیا کے افق پر غالب رہے۔

(خالد محمود رسول پولیٹکل اکونومسٹ، مصنف اور تجزیہ کار ہیں، روزنامہ ایکسپریس میں ہفتہ وار کالم گوشوارہ لکھتے ہیں ۔)
Load Next Story