اسموگ اورفضائی آلودگی انسانی زندگیوں کے لئے بڑا خطرہ

انسانوں، جانوروں اورپودوں کے ساتھ پورے ماحول کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں


آصف محمود November 10, 2021
فضائی آلودگی میں لاہور دنیاکے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے فوٹو: فائل

فضائی آلودگی اوراسموگ انسانی زندگی کے لئے بڑاخطرہ بنتی جارہی ہے،انسانوں، جانوروں اورپودوں کے ساتھ پورے ماحول کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

سردیوں میں جب نمی میں اضافہ اور دھند پیدا ہوتی ہے تو فضا میں موجود گردوغبار،دھواں اوردیگرخطرناک اجزاتحلیل ہونے کی بجائے اس دھند میں شامل ہوکراسموگ کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔لاہورکے گنجان آباد علاقوں خاص طورپر محمودبوٹی،داروغہ والا، کوٹ لکھپت اورٹاؤن شپ جیسے علاقوں میں اسموگ زیادہ ہوتی ہے۔



مقامی شہری محمد انور کا تعلق شمالی لاہور سے ہے وہ کہتے ہیں ان کے علاقے میں پورا سال فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کے بادل چھائے رہتے ہیں، فیکٹریوں میں گاڑیوں کے ٹائر جلائے جاتے ہیں جس سے نکلنے والا کثیف دھواں اس علاقے کے درودیوار پر نظر آتا ہے، لوگ سانس، دمے اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتل اہیں ، اب تو حالات یہ ہیں کہ ہمارے یہاں مہمان بھی نہیں آتے کیونکہ یہاں سانس لینابھی مشکل ہوتا ہے مگر کوئی محکمہ نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔ فیکٹریوں کے دھویں کے علاوہ چنگ چی رکشوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، اینٹوں کے بھٹے اور اب یہاں مقامی لوگ کوڑے کو اگ لگا دیتے ہیں اس وجہ سے فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے اوراب اسموگ بھی شروع ہوگئی ہے۔

فٖضائی آلودگی میں لاہوردنیاکے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے تاہم اس کے مختلف علاقے خاص طورپرداروغہ والابندروڈ، محمودبوٹی، لاہوررنگ روڈ، ہربنس پورہ ،سلامت پورہ،ٹاؤن شپ انتہائی آلودہ ہیں جہاں ائیرکوالٹی انڈکس عموما300 سے زیادہ رہتاہے۔ اسموگ میں تخفیف کے لئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے چیئرمین علی ارشد رانا کہتے ہیں زمین کوسورج کی خطرناک شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لئے قدرت نے جواوزون کی ایک لئیربنائی ہے بدقسمتی فضائی الودگی خاص طورآگ جلائے جانے کے عمل سے اوزون کی سطح میں سورخ ہورہے ہیں جس سے کرہ ارض پربسنے والے تمام انسانوں کو خطرات لاحق ہیں۔



ماہرماحولیات رافع عالم نے بتایا گرین ہاؤسزگیسیوں کے اخراج سے پاکستان میں لوگ مررہے ہیں، ائیرکوالٹی لائف انڈکس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا فضائی آلودگی سے صرف لاہورجیسے شہرمیں بسنے والوں کی اوسط عمرمیں سالانہ 6 سال کی کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ مستقبل میں نہیں بلکہ آج ہورہا ہے۔ گرین ہاؤسزسے نکلنے والے زہریلی گیسیں ہماری بقا کے لئے ایک بڑاخطرہ ہیں۔ گلاسکو میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام ماحولیاتی تبدیلوں بارے سربراہی اجلاس ،دنیا کو درپیش فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلوں بارے لازمی اقدامات کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے سے متعلق اپنی تشویش کے باوجود اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ جس سے حکومت کی غیرسنجیدگی ظاہرہوتی ہے۔

رافع عالم نے یہ بھی بتایا کہ 19 ممالک ایک طرف کوئلہ سے بجلی پیداکرنے کے تمام منصوبے 2022 کے بعدختم کرنے کااعلان کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف کوئلہ کمپنیاں آئندہ 6 برسوں میں بجلی پیداکرنے کے بڑے معاہدے کررہی ہیں۔یہ معاہدےفوری منسوخ کئے جائیں۔ لاہوردنیاکے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہے۔یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔ گاڑیوں ،فیکٹریوں اوراینٹوں کے بھٹوں سے سے نکلنے والازہریلادھواں،فصلوں کو باقیات کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں فضائی آلودگی اوراسموگ کی بڑی وجہ ہیں۔



پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ خلائی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر سلمان طارق کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کی جانچ کے لئے دیگرمحکموں کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی نے بھی 8 مقامات پر سینسر لگائے ہیں، ہمیں اس وقت فیصلہ سازی میں معاونت کاسسٹم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ شہر کے کس علاقے میں کون سے مضر اجزا کی مقداربڑھ رہی ہے۔ اگر کسی علاقے میں این او 2 کی مقدار زیادہ ہے ، یا کہیں ایس او 2 کی شرح بڑھ رہی ہے تو ان عناصرکے بڑھنے کی وجوہات کو روکا جائے ناکہ سب کچھ بند کردیا جائے۔

ڈاکٹر سلمان طارق کہتے ہیں کہ شہروں کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لئے ان کا پھیلاؤ روکنا ہوگا، نئے شہر بسائے جائیں، اگر ایک ہی شہر میں آبادی بڑھے گی تو اس سے وہاں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جس سے آلودگی بڑھے، اس لئے ضروری ہے کہ بڑے شہروں کا بوجھ کم کیا جائے اور نئے ٹاؤن اور شہر بسائے جائیں۔



اسموگ میں تخفیف کے لئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے چیئرمین علی ارشد رانا کہتے ہیں فضائی آلودگی اوراسموگ ایسامعاملہ ہے جسے صرف انفورسمنٹ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے آگاہی اور ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ زراعت سمیت مختلف حوالوں سے آگاہی مہمات چلائی جارہی ہیں۔عام فیول کی بجائے یورو فائیو فیول استعمال کیا جارہا ہے، اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کئے گئے ہیں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے چلان کئے جارہے ہیں، فیکٹری مالکان کیخلاف تادینی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ اسی طرح جو کسان دھان کی باقیات کوجلاتے ہیں ان کو ایسی مشینری دی جارہی ہے جس سے وہ باقیات کوجلانے کی بجائے ہل کے ذریعے مٹی میں ہی شامل کردیتے ہیں۔ اسموگ کی روک تھام کے لئے ہم زیروٹالرنس پالیسی پرعمل کررہے ہیں، جس کھیت میں باقیات جلائے جانے کے شواہدمل گئے اس کا ذمہ داراس کھیت کامالک ہوگا ۔لاہورہائیکورٹ کی ہدایت پراب فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف ناصرف مقدمہ درج کیاجارہا ہے بلکہ 50 ہزار روپے جرمانہ بھی ہوسکتاہے۔ ابتک پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے والے 400 کسانوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں اور 12 لاکھ روپے سے زائد جرمانے کئے گئے ہیں۔

دوسری طرف لاہورمیں بڑھتی ہوئی بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی میں کمی کے لئے محکمہ تحفظ ماحولیات نے سپارکوکی معاونت سے روزانہ کی بنیادپر سیٹلائیٹ ڈیٹا کےحصول کافیصلہ کیاہے تاکہ اس کی روشنی میں آلودگی پیداکرنیوالے عوامل کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔اس کے علاوہ لاہورمیں ائیرکوالٹی کے تناسب کی جانچ کے لئے پرائیویٹ ائیرکوالٹی مانیٹرز کے ساتھ محکمہ ماحولیات کی موبائل وین کے ذریعے ڈیٹاکوکراس چیک کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

 

صوبائی وزیر تحفظ ماحولیات محمد رضوان نے جنرل مینیجر سپارکو شعیب شفیق سے ملاقات کی ہے ،ملاقات کے دوران شعیب شفیق نے صوبائی وزیر کو بتایا کہ سپارکو روزانہ کی بنیاد پر گوگل ارتھ پر ڈیٹا اپ لوڈ کر رہاہے جبکہ سپارکو کے افسران پی ڈی ایم اے کے سیل میں بھی موجود ہیں اور تمام متعلقہ محکموں کے نمائندگان سے معلومات لیکر سٹیلائٹ کے ذریعے نتائج مرتب کیے جارہے ہیں۔انہوں نے صوبائی وزیر کو ماڈل بیسڈ اپروچ افادیت سے آگاہ کیا۔ ماڈل بیسڈ اپروچ کو اپناتے ہوئے لاہور کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر شروع کیا جا سکتا ہے کیونکہ سب متعلقہ محکموں کا مقصد انسانی زندگیوں کا تحفظ ہے اور ڈیٹا مرتب کرکے تحصیل اسموگ کمیٹیوں کو ارسال کیا جائے گا تاکہ وہ متعلقہ ڈی سیز کو اعتماد میں لیکر ماحولیاتی آ لودگی کی روک تھام لازمی بنا سکیں۔ صوبائی وزیر نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ سٹیلائٹ بیسڈ اپروچ کا ایک جامع پلان تشکیل دیکر پیش کیا جائے اور اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔

علاوہ ازیں لاہورمیں مختلف پرائیویٹ اداروں کی طرف سے لگائے گئے ائیرکوالٹی مانیٹرزکے ڈیٹاکوکراس چیک کرنے کے لئے فیصلہ کیاگیا ہے کہ محکمہ تحفظ ماحولیات اپنے موبائل ائیرکوالٹی مانیٹروین کوان ایریازمیں بھیجے گا اوروہاں ائیرکوالٹی کوچیک کرے گا۔پھرپرائیویٹ مانیٹراورموبائل وین ڈیٹاکاموازنہ کیاجائیگا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کوبعض نجی اداروں کی طرف سے لگائے گئے ائیرکوالٹی مانیٹرز کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ڈیٹا پر تحفظات ہیں۔

 

محکمہ تحفظ ماحولیات کے ذمہ داران نے بتایا کہ چنددن پہلے لاہورکے علاقہ شملہ پہاڑی میں یوایس قونصل خانے کے قریب موبائل وین کی مدد سے ڈیٹاحاصل کیاگیا تھا۔ یوایس قونصل خانے کی طرف سے لگائے گئے ائیرکوالٹی مانیٹراورموبائل وین سے حاصل ہونیوالے ڈیٹامیں معمولی فرق تھا۔اب ٹاؤن شپ فیکٹریاں ایریامیں موبائل وین سے ڈیٹالیاجائیگا۔

9 نومبر کو معروف کمپنی کے ائیر کوالٹی مانیٹر اور موبائل وین سے حاصل ایک ہی مقام اور دورانیے کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا جس میں واضح فرق دیکھا گیا ہے۔ تحفظ ماحولیات کی موبائل وین ڈیٹا کے مطابق ائیرکوالٹی انڈکس کی شرح 287 ریکارڈکی گئی جبکہ پرائیویٹ ائیر کوالٹی مانیٹر پرشرح 334 تھی جو 16 فیصد زیادہ تھی۔

واضح رہے کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کے لاہورمیں ائیرکوالٹی کے لیے تین مانیٹرہیں، پنجاب یونیورسٹی نے 8 مقامات پرمانیٹرلگائے ہیں تاہم وہ ڈیٹاابھی پبلش نہیں کیاجاتا جبکہ مختلف نجی اداروں کی طرف سے 12 ائیرکوالٹی مانیٹرزنصب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔