مردے زندہ نہیں ہوتے
عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں۔
یہ 2017 کا واقعہ ہے، سرگودھا میں ایک جعلی پیر نے تشددکرکے 20لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جعلی پیر کا دعویٰ تھا کہ وہ مرے ہوئے اپنے مریدوں کو زندہ کر دینے کی صلاحیت و قدرت رکھتا ہے۔
ایک دن قریبی گاؤں کے کچھ مرید پیر صاحب کے پاس جمع تھے، تو پیر نے پر جوش انداز میں کہا کہ اگر آپ میں سے کچھ لوگ مرنے کو تیار ہو جائیں تو وہ انھیں مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا، کسی نشہ آور شے کے زیر اثر 20 افراد تیار ہو گئے۔ پیر صاحب انھیں کمرے میں لے گیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھیں ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا۔
پیر اپنے دعوے پر قائم تھا کہ وہ ان سب کو زندہ کردے گا، تاہم رات گئے کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ قاتل پیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ جعلی پیر کے مریدین بھی اکٹھے ہوگئے سب پیر کو قاتل ماننے سے انکاری تھے حتیٰ کہ مقتولین کے لواحقین بھی مدعی بننے کو تیار نہ ہوئے، صبح ہو گئی مگرمردے زندہ نا ہوئے۔
اب مریدین نے کہنا شروع کر دیا کہ پولیس کی مداخلت کی وجہ سے پیرصاحب کا عمل مکمل نہیں ہو سکا، اسی لیے مردے زندہ نہیں ہو سکے۔ ہمارے لوگوں کا قاتل پیر نہیں، پولیس ہے۔ مریدین یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پیر صاحب مردہ کو زندہ نہیں کر سکتا۔ کئی دنوں تک مریدین متعلقہ تھانے کے سامنے احتجاج کرتے رہے، کہ پیر صاحب کو رہا کریں اور مقتولین بھی واپس دیں، پیر صاحب انھیں زندہ کر دے گا۔ کئی دنوں بعد احتجاج کم ہوتا ہوتا ختم ہوا، لیکن کئی مریدین کا پیرصاحب کی کرامات پر یقین کمزور نا ہوا، وہ پولیس کو ذمے دار سمجھتے رہے۔
آج کل ایسی ہی صورتحال کا سامنا پورے ملک کو ہے۔ میں نے کہیں ایک سروے رپورٹ پڑھی ہے کہ 2018 میں عمران خان کی حمایت کرنے والوں میں سے 66% افراد سمجھ گئے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے، لیکن 33% اب بھی تبدیلی کے سحرمیں مبتلا ہیں۔
یہ تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے مگر ختم کبھی نہیں ہوںگے۔ خدانخواستہ اگر کہیں پیر صاحب کرکٹ والے گرفتار ہو گئے تو بھی5- 10 فیصد مریدین تھانے کے باہر یا ڈی چوک میںدھرنا دے کر '' پیرصاحب کرکٹ والے'' کی صلاحیتوں و کرامات کو خراج تحسین پیش کریںگے اور قوم کو بتائیں گے کہ انھیں یقین ہے کہ پیر صاحب کرکٹ والے ہی اپنی کرامات سے اس ملک کی مردہ معیشت کو زندہ کرسکتے ہیں مگر ایف آئی آر کاٹنے والے نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے۔
عمران خان پہلے سربراہ حکومت ہیں جواپنی ریاست میں وقوع پذیر ہونے والی کسی بھی خرابی کا نوٹس لیتے ہیں تو وہ مزید گمبھیر صورت میں عوام کی تکلیفوں میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے مگر وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل صاحب عمران خان کی کرامات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' وزیر اعظم مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا بن جاتی ہے'' شہباز گل سے لاکھ اختلاف سہی اور عمران خان کو کوئی صاحب کرامت پیر مانے یا نہ مانے مگر یہ بات ماننی پڑے گی کیونکہ وزیر اعظم نے چینی میں ہاتھ ڈالا تو 50 روپے سے 170 روپے کلوہوکر سونا بن گئی۔
بجلی میں ہاتھ ڈالا تو 9روپے سے 27روپے یونٹ ہو کر سونا بن گیا، گھی میں ہاتھ ڈالا تو 160 روپے سے 400روپے کلو ہو کر سونا بنا دیا، ڈالر میں ہاتھ ڈالا تو 93 سے 179 روپے ہوکر سونا بن گیا، کھادوں میں ہاتھ ڈالا تو 2200 روپے سے 7800 روپے بوری ہو کر سونا بنا دیا۔ مگر یہ ساری کہانی الٹ گئی جب سونے کے روپے میں ہاتھ ڈالا تو مٹی سے بھی بے توقیر ہو کر رہ گیا اور قوم سونا بن جانے والی ہر چیز پر سینہ کوبی اور ماتم کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ وزیر اعظم کی کرامت اور ان کے مریدین کی اپنے مرشد سے عقیدت ہی ہے ان حالات میں بھی گھبرا رہے نہ گھبرانے دے رہے ہیں۔
جو لوگ گزشتہ تین برسوں سے حکومت کی شان میں بلند آہنگ قصیدے پڑھ رہے تھے، بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور بیڈ گورننس کی انتہا کو دیکھ کر آج وہ بھی شرمندہ شرمندہ پھرتے نظر آتے ہیں، ماسوائے ان کے جو آج بھی کسی کرامت کے منتظر ہیں۔ باقی کوئی عقل مند پاکستانی ایسا نہیںجوگھبرانہ رہا ہو۔
ابھی چند روز قبل ہی وزیر اعظم نے 120 ارب روپے کے تاریخی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا، اور ساتھ یہ خوشخبری قوم کو سنائی تھی کہ تیار رہے مہنگائی نے مزید بڑھنا ہے اس اعلان کے اگلے روز رات کی تاریکی میں حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا اور تمام ضروریات زندگی کو پر لگ گئے اور کیو ں نہ لگتے جب وزیراعظم نے خود اعلان کردیا۔
عوام تین سال سے تقریریں سن رہے ہیں لیکن ان تقریروں سے ان کا چولہا نہیں جلتا، کسی غریب کے بچوں کا پیٹ نہیں بھرتا، کسی بیماری کا علاج نہیں۔
حکومتی ترجمان بڑھتی مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں سے منسوب کر رہے ہیں جب کہ روزمرہ استعمال ہونے والی زیادہ تر اشیا کا تعلق ملکی پیداوار سے ہے،اگر ملکی پیداوار کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پاکستان دنیا میںمختلف اشیا کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے آگے ہے۔
گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔مگر اس کے باوجود عوام کوسستی چینی مہیا نہیں ہے۔ گندم کی کاشت میں آٹھواں نمبر ہے۔ مگر سستی روٹی دستیاب نہیں اور آٹے کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔چاول کی پیداوار میں آپ کے ملک کا دسواں نمبر ہے لیکن آپ با آسانی اچھا چاول خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔کپاس کی پیداوار میںہماراچوتھا بڑا ملک ہے،مگر ہر شہری باآسانی تن ڈھانپنے کا کپڑا خریدنے سے قاصر ہے۔
اگر ہمارے وطن عزیز میںتیل دریافت ہو بھی گیا تو کیا اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں گے؟یا وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، چوہدریوں، پے مشتمل 60 سے70 خاندانوں کی چمکتی ہوئی قسمت کو مزید چمکائے گا۔ جب کہ آپ تب بھی اپنی قسمت و نصیب کے نچوڑے تیل کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے۔
ملک تیل سے نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ترقی کرتے ہیں۔ عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں۔ معیشت کی سربریدہ لاش پر تو قوم ماتم کافی عرصے سے کر رہی تھی، مگر ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر خان صاحب نے جو تماشہ لگایا 'اس نے ایک صفحہ کو بھی پھاڑ ڈالا۔جو اپوزیشن کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، مگر نا اہل اپوزیشن ان حالات میں بھی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
اور اپنی ذات کے علاوہ ملک و قوم کے حق میں بولنے کو تیار نہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مصلحتوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں،کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں، پہلے دن سے مولانا فضل الرحمان کی توانا آواز سنائی دے رہی ہے باقی لوگ وقفے وقفے کے ساتھ باری باری مفاہمت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں۔
مردم شناس مولانا نے کئی سال پہلے جو عمران خان اور تین سال پہلے تبدیلی سرکار کے بارے میں جو جو کہا تھا وہ سب درست ثابت ہو چکا ہے، لیکن افسوس کہ غلام ذہنیت کے حامل سیاستدانوں نے مولانا کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا۔ بہت ساری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کے لیڈران بھی مولانا کے مؤقف اور مولانا کی ذات کی مقبولیت سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے احتجاجی تحریک کے ریلے کے سامنے کبھی بلاول زرداری اور کبھی شہباز شریف کی مفاہمت کی دیوار کھڑی کردی جاتی ہے۔
تین سال پورے کرنے میں حکومت کا کوئی کمال ہے نہ اہلیت 6، 7ارکان کی بیساکھیوں پر قائم حکومت کی واحد وجہ اپوزیشن کی صفوں میں ''نا اتفاقی'' اور ''مؤثر حکمتِ عملی کا فقدان'' ہے، تین برسوں میں حکومت کی نااہلیوں و نالائقیوں نے ملک و قوم کو بے حال کردیا، اگر اسے اگلے دوسال بھی مل گئے تو نجانے ہم کس مقام پر کھڑے ہوں گے۔ ایسے میںموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی محبت میں وطن کی تمام سیاسی قیادت تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر جدوجہد کرے اور قوم کو بتا دے کہ:
'' مردے زندہ نہیں ہوتے''
اگر اپوزیشن نے زیادہ دیر کردی تو گزشتہ تین دہائیوں سے الماری میں رکھی ٹیکنوکریٹس ماڈل کی فائل اگر اس بار اسٹیبلشمنٹ نے نکالی تو پھر بھول جائیں سیاستدان جمہوریت کو لمبے عرصے کے لیے۔
ایک دن قریبی گاؤں کے کچھ مرید پیر صاحب کے پاس جمع تھے، تو پیر نے پر جوش انداز میں کہا کہ اگر آپ میں سے کچھ لوگ مرنے کو تیار ہو جائیں تو وہ انھیں مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا، کسی نشہ آور شے کے زیر اثر 20 افراد تیار ہو گئے۔ پیر صاحب انھیں کمرے میں لے گیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھیں ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا۔
پیر اپنے دعوے پر قائم تھا کہ وہ ان سب کو زندہ کردے گا، تاہم رات گئے کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ قاتل پیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ جعلی پیر کے مریدین بھی اکٹھے ہوگئے سب پیر کو قاتل ماننے سے انکاری تھے حتیٰ کہ مقتولین کے لواحقین بھی مدعی بننے کو تیار نہ ہوئے، صبح ہو گئی مگرمردے زندہ نا ہوئے۔
اب مریدین نے کہنا شروع کر دیا کہ پولیس کی مداخلت کی وجہ سے پیرصاحب کا عمل مکمل نہیں ہو سکا، اسی لیے مردے زندہ نہیں ہو سکے۔ ہمارے لوگوں کا قاتل پیر نہیں، پولیس ہے۔ مریدین یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پیر صاحب مردہ کو زندہ نہیں کر سکتا۔ کئی دنوں تک مریدین متعلقہ تھانے کے سامنے احتجاج کرتے رہے، کہ پیر صاحب کو رہا کریں اور مقتولین بھی واپس دیں، پیر صاحب انھیں زندہ کر دے گا۔ کئی دنوں بعد احتجاج کم ہوتا ہوتا ختم ہوا، لیکن کئی مریدین کا پیرصاحب کی کرامات پر یقین کمزور نا ہوا، وہ پولیس کو ذمے دار سمجھتے رہے۔
آج کل ایسی ہی صورتحال کا سامنا پورے ملک کو ہے۔ میں نے کہیں ایک سروے رپورٹ پڑھی ہے کہ 2018 میں عمران خان کی حمایت کرنے والوں میں سے 66% افراد سمجھ گئے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے، لیکن 33% اب بھی تبدیلی کے سحرمیں مبتلا ہیں۔
یہ تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے مگر ختم کبھی نہیں ہوںگے۔ خدانخواستہ اگر کہیں پیر صاحب کرکٹ والے گرفتار ہو گئے تو بھی5- 10 فیصد مریدین تھانے کے باہر یا ڈی چوک میںدھرنا دے کر '' پیرصاحب کرکٹ والے'' کی صلاحیتوں و کرامات کو خراج تحسین پیش کریںگے اور قوم کو بتائیں گے کہ انھیں یقین ہے کہ پیر صاحب کرکٹ والے ہی اپنی کرامات سے اس ملک کی مردہ معیشت کو زندہ کرسکتے ہیں مگر ایف آئی آر کاٹنے والے نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے۔
عمران خان پہلے سربراہ حکومت ہیں جواپنی ریاست میں وقوع پذیر ہونے والی کسی بھی خرابی کا نوٹس لیتے ہیں تو وہ مزید گمبھیر صورت میں عوام کی تکلیفوں میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے مگر وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل صاحب عمران خان کی کرامات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' وزیر اعظم مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا بن جاتی ہے'' شہباز گل سے لاکھ اختلاف سہی اور عمران خان کو کوئی صاحب کرامت پیر مانے یا نہ مانے مگر یہ بات ماننی پڑے گی کیونکہ وزیر اعظم نے چینی میں ہاتھ ڈالا تو 50 روپے سے 170 روپے کلوہوکر سونا بن گئی۔
بجلی میں ہاتھ ڈالا تو 9روپے سے 27روپے یونٹ ہو کر سونا بن گیا، گھی میں ہاتھ ڈالا تو 160 روپے سے 400روپے کلو ہو کر سونا بنا دیا، ڈالر میں ہاتھ ڈالا تو 93 سے 179 روپے ہوکر سونا بن گیا، کھادوں میں ہاتھ ڈالا تو 2200 روپے سے 7800 روپے بوری ہو کر سونا بنا دیا۔ مگر یہ ساری کہانی الٹ گئی جب سونے کے روپے میں ہاتھ ڈالا تو مٹی سے بھی بے توقیر ہو کر رہ گیا اور قوم سونا بن جانے والی ہر چیز پر سینہ کوبی اور ماتم کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ وزیر اعظم کی کرامت اور ان کے مریدین کی اپنے مرشد سے عقیدت ہی ہے ان حالات میں بھی گھبرا رہے نہ گھبرانے دے رہے ہیں۔
جو لوگ گزشتہ تین برسوں سے حکومت کی شان میں بلند آہنگ قصیدے پڑھ رہے تھے، بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور بیڈ گورننس کی انتہا کو دیکھ کر آج وہ بھی شرمندہ شرمندہ پھرتے نظر آتے ہیں، ماسوائے ان کے جو آج بھی کسی کرامت کے منتظر ہیں۔ باقی کوئی عقل مند پاکستانی ایسا نہیںجوگھبرانہ رہا ہو۔
ابھی چند روز قبل ہی وزیر اعظم نے 120 ارب روپے کے تاریخی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا، اور ساتھ یہ خوشخبری قوم کو سنائی تھی کہ تیار رہے مہنگائی نے مزید بڑھنا ہے اس اعلان کے اگلے روز رات کی تاریکی میں حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا اور تمام ضروریات زندگی کو پر لگ گئے اور کیو ں نہ لگتے جب وزیراعظم نے خود اعلان کردیا۔
عوام تین سال سے تقریریں سن رہے ہیں لیکن ان تقریروں سے ان کا چولہا نہیں جلتا، کسی غریب کے بچوں کا پیٹ نہیں بھرتا، کسی بیماری کا علاج نہیں۔
حکومتی ترجمان بڑھتی مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں سے منسوب کر رہے ہیں جب کہ روزمرہ استعمال ہونے والی زیادہ تر اشیا کا تعلق ملکی پیداوار سے ہے،اگر ملکی پیداوار کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پاکستان دنیا میںمختلف اشیا کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے آگے ہے۔
گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔مگر اس کے باوجود عوام کوسستی چینی مہیا نہیں ہے۔ گندم کی کاشت میں آٹھواں نمبر ہے۔ مگر سستی روٹی دستیاب نہیں اور آٹے کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔چاول کی پیداوار میں آپ کے ملک کا دسواں نمبر ہے لیکن آپ با آسانی اچھا چاول خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔کپاس کی پیداوار میںہماراچوتھا بڑا ملک ہے،مگر ہر شہری باآسانی تن ڈھانپنے کا کپڑا خریدنے سے قاصر ہے۔
اگر ہمارے وطن عزیز میںتیل دریافت ہو بھی گیا تو کیا اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں گے؟یا وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، چوہدریوں، پے مشتمل 60 سے70 خاندانوں کی چمکتی ہوئی قسمت کو مزید چمکائے گا۔ جب کہ آپ تب بھی اپنی قسمت و نصیب کے نچوڑے تیل کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے۔
ملک تیل سے نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ترقی کرتے ہیں۔ عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں۔ معیشت کی سربریدہ لاش پر تو قوم ماتم کافی عرصے سے کر رہی تھی، مگر ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر خان صاحب نے جو تماشہ لگایا 'اس نے ایک صفحہ کو بھی پھاڑ ڈالا۔جو اپوزیشن کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، مگر نا اہل اپوزیشن ان حالات میں بھی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
اور اپنی ذات کے علاوہ ملک و قوم کے حق میں بولنے کو تیار نہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مصلحتوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں،کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں، پہلے دن سے مولانا فضل الرحمان کی توانا آواز سنائی دے رہی ہے باقی لوگ وقفے وقفے کے ساتھ باری باری مفاہمت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں۔
مردم شناس مولانا نے کئی سال پہلے جو عمران خان اور تین سال پہلے تبدیلی سرکار کے بارے میں جو جو کہا تھا وہ سب درست ثابت ہو چکا ہے، لیکن افسوس کہ غلام ذہنیت کے حامل سیاستدانوں نے مولانا کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا۔ بہت ساری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کے لیڈران بھی مولانا کے مؤقف اور مولانا کی ذات کی مقبولیت سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے احتجاجی تحریک کے ریلے کے سامنے کبھی بلاول زرداری اور کبھی شہباز شریف کی مفاہمت کی دیوار کھڑی کردی جاتی ہے۔
تین سال پورے کرنے میں حکومت کا کوئی کمال ہے نہ اہلیت 6، 7ارکان کی بیساکھیوں پر قائم حکومت کی واحد وجہ اپوزیشن کی صفوں میں ''نا اتفاقی'' اور ''مؤثر حکمتِ عملی کا فقدان'' ہے، تین برسوں میں حکومت کی نااہلیوں و نالائقیوں نے ملک و قوم کو بے حال کردیا، اگر اسے اگلے دوسال بھی مل گئے تو نجانے ہم کس مقام پر کھڑے ہوں گے۔ ایسے میںموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی محبت میں وطن کی تمام سیاسی قیادت تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر جدوجہد کرے اور قوم کو بتا دے کہ:
'' مردے زندہ نہیں ہوتے''
اگر اپوزیشن نے زیادہ دیر کردی تو گزشتہ تین دہائیوں سے الماری میں رکھی ٹیکنوکریٹس ماڈل کی فائل اگر اس بار اسٹیبلشمنٹ نے نکالی تو پھر بھول جائیں سیاستدان جمہوریت کو لمبے عرصے کے لیے۔