26 فیصد پاکستانی ذیابیطس میں مبتلا
ذیابیطس پر مؤثر کنٹرول کے لیے متوازن غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش اور ادویات کا استعمال ضروری ہے۔
حالیہ برسوں میں جہاں بیماریوں کے بارے میں لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے وہیں ان بیماریوں کی شدت اور ان کا شکار افراد کی تعداد بھی کئی گنا بڑھی ہے۔
ایسی بیماریوں میں شوگر یا ذیابیطس بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔ ذیابیطس کا مرض اس وقت وبائی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42کروڑ 22لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق چالیس سال قبل کے اعدادوشمار کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ مرض پہلے کے مقابلے میں چار گنا بڑھا ہے۔ صرف پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد اس مرض کے سبب معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کا سبب بننے والی آٹھویں بڑی وجہ ہے اور 2005ء کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایک ایسی بیماری جو مسلسل بڑھ بھی رہی ہے اور لوگوں کی جان لینے کا سبب بھی بن رہی ہے، اس کے بارے میں یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ ذیابیطس کا شکار ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیماری سے لاعلم ہے ، اور اگر بیماری کے بارے میں وہ جانتے بھی ہیں تو ایسے روز مرہ معمولات سے ناواقف ہیں، جن میں معمولی تبدیلی سے بیماری اور اس کے برے اثرات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
16-2017 میں ہونے والے ایک قومی سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ اس سروے کے مطابق ملک کی آبادی میں 20 سال کی عمر سے زیادہ کے ساڑھے تین کروڑ سے پونے چار کروڑ افراد اِس مرض کا شکار ہیں۔
ذیابیطس ایسا متعدی مرض ہے جو کہ خون میں شکر کی مطلوبہ حد سے تجاوز کرنے سے لاحق ہوتی ہے۔ یہ ایک دائمی بیماری ہے اور اثرات کے لحاظ سے نہ صرف مہلک ہے بلکہ کئی دیگر بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ شوگرکے مریض جلد ہی دل، گردوں اور آنکھوں کے امرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ذیابیطس کی بنیادی وجوہات میں جسمانی محنت کی کمی، موٹاپا اور غیر متوازن غذا شامل ہیں جن کے باعث ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر فوری طور پر اس مرض کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ 25برسوں میں یہ تعداد 14ملین تک بڑھنے کا امکان ہے۔ ذیابیطس پر مؤثر کنٹرول کے لیے متوازن غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش اور ادویات کا استعمال ضروری ہے۔
ذیابیطس کی معروف علامات میں تھکاوٹ کا احساس،بھوک اور پیاس میں اضافہ ، پیشاب کی زیادتی، ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ، انفیکشن کا با ر بار ہونا، بینائی میں دھندلاپن، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا، خشک کھردری جلد/خارش کا ہونا اور جنسی مسائل شامل ہیں۔ لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
چونکہ ذیابیطس کے بارے میں شوگر ٹیسٹ / سکریننگ سے ہی معلوم ہوتا ہے، اس لیے ایسے افراد جن کی عمر چالیس برس سے زائد ہو، خاندان کے دیگر افراد میں ذیابیطس موجود ہو، خواتین جن کو دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، خواتین جنہوں نے 9پونڈ سے زیادہ وزن کے بچے کو جنم دیا ہو اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو احتیاطاًسکریننگ کرواتے رہنا چاہیے تاکہ بیماری کی صورت میں بروقت علم ہو سکے۔
ذیابیطس کی دو اقسام ہیں
ذیابیطس ٹائپ 1۔ بچپن یا اوائل عمری میں ہوتی ہے، اس میں انسولین قدرتی طور پر جسم میں کم پیدا ہوتی ہے ، اس کا علاج انسولین کے بغیر ممکن نہیں۔
دوسری قسم کو ذیابیطس ٹائپ 2کہا جاتا ہے۔ذیابیطس کے مریضوں میں دس میں سے کم از کم نو ٹائپ 2میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ عموماً بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے۔ ذیابیطس کی اس قسم میں جسم میں بنتے والی قدرتی انسولین موثر طور پر استعمال نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے خون میں شوگر (گلوکوز) کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
لو بلڈ شوگر کی علامات میں کمزوری اور کپکپاہٹ محسوس ہونا، جلد زرد پڑ جانا اور ٹھنڈ سمیت چپچپاہٹ محسوس ہونا، چڑچڑاہٹ، الجھن اور خراب رویے کا مظاہرہ، دل کی دھڑکن کی رفتار اچانک بڑھ جانا اور مریض کا ہوش و حواس کھو دینا یا بے ہوش ہوجانا شامل ہے ۔اس کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جن میں حال ہی میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہو۔ اگر مریض مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہو تو اسے کوئی میٹھا مشروب یا کوئی گلوکوز ٹیبلیٹس دینی چاہیے۔
ذیابیطس کے شکار افراد اکثر اپنے ساتھ گلوکوز کی ڈوز یا کوئی میٹھی چیز رکھتے ہیں، جس کا ڈاکٹر بھی انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ اگر مریض کچھ کھانے یا پینے کے بعد فوری طور پر حالت میں بہتری محسوس کرنے لگے تو اسے ایسی غذا دیں جو آہستگی سے کاربوہائیڈریٹ ریلیز کرتی ہو جیسے سینڈوچ، پھل کا ایک ٹکڑا، بسکٹ اور دودھ وغیرہ۔ اس کے بعد مریض کا گلوکوز لیول چیک کریں۔ اگر حالت زیادہ خراب ہونے لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
بلڈ شوگر بڑھنے کی علامات میں بہت زیادہ پیاس، بہت زیادہ پیشاب آنا (خاص طور پر رات کو)، وزن میں کمی، جلد پر خارش، زخموں کا دیر سے بھرنا اور مریض پر ہر وقت غنودگی طاری رہنا جو بے ہوشی کا باعث بن جائے شامل ہیں۔ اگر مریض گر جائے اور آپ کو بلڈ شوگر میں اضافے کا شبہ ہو تو فوری طور پر اس کی سانس چیک کرنی چاہیے اور ایمرجنسی طبی امداد کے لیے کال کرنی چاہیے۔ اگر مریض صحیح سانس نہیں لے رہا ہو تو اسے پہلو کے بل لٹا دیں، اس پوزیشن میں اس کی سانس کی گزرگاہ کھل جائے گی۔ اگر وہ پہلو کے بل لیٹ نہیں پا رہا تو اس کے حواس، سانس اور دھڑکن کو چیک کریں۔ طبی امداد کے آنے تک بار بار مریض کو چیک کرتے رہیں۔
ذیابیطس (پائپ 2)کے موجودہ طرز علاج کے تحت درج ذیل طریقوں سے بلڈ شوگر (گلوکوز) کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
1۔ خوراک میں تبدیلی اور اعتدال
2۔ فربہ افراد (overweight)کا وزن کم کروانا۔ جس کے لیے باقاعدہ ورزش اور جسمانی فعالیت والا طرز زندگی اختیار کیا جاتا ہے۔
3۔ مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ ایک یا زائد دوائیں یا انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام میں جہاں عوامی آگاہی کی مہمات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں وہیں حکومتی سطح پر فوری نوعیت کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
ذیابیطس اور عمومی طور پر تمام غیر متعدی امراض کی روک تھام، علاج اور سب سے اہم ان سے بچاؤ کے لیے مرکزی سطح پرنیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جانا چاہیے اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پلان پر عمل درآمد کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ اس پلان کے تحت ذیابیطس، بلڈ پریشر سمیت فالج، ذہنی صحت، کینسر اور بحالی (Rehabilitation) کے لیے خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
شوگر کے مرض سے بچاؤ اور جلد تشخیص کے حوالے سے ملک گیر سطح پر حکومت آگاہی مہم کا اجراء کرے۔ اس ضمن میں کرونا کے متعلق آگہی کی عملی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہر سال نومبر کا پورا مہینہ ذیابیطس کی آگہی کے لیے وقف کیا جانا چاہیے، اور موبائل کمپنیوں کو اس مرض کے متعلق مستند معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
علاوہ ازیں درج ذیل اقدامات بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام میں انتہائی مددگار ہو سکتے ہیں:
1۔ پرائمری تعلیمی نصاب میں صحت مند زندگی کی اہمیت، صحت مند خوراک، دانتوں کی صفائی، ہر قسم کی تمباکو نوشی / منشیات کے استعمال کی تباہ کاریوں کے متعلق بچوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں، معذوری اور قبل از وقت اموات سے بچایا جا سکے۔
2۔ حکومت مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس کو بڑھانے اور اس کی آمدن ان امراض کے علاج کی سہولیات کے اضافے پر خرچ کرے۔
3۔ ذیابیطس سمیت تمام غیر متعدی امراض بشمول بلڈ پریشر کی ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد کمی کی جائے ۔
4۔ تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں ان ادویات کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے۔
5۔ پاکستان میں پیرا میڈیکل اسٹاف کو ذیابیطس کے مریضوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کی تربیت فراہم کی جائے تاکہ شوگر کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی صحیح نگہداشت کے ذریعے ہزاروں افراد کی ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذوری سے بچایا جا سکے۔
6۔ معاشرے میں صحت مندانہ طرز زندگی اور متوازن غذا کے حوالے سے شعور بیدار کرنا لازمی عمل ہے کیونکہ کروڑوں پاکستانی اس موذی امراض میں مبتلا ہونے کے بعد موثر علاج کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
7۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی قیمتوں اور بالخصوص ان کے معیار پر حکومتی متعلقہ اداروں کو چیک اینڈ بیلنس کے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر مختلف رفاہی تنظیمیں عوامی آگاہی اور مریضوں کے علاج کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ( پیما )کے تحت ملک بھر میں فری ذیابیطس کلینکس قائم ہیں جو 2014ء سے عوامی خدمت کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کلینکس پر رجسٹرڈ مریضوں کو ماہانہ بنیادوں پر فری ادویات اور انسولین مہیا کی جاتی ہے۔
یہ کلینکس جہاں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج مہیا کر رہے ہیں ، وہیں ان میں مختلف مواقع پر عوامی آگاہی کے پروگرامات کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اس مرض سے بچاؤ، اور مرض کے ساتھ زندگی سے متعلق موضوعات پر لوگوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔
( ڈاکٹر عبدالمالک ، لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈنیسٹری، کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں۔)
ایسی بیماریوں میں شوگر یا ذیابیطس بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔ ذیابیطس کا مرض اس وقت وبائی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42کروڑ 22لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق چالیس سال قبل کے اعدادوشمار کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ مرض پہلے کے مقابلے میں چار گنا بڑھا ہے۔ صرف پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد اس مرض کے سبب معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کا سبب بننے والی آٹھویں بڑی وجہ ہے اور 2005ء کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایک ایسی بیماری جو مسلسل بڑھ بھی رہی ہے اور لوگوں کی جان لینے کا سبب بھی بن رہی ہے، اس کے بارے میں یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ ذیابیطس کا شکار ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیماری سے لاعلم ہے ، اور اگر بیماری کے بارے میں وہ جانتے بھی ہیں تو ایسے روز مرہ معمولات سے ناواقف ہیں، جن میں معمولی تبدیلی سے بیماری اور اس کے برے اثرات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
16-2017 میں ہونے والے ایک قومی سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ اس سروے کے مطابق ملک کی آبادی میں 20 سال کی عمر سے زیادہ کے ساڑھے تین کروڑ سے پونے چار کروڑ افراد اِس مرض کا شکار ہیں۔
ذیابیطس ایسا متعدی مرض ہے جو کہ خون میں شکر کی مطلوبہ حد سے تجاوز کرنے سے لاحق ہوتی ہے۔ یہ ایک دائمی بیماری ہے اور اثرات کے لحاظ سے نہ صرف مہلک ہے بلکہ کئی دیگر بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ شوگرکے مریض جلد ہی دل، گردوں اور آنکھوں کے امرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ذیابیطس کی بنیادی وجوہات میں جسمانی محنت کی کمی، موٹاپا اور غیر متوازن غذا شامل ہیں جن کے باعث ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر فوری طور پر اس مرض کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ 25برسوں میں یہ تعداد 14ملین تک بڑھنے کا امکان ہے۔ ذیابیطس پر مؤثر کنٹرول کے لیے متوازن غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش اور ادویات کا استعمال ضروری ہے۔
ذیابیطس کی معروف علامات میں تھکاوٹ کا احساس،بھوک اور پیاس میں اضافہ ، پیشاب کی زیادتی، ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ، انفیکشن کا با ر بار ہونا، بینائی میں دھندلاپن، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا، خشک کھردری جلد/خارش کا ہونا اور جنسی مسائل شامل ہیں۔ لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
چونکہ ذیابیطس کے بارے میں شوگر ٹیسٹ / سکریننگ سے ہی معلوم ہوتا ہے، اس لیے ایسے افراد جن کی عمر چالیس برس سے زائد ہو، خاندان کے دیگر افراد میں ذیابیطس موجود ہو، خواتین جن کو دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، خواتین جنہوں نے 9پونڈ سے زیادہ وزن کے بچے کو جنم دیا ہو اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو احتیاطاًسکریننگ کرواتے رہنا چاہیے تاکہ بیماری کی صورت میں بروقت علم ہو سکے۔
ذیابیطس کی دو اقسام ہیں
ذیابیطس ٹائپ 1۔ بچپن یا اوائل عمری میں ہوتی ہے، اس میں انسولین قدرتی طور پر جسم میں کم پیدا ہوتی ہے ، اس کا علاج انسولین کے بغیر ممکن نہیں۔
دوسری قسم کو ذیابیطس ٹائپ 2کہا جاتا ہے۔ذیابیطس کے مریضوں میں دس میں سے کم از کم نو ٹائپ 2میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ عموماً بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے۔ ذیابیطس کی اس قسم میں جسم میں بنتے والی قدرتی انسولین موثر طور پر استعمال نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے خون میں شوگر (گلوکوز) کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
لو بلڈ شوگر کی علامات میں کمزوری اور کپکپاہٹ محسوس ہونا، جلد زرد پڑ جانا اور ٹھنڈ سمیت چپچپاہٹ محسوس ہونا، چڑچڑاہٹ، الجھن اور خراب رویے کا مظاہرہ، دل کی دھڑکن کی رفتار اچانک بڑھ جانا اور مریض کا ہوش و حواس کھو دینا یا بے ہوش ہوجانا شامل ہے ۔اس کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جن میں حال ہی میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہو۔ اگر مریض مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہو تو اسے کوئی میٹھا مشروب یا کوئی گلوکوز ٹیبلیٹس دینی چاہیے۔
ذیابیطس کے شکار افراد اکثر اپنے ساتھ گلوکوز کی ڈوز یا کوئی میٹھی چیز رکھتے ہیں، جس کا ڈاکٹر بھی انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ اگر مریض کچھ کھانے یا پینے کے بعد فوری طور پر حالت میں بہتری محسوس کرنے لگے تو اسے ایسی غذا دیں جو آہستگی سے کاربوہائیڈریٹ ریلیز کرتی ہو جیسے سینڈوچ، پھل کا ایک ٹکڑا، بسکٹ اور دودھ وغیرہ۔ اس کے بعد مریض کا گلوکوز لیول چیک کریں۔ اگر حالت زیادہ خراب ہونے لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
بلڈ شوگر بڑھنے کی علامات میں بہت زیادہ پیاس، بہت زیادہ پیشاب آنا (خاص طور پر رات کو)، وزن میں کمی، جلد پر خارش، زخموں کا دیر سے بھرنا اور مریض پر ہر وقت غنودگی طاری رہنا جو بے ہوشی کا باعث بن جائے شامل ہیں۔ اگر مریض گر جائے اور آپ کو بلڈ شوگر میں اضافے کا شبہ ہو تو فوری طور پر اس کی سانس چیک کرنی چاہیے اور ایمرجنسی طبی امداد کے لیے کال کرنی چاہیے۔ اگر مریض صحیح سانس نہیں لے رہا ہو تو اسے پہلو کے بل لٹا دیں، اس پوزیشن میں اس کی سانس کی گزرگاہ کھل جائے گی۔ اگر وہ پہلو کے بل لیٹ نہیں پا رہا تو اس کے حواس، سانس اور دھڑکن کو چیک کریں۔ طبی امداد کے آنے تک بار بار مریض کو چیک کرتے رہیں۔
ذیابیطس (پائپ 2)کے موجودہ طرز علاج کے تحت درج ذیل طریقوں سے بلڈ شوگر (گلوکوز) کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
1۔ خوراک میں تبدیلی اور اعتدال
2۔ فربہ افراد (overweight)کا وزن کم کروانا۔ جس کے لیے باقاعدہ ورزش اور جسمانی فعالیت والا طرز زندگی اختیار کیا جاتا ہے۔
3۔ مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ ایک یا زائد دوائیں یا انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام میں جہاں عوامی آگاہی کی مہمات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں وہیں حکومتی سطح پر فوری نوعیت کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
ذیابیطس اور عمومی طور پر تمام غیر متعدی امراض کی روک تھام، علاج اور سب سے اہم ان سے بچاؤ کے لیے مرکزی سطح پرنیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جانا چاہیے اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پلان پر عمل درآمد کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ اس پلان کے تحت ذیابیطس، بلڈ پریشر سمیت فالج، ذہنی صحت، کینسر اور بحالی (Rehabilitation) کے لیے خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
شوگر کے مرض سے بچاؤ اور جلد تشخیص کے حوالے سے ملک گیر سطح پر حکومت آگاہی مہم کا اجراء کرے۔ اس ضمن میں کرونا کے متعلق آگہی کی عملی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہر سال نومبر کا پورا مہینہ ذیابیطس کی آگہی کے لیے وقف کیا جانا چاہیے، اور موبائل کمپنیوں کو اس مرض کے متعلق مستند معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
علاوہ ازیں درج ذیل اقدامات بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام میں انتہائی مددگار ہو سکتے ہیں:
1۔ پرائمری تعلیمی نصاب میں صحت مند زندگی کی اہمیت، صحت مند خوراک، دانتوں کی صفائی، ہر قسم کی تمباکو نوشی / منشیات کے استعمال کی تباہ کاریوں کے متعلق بچوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں، معذوری اور قبل از وقت اموات سے بچایا جا سکے۔
2۔ حکومت مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس کو بڑھانے اور اس کی آمدن ان امراض کے علاج کی سہولیات کے اضافے پر خرچ کرے۔
3۔ ذیابیطس سمیت تمام غیر متعدی امراض بشمول بلڈ پریشر کی ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد کمی کی جائے ۔
4۔ تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں ان ادویات کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے۔
5۔ پاکستان میں پیرا میڈیکل اسٹاف کو ذیابیطس کے مریضوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کی تربیت فراہم کی جائے تاکہ شوگر کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی صحیح نگہداشت کے ذریعے ہزاروں افراد کی ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذوری سے بچایا جا سکے۔
6۔ معاشرے میں صحت مندانہ طرز زندگی اور متوازن غذا کے حوالے سے شعور بیدار کرنا لازمی عمل ہے کیونکہ کروڑوں پاکستانی اس موذی امراض میں مبتلا ہونے کے بعد موثر علاج کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
7۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی قیمتوں اور بالخصوص ان کے معیار پر حکومتی متعلقہ اداروں کو چیک اینڈ بیلنس کے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر مختلف رفاہی تنظیمیں عوامی آگاہی اور مریضوں کے علاج کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ( پیما )کے تحت ملک بھر میں فری ذیابیطس کلینکس قائم ہیں جو 2014ء سے عوامی خدمت کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کلینکس پر رجسٹرڈ مریضوں کو ماہانہ بنیادوں پر فری ادویات اور انسولین مہیا کی جاتی ہے۔
یہ کلینکس جہاں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج مہیا کر رہے ہیں ، وہیں ان میں مختلف مواقع پر عوامی آگاہی کے پروگرامات کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اس مرض سے بچاؤ، اور مرض کے ساتھ زندگی سے متعلق موضوعات پر لوگوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔
( ڈاکٹر عبدالمالک ، لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈنیسٹری، کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں۔)