ناقص منصوبہ بندی کے باعث قومی شاہراہ پر تعمیراتی کام سست روی کا شکار

ٹریفک جام، گرد و غبار کا طوفان، عوام پریشان

ٹریفک جام، گرد و غبار کا طوفان، عوام پریشان۔ فوٹو : فائل

مسافروں کا ایک کارواں اپنا مال و متاع خچروں پر لادے شب و روز چلا جارہا تھا، کم و بیش سو سورج اور تین پورے چاند دیکھنے کے بعد جب وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچا تو مسافر بے حال تھے، سفر کی صعوبتیں اور گرد و غبار ان کے چہرے پر نقش ہوکر رہ گیا تھا، اعصاب تھکن سے چور تھے، دست و پا میں جیسے جان ہی نہ رہی تھی۔

صدیوں بعد وقت بدلا، اب لوہے کا ایک ڈبہ سو سے زاید مسافروں اور ان کے مال ومتاع کو اٹھائے تیزی سے دوڑا چلا جارہا ہے، مسافر آرام دہ سیٹوں پر محو خواب ہیں چند گھنٹوں بعد ہی منزل آگئی، مسافر جاگ اٹھے، اعصاب دوران سفر نیند سے پرسکون ہوگئے اور پھر سے کاروبار زندگی شروع ہوگیا۔

پہلا دور وہ تھا، جب سفر انتہائی مشکل تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک مقام سے دوسرے مقام پر آنے جانے کے لیے لوگ اونٹ، گھوڑے اور بیل گاڑیوں پر سفر کیا کرتے تھے اور مہینوں میں جاکر اپنی منزل مقصود تک پہنچا کرتے تھے، اس دوران سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا، آگ برساتے سورج میں جدوجہد کرتے ہوئے منزل تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوا کرتا تھا، اور ویرانوں میں لٹنے کے خطرات بھی سر پر منڈلاتے رہتے تھے۔

دوسرا دور یہ ہے سائنس نے ترقی کی، تو مختلف انسانی اذہان نے سفر کی صعوبتیں کم کرنے اور سفر کو سہل بنانے کا سوچا، تب کہیں جاکر ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کا وجود عمل میں آیا اور فضائی اور زمینی گزر گاہیں بھی بنائی گئیں، دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں کا جال بچھ گیا جس کے سبب گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں اور مہینوں کا فاصلہ دنوں میں سمٹ کر رہ گیا اور ایک شہر سے دوسرے شہر تو کیا ایک ملک سے دوسرے ملک جانا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی سفر کو سہل بنانے اور مسافروں کو دشواریوں و اذیتوں سے بچانے کے لیے ہر دور میں اقدامات کیے جاتے رہے، جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے بھی آئے ہیں۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے بیشتر پسماندہ علاقوں میں آج بھی سفر کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے، نہ تو پختہ سڑکیں میسر ہیں اور نہ ہی ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں دست یاب ہیں۔

جمہوری عمل کے ذریعے عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر ایوان بالا اور زیر یں میں پہنچنے والے ارباب اختیار نے اپنے علاقوں کے مکینوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بلند بانگ دعوے کیے مگر نیک نیتی و خلوص شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ قومی خزانے سے خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود عوام کو وہ سہولیاتِ زندگی نہ مل سکیں جو ان کا حق ہیں۔



سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع تاریخی و تجارتی اعتبار سے اپنی الگ شناخت و حیثیت رکھنے والے ضلع سکھر میں گزشتہ 5 سال کے دوران کیے جانے والے ترقیاتی کاموں پر سرسری نظر ڈالی جائے تو صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی جانب سے 4 ارب 76 لاکھ روپے منظور کرائے گئے، رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ نے کم و بیش ایک ارب روپے منظور کرائے، رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر نصر اﷲ بلوچ نے 269 ملین، حاجی انور خان نے 276 ملین، جام سیف اﷲ دھاریجو نے 644 ملین، سید جاوید شاہ نے تقریباً 2 سو ملین روپے، مختلف ترقیاتی اسکیموں کی مد میں منظور کروائے۔

ان اراکین قومی وصوبائی اسمبلی نے منظور کردہ رقم کا زیادہ تر حصہ سڑکوں کا جال بچھانے کے لیے استعمال کیا، تاہم اس کے باوجود سکھر کے شہری سفر کی سہولیات سے تاحال محروم ہیں۔ ناقص منصوبہ بندی اور سیاسی ٹھیکے داروں کو نوازنے کے سبب بعض ترقیاتی اسکیمیں تکمیل سے قبل ہی اپنی افادیت کھو بیٹھیں اور بیشتر منصوبے تکمیل کے فوری بعد شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے درد سر بن گئے۔ ترقیاتی کاموں میں زیادہ تر ایسے منصوبوں کو ترجیح دی گئی جس سے سیاسی ٹھیکے داروں کو زیادہ اور عوام کو کم فائدہ ہوا۔

اس سلسلہ میں حاصل کردہ مزید معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کے حلقے صالح پٹ و پنوعاقل میں سب سے زیادہ رقم سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی گئی، حکم راں جماعت کے منتخب نمایندوں کی زیادہ تر توجہ سڑکوں کی تعمیر پر رہی اور ایسی جگہوں پر بھی سڑکیں تعمیر کی گئیں، جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔


اب ایک جائزہ کراچی سے پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختون خواہ جانے والی قومی شاہ راہ کی تعمیر پر ڈالتے ہیں، حالت زار کچھ یوں ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے قاضی احمد سے اوباڑو تک قومی شاہ راہ کو بہتر بنانے کے لیے جاری کام سست روی کا شکار ہونے کی وجہ سے صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے لگی ہیں۔ کراچی، خیبرپختون خواہ، بلوچستان، پنجاب سمیت ملک بھر سے آنے جانے والی گاڑیاں قومی شاہ راہ پر جاری کام کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام میں پھنسی رہتی ہیں اور گھنٹوں سیکڑوں چھوٹی بڑی گاڑیوں کا پہیہ جام رہنا معمول بن گیا ہے۔

ملک بھر سے آنے جانے والی گاڑیاں بدترین ٹریفک جام رہنے سے منزل مقصود پر پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہیں۔ قومی شاہ راہ پر 16 گھنٹے سے ٹریفک جام میں پھنسے ٹرک ڈرائیور رحمت اﷲ اچکزئی، مراد علی، اﷲ بخش، سعید جان، الٰہی بخش و دیگر نے صحافیوں کو بتایا کہ شاہ راہ پر عرصہء دراز سے تعمیراتی کام جاری ہے، جس کی وجہ سے ہم کئی دن تاخیر سے منزل مقصود پہنچتے ہیں۔ ایک جانب بدترین ٹریفک جام سے خطیر رقم اور پیٹرول کا ضیاع ہورہا ہے تو دوسری جانب صنعتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، تاخیر سے پہنچنے پر مالکان ہم سے باز پرس کرتے ہیں، ہم پہلے ہی شاہ راہ پر جاری کام کی وجہ سے بدترین ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے کہ سانحہ مستونگ کے بعد دو دن سے جاری دھرنے کی وجہ سے ہم سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایوان صنعت و تجارت کے نائب صدر سید انوار علی جعفری کا کہنا ہے کہ منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا فاصلہ دنوں میں طے ہورہا ہے، جس کی وجہ سے خام مال منگوانے اور تیار مال اصل مقام تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہے، اس کی وجہ سے حکومت کو محصولات کی وصولی میں کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہورہا ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک افسر محمد جاوید چنہ نے بتایا کہ رانی پور سے سکھر تک 56 کلو میٹر تک ٹریک کو بہتر بنانے کا کام گزشتہ ماہ شروع کیا گیا تھا جو 15 فروری 2015 میں مکمل ہوگا، جس پر ایک اندازے کے مطابق 25 سو ملین روپے لاگت آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے ہر 5 کلو میٹر کے بعد ڈائی ورجن لگایا گیا ہے اور ہم اپنے ٹارگیٹ پر بہتر انداز سے کام کررہے ہیں۔ دوسری جانب بدترین ٹریفک جام اور شاہ راہ پر تعمیراتی کام کی وجہ سے گاڑیوں کے مالکان منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے چھوٹے، بڑے دیہاتوں اور شہروں کا رخ کررہے ہیں، جس سے شہروں اور دیہاتوں کی شاہ راہیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

ٹھیڑہی موڑ، خیرپور، کوٹ بنگلو اور دیگر علاقوں کے رہائشی نور الدین، سعید احمد، عبدالرشید، شبیر احمد، حسن علی منگریو، حاجی محمد اشرف، گل حسن، شیر دل نے بتایا کہ طویل عرصے سے زیر تعمیر قومی شاہ راہ کے کام میں تاخیر کے سبب اب چھوٹی، بڑی گاڑیاں شہری علاقوں سے گزر رہی ہیں، جس کی وجہ سے ایک جانب بدترین ٹریفک جام رہتا ہے تو دوسری جانب ٹنوں وزنی گاڑیوں کی وجہ سے شہر کی شاہ راہیں ناکارہ ہورہی ہیں، صورت حال بہتر نہ ہوئی تو اربوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی شاہ راہیں ناکارہ ہوجائیں گی اور حکومت کو دوبارہ اس پر خطیر رقم خرچ کرنا ہوگی۔



مکینوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی سے خیبرپختون خواہ اور پنجاب سے کراچی آنے جانے والے ٹرالر اور ٹرکوں کی وجہ سے حادثات بھی رونما ہورہے ہیں اور شہریوں کا زخمی ہونا معمول بن چکا ہے۔ دریں اثناء قومی شاہ راہ پر جاری کام کے سبب بدترین ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہزاروں گاڑیوں کے مسافروں بالخصوص خواتین، معصوم بچے اور ضعیف العمر افراد انتہائی اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہنے سے متعدد مسافروں کی حالت غیر ہونا بھی معمول بن گیا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کے سبب مسافر دوہرے عذاب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ گاڑیوں کے مالکان، مسافروں، شہریوں اور تاجروں نے وفاقی حکومت، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، موٹر وے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی شاہ راہ پر کام کی رفتار کو تیز کرکے اسے جلد مکمل کیا جائے۔

قومی شاہ راہ پر تعمیراتی کام سے گرد و غبار کے سبب مسافر گاڑیوں، کوچز، ہائی ایس وین، کاروں اور دیگر گاڑیوں کے حادثات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سڑک پر پتھروں کے سبب روزانہ متعدد گاڑیوں کے ٹائرز کا پھٹنا، بریک ناکارہ ہونے سمیت دیگر خرابیوں کے سبب گاڑیوں کا الٹنا معمول بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں مسافروں کا زخمی ہونا عام سی بات رہ گئی ہے، جب کہ گاڑی کی خرابی دور کرنے کے لیے قریب میں کوئی مکینک یا گیراج نہ ہونے کے سبب گاڑی مالکان کو اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ قاضی احمد سے لے کر سکھر تک مختلف مقامات پر سڑک کے تعمیراتی کام کی وجہ سے دھول مٹی اور گرد وغبار کے سبب آس پاس کے دیہاتوں میں مقیم عوام بھی سنگین صورت حال سے دوچار ہیں۔ گرد وغبار کے سبب ایک جانب ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب سڑک کے دونوں اطراف کاشت کی جانیوالی فصلوں کو بھی شدید نقصانات پہنچ رہے ہیں اور دیہاتی سانس اور جلدی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

دیہاتیوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب سے کام شروع ہوا ہے ہم لوگ عذاب میں مبتلا ہوگئے ہیں، سارا دن ہمارے علاقوں میں دھول مٹی کے بادل اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم لوگ ٹھیک طرح سے کوئی کام نہیں کر پاتے، ہمارے معصوم بچے اور ضعیف العمر افراد مختلف بیماریوں کا نشانہ بن رہے ہیں، ہم غریب لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات بھی میسر نہیں، حکومت کو چاہیے کہ ہماری مشکلات کا احساس کرتے ہوئے کام کو جلد مکمل کرے۔

مسافروں نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے سبب ہمیں اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہونا پڑرہا ہے، سفری سہولیات کو بہتر بنانا اچھا کام ہے مگر بغیر حفاظتی اقدامات اور حکمت عملی کے تعمیراتی کام ہمارے لیے درد سر بن گیا ہے، ایک جانب منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہورہا ہے تو دوسری طرف ٹرانسپورٹرز زاید کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ قومی شاہ راہ پر مسافر گاڑیاں چلانے والے ڈرائیورز محمد پنہل، محمد احسان، عبدالقیوم، رشید احمد کا کہنا ہے کہ زیر تعمیر شاہ راہ پر ہماری گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹائی راڈ اور کمانیاں ٹوٹنے کی وجہ سے کئی اموات ہوچکی ہیں، جب کہ زیرتعمیر سڑک کے پتھر شیشوں پر لگنا معمول بن چکا ہے اور کئی مسافر زخمی بھی ہوچکے ہیں۔

زاید کرایہ کی شکایت پر ایکسپریس کو بتایا گیا کہ جب شاہ راہ بہتر تھی، ہم لوگ جلد پہنچ جاتے تھے اور اب سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور تعمیراتی کام جاری ہے، جس کے سبب ہمیں وقت زیادہ لگتا ہے اور پٹرول بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ صرف ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے کرایہ میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شاہراہ کے کام کی وجہ سے ہمیں بھی مشکلات کا سامنا ہے، ہمارے کاروبار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ہمیں مسافروں کی پریشانیوں کا بھی احساس ہے مگر ہم خود مجبور ہیں۔
Load Next Story