کالا کوٹ اور پاکستانی خواتین

قانون کے پیشے سے وابستہ خواتین کو کن دشواریوں کا سامنا ہے؟

قانون کے پیشے سے وابستہ خواتین کو کن دشواریوں کا سامنا ہے؟

ایک صدی قبل تک سفید یونیفارم، سفید دوپٹہ اور کالے کوٹ کو کوئی تصور نہیں تھا۔

1923کے ایکٹ کے مطابق خواتین کو قانون کے شعبے میں پیشہ ورانہ خدمات کی اجازت دے دی گئی۔ مگر لیگل پریکٹشنر ایکٹ میں قانونی تبدیلی کردی گئی، جس کے مطابق کلکتہ اور پٹنہ کے ہائی کورٹس نے خواتین کو قانون کے شعبے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس ضمن میں خواتین وکلاء کی شمولیت کی مخالفت کی وجہ یہ بھی تھی کہ مرد جج حضرات خاتون وکیل کی بے جا طرف داری نہ کریں۔

اس بِل کی مخالفت کرتے ہوئے بھاگل پور ڈویژن کے رکن پارلیمنٹ مولوی اسجد اللہ نے کہا تھا کہ خاتون وکیل نہ صرف اپنی نسوانی کشش سے کام لے کر مرد جج حضرات سے بے جا مراعات حاصل کر سکتی ہیں بلکہ دورانِ جرح وہ اپنی شخصیت سے گواہان اور ان کے بیانات پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے، جب کہ شمال مغربی سرحدی صوبے سے قانون ساز اسمبلی کے رکن خان بہادر عبدالرّحیم خان نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے دلیل دی کہ عدالتوں میں خواتین بیرسٹر کی موجودگی پولیس اور مجرموں تک کو تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہنے کی طرف مائل رکھے گی۔ یہ ایک مثبت قدم ہوگا۔

مقامِ افسوس ہے کہ آج سو سال بعد بھی جنسِ مخالف کی جانب سے خواتین وکلاء، ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر کم و بیش وہی خیالات اور وہی رویّے دہرائے جا رہے ہیں جو ان کی اس شعبے میں ترقی اور اعلیٰ عہدوں کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ایک نجی محفل میں ایک ریٹائرڈ جج نے کہا خواتین کی پر شفقت اور حساس فطرت اس شعبے کے ''سخت قانونی معاملات'' کے لیے بالکل ناموزوں ہیں اور اگر وہ اس شعبے میں کام کرنا چاہتی ہیں تو اس کے ''نرم'' حصے میں اپنی خدمات بخوبی انجام دے سکتی ہیں جیسا کہ ''فیملی لا۔''

سو سال قبل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی خواتین نے قانون کے شعبے میں قدم رکھنا شروع کردیا اور رفتہ رفتہ بطور منصف اور وکیل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ ترقی پذیر ممالک جس میں پاکستان بھی شامل ہے، یہاں روایتی تعلیم کے حصول میں ہی بہت سی رکاوٹیں ہیں چہ جائے کہ پیشہ ورانہ تعلیم وہ بھی قانون کا شعبہ جس میں خاتون وکیل کو تھانہ، کچہری، پولیس اور ہر طرح کے مجرمان سے واسطہ لازمی پڑ سکتا ہے۔ معاشرتی طور پر کسی خاتون وکیل کے لیے یہ سب کچھ ناپسندیدہ اور ناخوش گوار ہوتا ہے۔

پاکستان میں 1960کی دہائی میں خواتین نے وکالت کے شعبے میں قدم رکھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے تو قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت بالکل ہی نہیں تھی۔ 70 اور 80کی دہائی میں دو بہنوں عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے قانون کے شعبے میں کام یابی کے جھنڈے گاڑے۔ اگرچہ اس کے بعد خواتین نے اس شعبے میں ڈگریاں تو لے لیں اور لے رہی ہیں مگر ان میں سے صرف گنتی کی خواتین نے ہی بطور وکیل کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین وکلاء کے ساتھ حوصلہ شکن رویہ اور امتیازی سلوک ہے۔

مزید دیگر اہم وجوہات یا رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین وکلاء ہمت ہار کر وکالت کا شعبہ ترک کر کے تدریس یا کوئی اور شعبہ اپنا لیتی ہیں یا پھر کا م کرنا چھوڑ دیتی ہیں یا لیگل کنسلٹنٹ بن جاتی ہیں۔

عموماً خواتین وکلاء کا دائرہ کار دیوانی مقدمات اور فیملی لا تک ہی محدود ہوتا ہے۔ فوجداری قوانین میں خواتین وکلاء کی تعداد بہت کم ہے۔ عموماً مرد وکیل، مرد کلائنٹ حتیٰ کے ان کے منشی اور کلرک بھی ان کی قابلیت پر شک کرتے ہیں۔

کچھ ایسی خواتین وکلا بھی ہیں جو وکالت کا لائسنس لینے کے بعد نان پریکٹشنر ہوتی ہیں اور صرف بار کے الیکشن میں ووٹ دینے تک محدود رہتی ہیں۔

سنیئر وکلا حضرات عموماً خواتین وکلاء سے صرف تاریخیں لینے کا کام لیتے ہیں اور عدالتوں میں پیش نہیں ہونے دیتے۔

انسانی حقوق کے کمیشن میں ''ویمن ڈے'' پر ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ جنوب مغربی ایشیا (انڈیا، نیپال، بنگلادیش، سری لنکا) میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں کوئی خاتون ابھی تک سپریم کورٹ کی جج نہیں بن سکی۔ باقی چاروں ممالک کی خواتین اعلیٰ عدالتوں یعنی سپریم کورٹس میں اپنے فرائض بخوبی انجام دے چکی ہیں۔

پاکستان میں ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد 120ہے جن میں صرف 7خواتین ججز ہیں جو کہ کل تعداد کا 5.8 فی صد بنتا ہے۔ حتیٰ کے ضلعی عدالتوں میں خواتین کی کثیر تعداد کو بطور جج مقرر کیا گیا لیکن پھر خواتین ججز کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی اور ان کے اختیارات میں بھی۔

مثال کے طور پر پنجاب میں 20فی صد سول خواتین ججز کی تقرری ہوئی مگر پھر خواتین کی تعداد گھٹ کر سنیئر سول ججز میں ان کا تناسب 5 فی صد رہ گیا۔بالکل اسی طرح ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں خواتین ججز کی تعداد7فی صد تھی و2 فی صد رہ گئی۔ یہی توازن کا بگاڑ آپ کو بار ایسوسی ایشن میں بھی دیکھنے کو ملے گا۔ 1973کے آئین کے مطابق بار کونسل کے ارکان کی تعداد 25 تھی جو کہ وکلاء کی اعلیٰ کونسل ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس اعلیٰ کونسل میں خواتین وکلاء کی شمولیت کبھی بھی نہ رہی۔

بظاہر کچھ نظر نہ آنے والی رکاوٹیں، امتیازی معاشرتی رویے خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی تو کرتے ہیں مگر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہت سے شعبے جہاں خواتین کام کرتی ہیں انہیں مرد حضرات کی طرف سے بڑی مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں سے ایک شعبہ قانون کا بھی ہے۔

اگر خواتین بحیثیت وکیل کام کرنا بھی چاہیں تو شادی اور خاندان بننے کے بعد اپنا کام ترک کر دیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی خواتین جن کا تعلق امراء کے طبقے سے ہو تو وہ بہت تیزی سے قبولیتِ عام اور کام یابیاں حاصل کرلیتی ہیں بہ نسبت ان خواتین کے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں یا اقلیتی گروہ سے ہوں، ایسی خواتین سخت مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ مشکلات تو ہر شعبے میں خواتین کو پیش آتی ہیں مگر قانون کے شعبے میں کچھ مخصوص مشکلات ہیں جن کا سامنا صرف خاتون وکیل یا خاتون ججز ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے معاملات ایسے ہیں جو تمام دنیا میں قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔2013 میں (ICJ) انٹرنیشنل کمیشن آف جیورٹس کی کانفرنس میں عدالتوں میں خواتین کی برابر نمائندگی کا معاملہ اٹھایا گیا۔

اول تو یہاں ایسا کوئی واضح معیار نہیں ہے جس کے تحت جوڈیشنل کمیشن آف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کی جا سکے۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو قانون کے شعبے میں عموماً جنسی طور پر ہراساں کرنے میں شفافیت کی کمی کی وجہ سے خواتین کا ہی نقصان ہوتا ہے اور یہی سلسلہ تا حال جاری ہے۔

عدالتیں اور بار کے ادارے بڑے پیمانے پر محاسبے سے بالا تر رہتے ہیں۔ اگر وکلاء پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہوں تو شاید ہی کبھی ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیق کرائی گئی ہو۔


روایتی طور پر یہ شعبہ مرد حضرات کا ہی سمجھا جاتا ہے، اس لیے خواتین وکلاء اور ججز کے لیے رہائش، عدالتوں میں الگ ٹوائلٹ اور زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چھٹیوں کا کوئی قانون نہیں ہے۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 یہ حق دیتا ہے کہ خواتین کے ساتھ کوئی جنسی امتیاز روا نہ رکھا جائے گا، مگر خواتین اپنے ذاتی تجربات بیان کرتی ہیں۔ ایک ادارے کے قانونی شعبے کی منیجر خاتون ایڈووکیٹ بحیثیت قانونی ایسوسی ایٹ پہلی نوکری کے تجربات بیان کرتی ہیں کہ ان کا مرد باس جان بوجھ کر اور یہ کہہ کر زیادہ سے زیادہ کام دیتا کہ خاتون کے سکھانے کے لیے یہ واحد طریقہ ہے۔

اپنا ذاتی ''لاء ایسوسی ایٹ'' چلانے والی ایک خاتون ایڈووکیٹ نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ اپنے شعبے میں قدم رکھنے کے ابتدائی سالوں میں انہوں نے دُہری محنت، زیادہ سے زیادہ کام کر کے اور اپنی ذمے داریاں

احسن طریقے سے نبھا کر مرد ساتھی وکلاء سے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا۔

بنیادی طور پور سنیئر وکلاء اپنی جونیئر وکیل خاتون سے تحقیقی کام کرواتے ہیں۔ کسی لا گریجویٹ خاتون کے لیے محض مقدمے کی تیاری کرنا سود مند نہیں ہوتا کیوںکہ عدالت میں پیش ہونا اور مقدمے کی پیروی کرنا ہی قانونی چارہ جوئی کا اصل جزو یا نچوڑ ہے جس سے انہیں دور رکھنے یا محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 350 ملین ڈالر (35بلین روپے سے زیادہ) عدالتی اصلاحات کی مد میں خرچ کیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین ججز کی تعیناتی کو ممکن بنایا جاسکے مگر حالیہ دور میں پورے پاکستان میں صرف6 خواتین ججز ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی تاحال سپریم کورٹ جج مقرر نہ کی جاسکی۔

بہت سی قانونی چارہ جوئی کی فرمز خود یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ خاتون وکیل کیا کام کر سکتی ہیں اور کیا نہیں۔ ان فرمز کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ قانونی چارہ جوئی کے معاملے میں بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں جیسے عدالتی کارروائی میں کئی کئی گھنٹے گزارنا اور ہر طرح کے مجرموں سے واسطہ پڑنا۔ یہ سب ایک خاتون وکیل کے لیے ناخوش گوار اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

ایک معروف خاتون وکیل جو کہ ایک معروف ایسوسی ایٹ کی ساتھی ہیں کہتی ہیں کہ مردوں کا خواتین کی نسبت سماجی حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے، لہٰذا ان کے کلائنٹ اور دائرہ کار بھی وسیع ہوتا ہے۔ اس لیے لا فرمز مرد وکیل کو خواتین وکلاء پر ترجیح دیتی ہیں۔

ایک خاتون وکیل نے اس ضمن میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ مرد حضرات ذہین ومحنتی اور قابل خاتون وکیل کی موجودگی اور اس کی کارکردگی سے خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے بھی خواتین وکلاء کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ایک خاتون وکیل جو سول پروپرائٹر لا ایسوسی ایٹ سے منسلک ہیں کہتی ہیں کہ بہت ہی کم خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اس شعبے میں محدود مواقع اور روایتی اور معاشرتی حدود میں رہ کر اعلیٰ مقام حاصل کیا ہو۔

عدالتوں میں خواتین وکلاء ایک ساتھ کئی چیلینجوں کا سامنا کرتی ہیں۔ محدود تعداد میں خواتین ججوں کی اعلیٰ عدالتوں میں تقرری کی جاتی ہے۔ 2009 میں ایک عدالتی پالیسی کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی خواتین ججوں کی مختص نشستوں کا ذکر نہیں کیا۔ خواتین کی بہت ہی کم تعداد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ججز مقرر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جان بوجھ کر ان کی تقرری کے معیار بہت مشکل بنائے گئے۔

ایک خاتون وکیل نے دعویٰ کیا کہ مرد وکلاء خاتون ججز کی عدالت میں پیش ہونے سے خود کو دور رکھتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرد وکلاء خاتون جج کی قانون پر مہارت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے کسی مقدمے کا فیصلہ اصولوں اور میرٹ پر کریں گی۔ امتیازی سلوک کی ایک اور مثال یہ کہ ابھی تک فیڈرل شریعت کورٹ میں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ وہ آئینی ادارہ ہے جس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پرانے قوانین کو ردّ کردے یا اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جو کہ جیوری کے متوازی کام کرتی ہے، قانون بناتے وقت اور اس میں تبدیلی کرتے ہوئے خواتین سے ان کی رائے نہیں لی جاتی۔ لہٰذا خواتین خود کو مجموعی طور پر کم زور پاتی ہیں۔

ایک وقت تھا جب خاتون ججز نے نچلی سطح کی عدالتوں میں عائلی مقدمات میں خواتین کے حق میں فیصلے دیے، لہٰذا خواتین ججز پر اس لیے بھی اعتماد نہیں کیا جاتا کہ وہ خاتون کے معاملے میں جانب دارانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔

خواتین کو زبانی بھی ہراساں کیا جاتا ہے، جس کی کوئی رپورٹ نہیں کی جاتی۔ ایک خاتون وکیل نے 35سال اس شعبے میں کام یابی سے گزارے مگر اس بنا پر اپنے خاندان کے افراد کی اس شعبے میں آنے کی حوصلہ شکنی کی۔

خواتین کو چاہیے کہ سخت محنت اور لگن کے ذریعے سنجیدگی سے اپنے شعبے میں مہارت حاصل کریں۔ پھر یقیناً عظیم کام یابیاں ان کا مقدر بنیں گی۔ انہیں خود پر اعتماد اور اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنے چاہئیں اور خود پر بھروسا رکھتے ہوئے انصاف کے حصول کے لیے قانونی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔

ایک خاتون وکیل کہتی ہیں کہ خواتین کو چاہیے کہ کام کی جگہ ہراساں کیے جانے پر ہراسمنٹ کے قانون کی عمل داری کرانے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنا زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس شعبے میں قدم رکھنے میں مدد دے گا اور وہ خود کو محفوظ محسوس کریں گی۔ دوسری صورت میں ان کا مستقبل اس شعبے میں تاریک ہے۔

بہرحال خواتین کو چاہیے کہ اپنے مرد وکلاء ساتھیوں کی برابری کی سطح پر آنے کے لیے اس شعبے میں خوب محنت اور مہارت حاصل کریں۔ اور اگر مرد ساتھی کلاء ان کے ساتھ نامناسب رویہ رکھیں تو وہ ان کا حوصلے سے سامنا کریں اور انہیں ان کی غلطی کا احساس دلائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کتنی ہی ذہین ہوں مگر مرد ساتھی آپ کو مقابلے میں پیچھے چھوڑ جائیں مگر آپ کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ اپنے شعبے میں ترقی اور کام یابیاں حاصل کرنے کے لیے مسلسل محنت، مہارت اور علم کا حصول ضروری ہے۔

قانون کے کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین وکلاء کی مہارت تسلیم کی جاتی ہے جیسے کہ فیملی لا سے متعلق کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں خواتین کلائنٹ خاتون وکیل کے پاس جانا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں کیوںکہ وہ خلع، طلاق اور بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بہت معاون اور ہمدرد ثابت ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ مستحق خواتین اور مرد کلائنٹ بھی خاتون وکیل سے خدمات لینا پسند کرتے ہیں۔

وہ خواتین وکلاء کے حسن ِاخلاق اور نرم رویے، ایمان داری اور فرض شناسی کے حوالے سے انہیں مرد وکیل پر ترجیح دیتے ہیں جو ان سے معقول فیس اور ہم درد رویہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی خواتین وکلاء کمرشل معاہدے، کارپوریٹ ٹرانزکشن، تجارتی معاہدے اور عائلی جھگڑے بھی بخوبی نمٹاتی ہیں۔ لا فرمز اس حوالے سے خواتین وکلاء پر بھر پور اعتماد کرتی ہیں۔ بہت سے ادارے خواتین وکلاء سے بطور لیگل ایڈوائزر بھی خدمات حاصل کرتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں۔
Load Next Story