شہداد کوٹ میونسپل کمیٹی بلند دعوے لیکن کارکردگی صفر

منتخب نمایندوں سے مایوس عوام


Deedar Sumro February 07, 2014
منتخب نمایندوں سے مایوس عوام۔ فوٹو : فائل

KARACHI: شہداد کوٹ کے شہری سیاسی طور پر لاوارث، بے یار ومددگار اور بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔

ایک طرف منتخب نمایندے خاموشی سے اپنوں کو نوازو کی پالیسی پر گام زن ہیں تو دوسری جانب سول سوسائٹی کی بے حسی بھی دیدنی ہے۔ یہ حلقہ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی پھوپھی فریال تالپور اور گزشتہ حکومت میں انتہائی بااثر وزیر میر نادر علی مگسی کا حلقہ انتخاب ہے۔ شہداد کوٹ میونسپل کمیٹی سیاسی مداخلت اور بدترین لوٹ مار کے باعث عوام پر بوجھ بن چکی ہے۔ ادارے کا معاشرتی اور سماجی کردار تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ شہر کی تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ نکاسی کا نظام ناکارہ اور گٹر ابل رہے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی خواب بن چکی ہے۔ میونسپل کمیٹی کو غیر قانونی اور ماورائے آئین بھرتیاں کرکے مزید مالی مشکلات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ ناقص کارکردگی پر بات کرنا عبث ہے، لیکن پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کے آٹھ ماہ میں اس ادارے کی کارکردگی صفر ہے۔

شہر کی کوئی گلی، محلہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں گندگی کے ڈھیر جمع نہ ہوں اور نالیوں کا گندہ پانی راستوں پر کھڑا نہ ہو، جب کہ غیر قانونی تجاوزات کی بھرمار نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ قلیل عرصے میں شہر کے تمام رہائشی اور تجارتی علاقوں میں لوگوں نے اپنے گھروں اور دکانوں کو دوبارہ تعمیر کر کے سرکاری زمین ہتھیائی اور بعضں نے تو پورے گھر اور دکانیں ہی سڑکوں پر تعمیر کرائے ہیں۔ مگر میونسپل افسران اور ذمہ داران نے اپنی آنکھوں پہ رشوت کی پٹیاں باندھ کر کچھ بھی نہ دیکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ جب کہ شہداد کوٹ کے مختلف محلوں ڈاب محلہ، سومرا، کالا مکان، ذوہیب آباد، اﷲ آباد، تونیہ محلہ، عید گاہ، درگاہ ، ہندو، شیخ اور غریب آباد سمیت چھوٹے بڑے محلوں میں گندگی کے ڈھیر اور گٹروں کے غلیظ پانی کی وجہ سے لوگوں کو نہ صرف آمد و رفت میں سخت دشواری کا سامنا ہے بلکہ وہ تیزی سے بیماریوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔

2013ء کے عام انتخابات میں بھی فریال تالپور اور میر نادر علی مگسی کو عوام نے اپنا نمایندہ منتخب کیا تھا، تاہم انتخابات سے قبل دونوں کے سیاسی اختلافات شہریوں کے لیے وبال بن گئے ہیں۔ 2008ء سے حکومت کے پانچ سالہ اقتدار تک نادر علی خان مگسی نہ صرف اپنے حلقہ بلکہ پورے ضلع میں سیاہ و سفید کے تنہا مالک تھے۔ افسران ہی نہیں، عام ملازم بھی صرف ان کے حکم کا پابند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افسران نے فرد واحد کے سامنے جواب دہ ہونے کی وجہ سے پورے نظام کو تلپٹ کردیا۔ تاہم اس بار میر نادر علی مگسی کو دیوار سے لگائے جانے کے باعث ان کے پورے ضلع پر حکم رانی کرنے والے سیاسی طور پر بے دست و پا ہیں۔ میر نادر علی مگسی اب صرف اپنے بنگلے اور تعزیتوں تک محدود ہوگئے ہیں۔

ایم پی اے کی شہری مسائل سے لاتعلقی نے ان کے ووٹروں کو سخت پریشانی سے دوچار کردیا ہے جب کہ دوسری جانب فریال تالپور کے کیے گئے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کے مسائل حل کرنے میں دل چسپی تو رکھتی ہیں مگر ذاتی طور پر وقت نہیں دے سکتیں جس کی وجہ سے ان کے اقدامات اور احکامات اب تک شہریوں کے لیے بے سود دکھائی دے رہے ہیں، کیوں کہ سیاسی اختلافات کے بعد انھوں نے اپنے انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لیے شہداد کوٹ میں مختلف شخصیات پر مبنی کمیٹی تشکیل دی، لیکن اس کی بھی کوئی قابل قدر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی، شہریوں کو پریشان کیے جانے کا وہی تسلسل جاری رہا ہے، جو سابقہ دور میں تھا۔



حالیہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے بعد میونسپل کمیٹی کے تین اہم افسران چیف میونسپل آفیسر، چیف آفیسر اور فنانس آفیسر میں تبدیلی کی گئی۔ میر نادر علی مگسی کے قریبی سمجھے جانے والے تینوں افسران کی جگہ فریال تالپور کے منظور نظر افسران کو مقرر کیا گیا۔ جن میں شکار پور سے فخرالدین سومرو کو چیف میونسپل آفیسر، ایم پی اے سردار خان چانڈیو کے کزن وریل خان چانڈیو کو چیف آفیسر اور کاشف شاہ کو فنانس آفیسر مقرر کیا گیا۔ عوام کو توقع تھی کہ اب فریال تالپور خصوصی دلچسپی لے رہی ہیں اور پیپلزپارٹی بھی صرف سندھ تک محدود ہے، لہٰذا حکومت اور منتخب نمایندے اپنے حلقہ کو ماڈل بنادیں گے، لیکن شہر کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ منتخب نمایندوں کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور عوام اذیت جھیل رہے ہیں۔

میونسپل کمیٹی شہداد کوٹ کے تینوں افسران اپنے دفاتر سے غائب رہتے ہیں اور سائل کلرکوں اور نائب قاصدوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ گزشتہ دنوں چیف میونسپل آفیسر فخرالدین سومرو کو یونین کے عہدے داروں نے یرغمال بنالیا اور وہ کئی گھنٹوں تک یرغمال رہے۔ عوام کو ہر بار تطہیر اور احتساب کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ مگر ان پر آج تک عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے وہی لوٹ مار، کرپشن اور بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سابقہ دور حکومت میں پیٹرول کی مد میں بارہ سے پندرہ لاکھ روپے ادا کیے جاتے تھے، جب کہ کوٹیشن بلوں کے ذریعے کرپشن علیحدہ کی جاتی تھی۔ موجودہ سیٹ اپ میں یہ سلسلہ بظاہر تو بند ہوگیا لیکن اس کے باوجود پندرہ لاکھ روپے سے زاید فیول کی مد میں خرچ ہو رہا ہے، حالاں کہ صفائی والے ٹریکٹرز اکثر فیول نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی کے افسران کرپشن کے ذریعے اپنے خاص مہربانوں کے علاوہ سیکڑوں ان لوگوں کو بھی نوازتے تھے، جن سے انہیں اپنے خلاف احتجاج کا ڈر ہوتا تھا، مگر اب افسران کو احتجاج کا کوئی ڈر نہیں۔

میونسپل کارپوریشن یونین کے نو منتخب صدر ظفر علی لنگاہ کا کہنا ہے کہ افسران کو ہم نے جو تجاویز دی ہیں، اگر ان پر عمل کر لیا جائے اور صفائی کے عملے کو تمام آلات اور مشینری کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو پندرہ دن میں شہریوں کو مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملازمین کو وقت پر تن خواہیں ادا کی جائیں تو وہ اپنے فرائض بہتر طور پر انجام دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے ان کی تجاویز پر کتنا عمل کیا جاتا ہے۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہ نماؤں کا بھی کہنا ہے کہ میونسپل کے افسران کرپشن میں مصروف ہیں اور منتخب نمایندے ان کی سرپرستی اور انہیں تحفظ دے رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت اور منتخب نمایندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں