ڈرون حملوں سے مکمل اجتناب ناگزیر
ڈرون حملوں میں کمی کا امریکی اعلان نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ سفارتی سطح پرپاکستان کے اصولی موقف کی فتح بھی ہے
FAISALABAD:
سفارتی ذرایع کے مطابق امریکا نے پاکستان کے مطالبہ پر ڈرون حملے محدود کردیے ہیں جب کہ پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے اور ممکنہ طور پر سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملوں سے اجتناب کیاجائے مزید براں پاکستان نے اس خبر پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کی جزوی نہیں بلکہ مکمل بندش چاہتا ہے۔ بلاشبہ ڈرون حملوں میں کمی کا امریکی اعلان نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ سفارتی سطح پرپاکستان کے ڈرون حملوں کی مکمل بندش کے اصولی موقف کی فتح بھی ہے جس کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے احتجاج کو قابل غور سمجھا گیا اوراس کے پہلو بہ پہلودفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا یہ استدلال بھی سنجیدہ تجزیہ کا متقاضی ہے کہ پاکستان بڑے عرصے سے ڈ رون حملے بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے کیونکہ اس میں نہ صرف معصوم لوگ مارے جاتے ہیں بلکہ یہ پاکستان کی خود مختاری کے بھی خلاف ہے ۔ اگر اب مذاکراتی عمل کے دوران پھر کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کے نام پر کوئی حملہ ہوا تو خدشہ ہے کہ دوبارہ سارا عمل سبوتاژ ہوسکتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اوباما انتظامیہ کو دور کرنا چاہیے ۔پاکستان سے اطلاعات اور ڈرون ٹیکنالوجی کی شیئرنگ خطے کے مفاد میں ہے، اور اب جب کہ پاکستان مذاکرات کے لیے بہت آگے جا چکا ہے تو امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو ڈرون حملوں کی مکمل بندش پر یک آواز ہونا چاہیے ۔
ایک سفارتی ذریعے کا یہ کہنا کہ امریکا اب شاید صرف وہ ڈرون حملے کرے گا جو القاعدہ اور طالبان کے سرکردہ لیڈروں کے خاتمے کے لیے ہو صورتحال کی گمبھیرتا اور مزید خدشات کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ بعض طاقتیں مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں، ان سے کسی بھی معاندانہ اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بعض مبصرین کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ 2014ء کے بعد جب امریکا اپنی زیادہ تر افواج افغانستان سے نکال لے گاتو ہوسکتا ہے کہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند ہوجائیں ۔ اس کا تمام تر دارومدار تاہم امریکا کے افغانستان کے ساتھ ممکنہ طور پر ہونیوالے ''سلامتی کے باہمی سمجھوتہ ''پر بھی ہے ۔مگر فوری فیصلہ میں کیا قباحت ہے جب کہ ڈرون کی فاٹا میں مکمل بندش ہی امن کی ایک اہم کلید ہے۔ ادھر امریکی صدر اوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں تسلیم کیا ہے کہ ڈرون حملوں کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ امریکا مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کی بندش پر پاکستان کے موقف کو فی الفور تسلیم کرے اسی میں اس خطے اور دنیا کا مفاد پوشیدہ ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ پرامن ماحول میں مذاکراتی عمل جلد مکمل ہوگا تاکہ کسی کو اس میں رخنہ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے حکومتی کمیٹی کو یہ ہدایت بروقت ہے کہ مذاکرات کے عمل میں تیزی لائی جائے اور طالبان کمیٹی سے مذاکرات روزانہ کی بنیاد پر کیے جائیں تاکہ اس معاملے کے اہم نتائج سے قوم کو جلد سے جلد آگاہ کیا جاسکے ۔
سفارتی ذرایع کے مطابق امریکا نے پاکستان کے مطالبہ پر ڈرون حملے محدود کردیے ہیں جب کہ پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے اور ممکنہ طور پر سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملوں سے اجتناب کیاجائے مزید براں پاکستان نے اس خبر پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کی جزوی نہیں بلکہ مکمل بندش چاہتا ہے۔ بلاشبہ ڈرون حملوں میں کمی کا امریکی اعلان نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ سفارتی سطح پرپاکستان کے ڈرون حملوں کی مکمل بندش کے اصولی موقف کی فتح بھی ہے جس کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے احتجاج کو قابل غور سمجھا گیا اوراس کے پہلو بہ پہلودفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا یہ استدلال بھی سنجیدہ تجزیہ کا متقاضی ہے کہ پاکستان بڑے عرصے سے ڈ رون حملے بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے کیونکہ اس میں نہ صرف معصوم لوگ مارے جاتے ہیں بلکہ یہ پاکستان کی خود مختاری کے بھی خلاف ہے ۔ اگر اب مذاکراتی عمل کے دوران پھر کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کے نام پر کوئی حملہ ہوا تو خدشہ ہے کہ دوبارہ سارا عمل سبوتاژ ہوسکتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اوباما انتظامیہ کو دور کرنا چاہیے ۔پاکستان سے اطلاعات اور ڈرون ٹیکنالوجی کی شیئرنگ خطے کے مفاد میں ہے، اور اب جب کہ پاکستان مذاکرات کے لیے بہت آگے جا چکا ہے تو امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو ڈرون حملوں کی مکمل بندش پر یک آواز ہونا چاہیے ۔
ایک سفارتی ذریعے کا یہ کہنا کہ امریکا اب شاید صرف وہ ڈرون حملے کرے گا جو القاعدہ اور طالبان کے سرکردہ لیڈروں کے خاتمے کے لیے ہو صورتحال کی گمبھیرتا اور مزید خدشات کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ بعض طاقتیں مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں، ان سے کسی بھی معاندانہ اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بعض مبصرین کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ 2014ء کے بعد جب امریکا اپنی زیادہ تر افواج افغانستان سے نکال لے گاتو ہوسکتا ہے کہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند ہوجائیں ۔ اس کا تمام تر دارومدار تاہم امریکا کے افغانستان کے ساتھ ممکنہ طور پر ہونیوالے ''سلامتی کے باہمی سمجھوتہ ''پر بھی ہے ۔مگر فوری فیصلہ میں کیا قباحت ہے جب کہ ڈرون کی فاٹا میں مکمل بندش ہی امن کی ایک اہم کلید ہے۔ ادھر امریکی صدر اوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں تسلیم کیا ہے کہ ڈرون حملوں کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ امریکا مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کی بندش پر پاکستان کے موقف کو فی الفور تسلیم کرے اسی میں اس خطے اور دنیا کا مفاد پوشیدہ ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ پرامن ماحول میں مذاکراتی عمل جلد مکمل ہوگا تاکہ کسی کو اس میں رخنہ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے حکومتی کمیٹی کو یہ ہدایت بروقت ہے کہ مذاکرات کے عمل میں تیزی لائی جائے اور طالبان کمیٹی سے مذاکرات روزانہ کی بنیاد پر کیے جائیں تاکہ اس معاملے کے اہم نتائج سے قوم کو جلد سے جلد آگاہ کیا جاسکے ۔