راوی اور حکومت پنجاب
راوی کی گزرگاہ آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے جو بیماریوں کا مسکن اور بیکٹیریا کی افزائش گاہ ہے۔۔۔
1947ء میں تقسیم کے بعد صرف سرحد کے دونوں پار لوگ ہی تقسیم نہ ہوئے بلکہ دریا، جنگلی حیات بھی تقسیم ہوئے بھلا ہو صدر ایوب اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا جنھوں نے ستمبر 1960ء میں ایک معاہدے پر کراچی میں دستخط کیے اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو بامعنی بنایا اور اصولی طور پر عالمی بینک کی موجودگی میںیہ تنازع طے کر لیا۔ گو کہ 1965ء اور پھر 1970ء میں پاک بھارت دو جنگیں ہوئیں مگر اس اصولی معاہدے سے ہر کسی نے روگردانی نہ کی البتہ دریائے راوی جو صدیوں سے پنجاب کو سیراب کرتا تھا خشک ہو کر رہ گیا البتہ بارش کے موسم میں یا بھارت کا اپنا اضافی پانی چھوڑتے وقت تو کچھ عرصے کے لیے یہاں سے پانی گزرتا ہے اور اس طرح یہ آلودہ جگہ گندگی کا ڈھیر یا گٹر کے پانی کی گزر گاہ بن چکا ہے۔ آصف الدولہ کوانگریزحکمرانوں کو خراج دینا پڑتا تھا اس لیے سلطنت پر اضافی بوجھ پڑ رہا تھا پھر اس بڑھتے ہوئے بوجھ سے خزانہ خالی ہوتا جا رہا تھا اور انگریزوں کو مداخلت کا موقع ملتا جا رہا تھا جو بعدازاں واجد علی شاہ کے ساتھ ہوا خدانخواستہ پنجاب میں تو ایسی کوئی کیفیت نہیں نہ کوئی غیر ملکی ہے جس کو خراج دینا پڑتا ہے لاہور شہر میں کدال، پھاؤڑہ تگاری لیے لوگ صبح صبح آ کر سڑک کے کنارے بیٹھ جاتے ہیں اور اچھے خاصے یوں ہی خالی ہاتھ واپس گھر چلے جاتے ہیں اور نہ یہاں رات کے کام کی ضرورت ہے نہ سفید پوشوں کو روزگار دینا ہے۔ یہاں تو روزگار ان کو دینا ہے جو کام کریں گے اور پھر اس کا ثمر لیں گے ۔
راوی کی گزرگاہ آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے جو بیماریوں کا مسکن اور بیکٹیریا کی افزائش گاہ ہے اگر اس علاقے کو آلودگی سے نجات دلانی ہے تو حکومت جہاں اتنے بڑے بڑے پراجیکٹ غیر ممالک کے ساتھ شروع کر سکتی ہے تو یہاں تو کوئی فارن ایکسچینج کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اس آبی گزرگاہ کو پکنک اسپاٹ بنایا جائے تو یہ خود کفیل بھی ہو سکتا ہے اگر ایک گرمی کا موسم گزر جائے اور معمولی بند آگے چل کر بنایا جائے جس سے آس پاس کے علاقے کو سینچائی اور کاشت کاری کے لیے یہ پانی ایک لمبی جھیل بن سکتی ہے اور کشتی رانی کے لیے موزوں ترین ہو سکتا ہے اضافی لوگوں کے روزگار اور شہر کی آلودگی کے خاتمے کے لیے فش فارمنگ کا آپشن بھی رکھا جائے کیونکہ فش فارمنگ اور مینڈک اور خاص طور سے سول مچھلی کی موجودگی میں مچھر کی پیدائش ممکن نہ ہو گی اہلیان لاہور کا روزگار بڑھے گا اور اس علاقے میں جو کہ 25 کلومیٹر ہو گا وہاں کیٹل فارمنگ کے علاقے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
صدیوں سے آباد زمین رہ رہ کے پیاسی ہو یہ ماحولیات کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ ہر ذی حیات کی کڑی دوسرے ذی حیات سے جڑی ہوئی ہے قدیم شہر اور قدیم تہذیبیں دریا کے کنارے آباد ہوتی تھیں سمندر کے کنارے جدید تجارتی تہذیبیں موجود ہیں لہٰذا جب دریا خشک ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف کاروباری اور معاشی اہداف کو مجروح کرتے ہیں بلکہ تہذیبی عناصر کو بھی بری طرح تباہ کرتے ہیں خشک دریاؤں کے راستوں کی کھدائی اور ان میں پانی کی روانی ضروری ہے وہ پانی جو ہمالیہ کے دامن سے نکلتا ہو اور ہزاروں میل کا سفر طے کر کے سمندر میں گرتا ہے گویا پہاڑ کا سمندر سے رابطہ ہے یہ دنیا انسان نے اپنے دست و بازو سے بانٹ رکھی ہے ورنہ ہر شے دوسری شے سے مربوط ہے اور یہی انحصار کی لڑی ہے جو زندگی کا پیغام دیتی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ تحریریں محض سخن وری نہیں بلکہ حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہیں یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کی رقم ایک برسات کے بعد دوسری برسات سے قبل واپس آ جائے گی اور پنجاب گورنمنٹ کو اتنا ریونیو ملے گا کہ دوسرے 20 یا 25 میل کی اضافی کھدائی کا کام شروع ہو جائے گا جو سال بہ سال بڑھتا رہے گا ایک وقت ایسا آئے گا کہ آبیانہ بھی موصول ہونے لگے گا قرب و جوار کی زمینیں آباد ہونے لگیں گی اور اس کام کو جس قدر بڑھایا جائے گا ملحقہ علاقوں میں سبز انقلاب کا آغاز ہو گا بھارت اتنی آبادی والا دنیا میں اناج کی کفالت کی منزل پر فائز ہو گیا ۔
کیونکہ نہرو نے آزادی کے فوراً بعد زمینداری اور وڈیرا شاہی ختم کر کے عام کسانوں کو معیشت کے دھارے میں ڈال دیا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کوشش کی تھی کہ وہ زمینداری کی یہ شکل ختم کریں ابتدا میں ان کے ساتھ وہ انقلابی طبقہ تھا جو عملدرآمد کرا سکتا تھا مگر قومی اسمبلی میں سندھ سے خاص طور پر بڑے جاگیرداروں کا قوم پرست طبقہ ان کا ہمنوا بن گیا لہٰذا وہ زمینداری کے اس بڑے عفریت کو قابو نہ کر سکے اور زرعی اصلاحات کا یہ باب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اس لیے زرعی انقلاب برپا نہ ہو سکا اور آخر کار رجعت پسندوں نے اسلام کا نام لے کر ضیا الحق کی قیادت میں وہ انقلاب برپا کیا جو درحقیقت رد انقلاب تھا بھٹو کے دور میں نہ آئی ایم ایف کی یہ طاقت تھی کہ وہ ہمارے سالانہ بجٹ کے خد و خال بنا سکے اور نہ ٹیکس اور سبسڈی پر براہ راست کوئی قدم اٹھا سکے۔ جیسا کہ آج آئی ایم ایف براہ راست یہ شرط لگاتی ہے کہ قرض تو پاکستان کو ملے گا مگر ہر قسط کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ملک کو زرعی انقلاب کی ضرورت ہے کوئی بھی ملک زرعی انقلاب کے بغیر صنعتی انقلاب برپا نہیں کر سکتا خوبصورت موسموں سے ملبوس ہمارا ملک دو فصلوں کا بوجھ لے کر ہماری گود میں ڈالتا ہے مگر ہم ہر سال اربوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کرتے ہیں یا سیلاب کی نذر کر کے اپنے ملک کی وسیع فصل برباد کر دیتے ہیں لوگ الگ دربدر ہوتے ہیں اس پر حکومت کا زر کثیر خرچ ہوتا ہے اس قسم کی نہریں چھوٹے ڈیم ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں ۔
پنجاب چونکہ برسات کے موسم میں خوبصورتی کے بعد سیلاب کی تباہ کاری دیکھتا ہے اس لیے وہاں پر ایسا قدم اٹھانا ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اور نہ ہی اس انقلاب کے لیے کوئی جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے نئے علاقے آباد کرنے کے لیے نوجوانوں کو علاقے کی ترقی کے لیے مواقع دینے کی ضرورت ہے اس طرح بے روزگاری، بھوک و افلاس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ پنجاب کی حکومت چونکہ نت نئے پراجیکٹ متعارف کراتی رہتی ہے اور بظاہر یہ جذبہ بھی موجود ہے لہٰذا اگر یہ قدم اٹھایا جائے گا تو نہ صرف پنجاب اس عمل سے فیض یاب ہو گا بلکہ اس کے اثرات ملک کے ہر حصے پر پڑیں گے اور پنجاب کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو گا دریائے راوی کی آبیاری سے جو پکنک پوائنٹ بنے گا وہ اہالیان لاہور انجوائے کریں گے کیونکہ پنجاب میں موسموں کی آمد و رفت نے وہاں لوگوں میں تفریحات کی جبلت پیدا کر رکھی ہے اس کو تسکین ملے گی راوی کے رخوں پر یہ ہلکا نیلا غازہ اور جدید بوٹ بیسن کی تعمیر لاہور کے حسن میں چار چاند لگا دے گا دیکھیں امید کا موسم کب آئے گا حکومت کے بام و در سے کب اٹھے گی قلم کی سیاہی اور راوی کے رنگ کو بدلے گی۔
راوی کی گزرگاہ آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے جو بیماریوں کا مسکن اور بیکٹیریا کی افزائش گاہ ہے اگر اس علاقے کو آلودگی سے نجات دلانی ہے تو حکومت جہاں اتنے بڑے بڑے پراجیکٹ غیر ممالک کے ساتھ شروع کر سکتی ہے تو یہاں تو کوئی فارن ایکسچینج کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اس آبی گزرگاہ کو پکنک اسپاٹ بنایا جائے تو یہ خود کفیل بھی ہو سکتا ہے اگر ایک گرمی کا موسم گزر جائے اور معمولی بند آگے چل کر بنایا جائے جس سے آس پاس کے علاقے کو سینچائی اور کاشت کاری کے لیے یہ پانی ایک لمبی جھیل بن سکتی ہے اور کشتی رانی کے لیے موزوں ترین ہو سکتا ہے اضافی لوگوں کے روزگار اور شہر کی آلودگی کے خاتمے کے لیے فش فارمنگ کا آپشن بھی رکھا جائے کیونکہ فش فارمنگ اور مینڈک اور خاص طور سے سول مچھلی کی موجودگی میں مچھر کی پیدائش ممکن نہ ہو گی اہلیان لاہور کا روزگار بڑھے گا اور اس علاقے میں جو کہ 25 کلومیٹر ہو گا وہاں کیٹل فارمنگ کے علاقے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
صدیوں سے آباد زمین رہ رہ کے پیاسی ہو یہ ماحولیات کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ ہر ذی حیات کی کڑی دوسرے ذی حیات سے جڑی ہوئی ہے قدیم شہر اور قدیم تہذیبیں دریا کے کنارے آباد ہوتی تھیں سمندر کے کنارے جدید تجارتی تہذیبیں موجود ہیں لہٰذا جب دریا خشک ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف کاروباری اور معاشی اہداف کو مجروح کرتے ہیں بلکہ تہذیبی عناصر کو بھی بری طرح تباہ کرتے ہیں خشک دریاؤں کے راستوں کی کھدائی اور ان میں پانی کی روانی ضروری ہے وہ پانی جو ہمالیہ کے دامن سے نکلتا ہو اور ہزاروں میل کا سفر طے کر کے سمندر میں گرتا ہے گویا پہاڑ کا سمندر سے رابطہ ہے یہ دنیا انسان نے اپنے دست و بازو سے بانٹ رکھی ہے ورنہ ہر شے دوسری شے سے مربوط ہے اور یہی انحصار کی لڑی ہے جو زندگی کا پیغام دیتی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ تحریریں محض سخن وری نہیں بلکہ حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہیں یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کی رقم ایک برسات کے بعد دوسری برسات سے قبل واپس آ جائے گی اور پنجاب گورنمنٹ کو اتنا ریونیو ملے گا کہ دوسرے 20 یا 25 میل کی اضافی کھدائی کا کام شروع ہو جائے گا جو سال بہ سال بڑھتا رہے گا ایک وقت ایسا آئے گا کہ آبیانہ بھی موصول ہونے لگے گا قرب و جوار کی زمینیں آباد ہونے لگیں گی اور اس کام کو جس قدر بڑھایا جائے گا ملحقہ علاقوں میں سبز انقلاب کا آغاز ہو گا بھارت اتنی آبادی والا دنیا میں اناج کی کفالت کی منزل پر فائز ہو گیا ۔
کیونکہ نہرو نے آزادی کے فوراً بعد زمینداری اور وڈیرا شاہی ختم کر کے عام کسانوں کو معیشت کے دھارے میں ڈال دیا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کوشش کی تھی کہ وہ زمینداری کی یہ شکل ختم کریں ابتدا میں ان کے ساتھ وہ انقلابی طبقہ تھا جو عملدرآمد کرا سکتا تھا مگر قومی اسمبلی میں سندھ سے خاص طور پر بڑے جاگیرداروں کا قوم پرست طبقہ ان کا ہمنوا بن گیا لہٰذا وہ زمینداری کے اس بڑے عفریت کو قابو نہ کر سکے اور زرعی اصلاحات کا یہ باب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اس لیے زرعی انقلاب برپا نہ ہو سکا اور آخر کار رجعت پسندوں نے اسلام کا نام لے کر ضیا الحق کی قیادت میں وہ انقلاب برپا کیا جو درحقیقت رد انقلاب تھا بھٹو کے دور میں نہ آئی ایم ایف کی یہ طاقت تھی کہ وہ ہمارے سالانہ بجٹ کے خد و خال بنا سکے اور نہ ٹیکس اور سبسڈی پر براہ راست کوئی قدم اٹھا سکے۔ جیسا کہ آج آئی ایم ایف براہ راست یہ شرط لگاتی ہے کہ قرض تو پاکستان کو ملے گا مگر ہر قسط کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ملک کو زرعی انقلاب کی ضرورت ہے کوئی بھی ملک زرعی انقلاب کے بغیر صنعتی انقلاب برپا نہیں کر سکتا خوبصورت موسموں سے ملبوس ہمارا ملک دو فصلوں کا بوجھ لے کر ہماری گود میں ڈالتا ہے مگر ہم ہر سال اربوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کرتے ہیں یا سیلاب کی نذر کر کے اپنے ملک کی وسیع فصل برباد کر دیتے ہیں لوگ الگ دربدر ہوتے ہیں اس پر حکومت کا زر کثیر خرچ ہوتا ہے اس قسم کی نہریں چھوٹے ڈیم ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں ۔
پنجاب چونکہ برسات کے موسم میں خوبصورتی کے بعد سیلاب کی تباہ کاری دیکھتا ہے اس لیے وہاں پر ایسا قدم اٹھانا ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اور نہ ہی اس انقلاب کے لیے کوئی جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے نئے علاقے آباد کرنے کے لیے نوجوانوں کو علاقے کی ترقی کے لیے مواقع دینے کی ضرورت ہے اس طرح بے روزگاری، بھوک و افلاس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ پنجاب کی حکومت چونکہ نت نئے پراجیکٹ متعارف کراتی رہتی ہے اور بظاہر یہ جذبہ بھی موجود ہے لہٰذا اگر یہ قدم اٹھایا جائے گا تو نہ صرف پنجاب اس عمل سے فیض یاب ہو گا بلکہ اس کے اثرات ملک کے ہر حصے پر پڑیں گے اور پنجاب کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو گا دریائے راوی کی آبیاری سے جو پکنک پوائنٹ بنے گا وہ اہالیان لاہور انجوائے کریں گے کیونکہ پنجاب میں موسموں کی آمد و رفت نے وہاں لوگوں میں تفریحات کی جبلت پیدا کر رکھی ہے اس کو تسکین ملے گی راوی کے رخوں پر یہ ہلکا نیلا غازہ اور جدید بوٹ بیسن کی تعمیر لاہور کے حسن میں چار چاند لگا دے گا دیکھیں امید کا موسم کب آئے گا حکومت کے بام و در سے کب اٹھے گی قلم کی سیاہی اور راوی کے رنگ کو بدلے گی۔