غور فرمائیے

ہم نے جس معاشرے میں جنم لیا تھا وہ جانے کس کے ہتھے چڑھ گیا۔۔۔۔


نجمہ عالم February 07, 2014

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر علاقے، ہر دور، ہر نسل اور ہر انسان کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کا پیغام بنی نوع انسان کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی غرض ہر پہلو پر نہ صرف مکمل بلکہ واضح ہے جس میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں۔ اب اگر کوئی اس دین کے پیغام کو سمجھ نہ سکے تو یہ اس کی عقل و سمجھ کا قصور ہے۔ ایک نعرہ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ''اسلام خطرے میں ہے'' اسلام نہ خطرے میں ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے وہ دین جس کی حفاظت خود اللہ رب العزت کر رہا ہو اس کوکیونکر خطرہ ہوسکتا ہے؟ دراصل یہ خطرہ اسلام کو نہیں بلکہ اسلام کے ٹھیکیداروں کو لاحق ہے جو اپنی محدود فکر اور جاہلانہ انداز فکر کے باعث اسلامی احکامات کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں اور زندگی میں خود ہی مسائل پیدا کرتے ہیں ،پھر ان مسائل کا حل بھی شریعت محمدیؐ اور حیات طیبہ کے مطابق تلاش نہیں کرتے۔

ہمارے دین نے ''جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو جہاد قرار دیا ہے ذرا اس کے معنی اور گہرائی پر غورکیجیے۔ معاشرتی زندگی کے کتنے راز فاش ہوتے ہیں یا اس حدیث مبارکہ ''خاموشی سے ظلم سہنا ظلم کرنے کے برابر ہے'' میں واضح طور پر فرمایا جا رہا ہے کہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا ظلم کو مزید پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔ مظلوم کی خاموشی ظالم کو مزید دلیر اور بے خوف بنادیتی ہے وہ ظالم سے سفاک ہونے تک کا سفر باآسانی طے کر لیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس ظلم وستم کا شکار ہے اس کی ایک وجہ خود ہماری خاموشی اور بے حسی بھی ہے۔
معروف شاعرہ حمیرا راحت کا شعر ہے۔

جھکا دیتی ہوں سر اپنا میں ہر اک ظلم کے آگے
بہو ہوں چولہا پھٹنے کی خبر بننے سے ڈرتی ہوں

یہ شعر گزشتہ دنوں پورے ملک خصوصاً کراچی میں کافی گردش کرتا رہا ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم معاشرتی اورگھریلو مظالم کے خوف سے ہر ظلم کے سامنے سر تسلیم جھکا دینے کے عادی ہیں۔ ہم کسی بھی ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کے اہل نہیں، کسی زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے عادی نہیں۔ اگر ہر ظلم کو خاموشی سے برداشت کر لیا جائے، کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کیا جائے کسی قسم کا بھی احتجاج ریکارڈ نہ کرایا جائے تو ظلم بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جس کو آپ شرافت کہتے ہیں اس کو آج بزدلی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے شہر میں ہر روز پندرہ بیس افراد کا قتل ہوجانا، اغوا ہونا، لاپتہ ہونا کوئی بڑی بات ہی نہیں رہی، ظلم و بربریت جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں ہماری خاموشی باالفاظ دیگر شرافت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جو لوگ قانون کی حفاظت اور نافذ کرنے پر مامور ہیں ان کے اختیارات کی کوئی سمت اور حد مقرر نہیں یا شاید ہو مگر وہ ان حدود سے کتنا آگے بڑھ گئے ہیں اس کا مشاہدہ ہر روز ہو رہا ہے ایسی خبریں اکثر اخبارات اور ٹی وی نیوز کی زینت بن رہی ہیں کہ جیل میں قید مجرموں یا منشیات کے کاروبار سے منسلک افراد کے رابطے باہر اپنے کاروباری ساتھیوں سے باقاعدہ قائم ہیں۔ اب یہ کیسے اور کیوں؟ قائم ہیں آخر جیل حکام اور ذمے داران کیا اس صورت حال سے بے خبر ہیں؟ مگر اطلاعاتی ذرایع بتاتے ہیں کہ سب کو معلوم ہے بلکہ ان ہی کی ایما پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ایک جانب پولیس، رینجرز اور قانون کے دیگر محافظ جرائم پیشہ افراد کی خود پشت پناہی کر رہے ہیں اور دوسری جانب ان کو مزید بااختیار بنایا جارہا ہے کہ وہ جسے چاہیں گھر سے اٹھاکر مجرم بنادیں اور جس مجرم کو یا قاتل کو چاہیں بے گناہ ثابت کردیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ جانے کتنے ملزم پکڑے جاچکے ہیں، قتل و غارت گری ہے کہ قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

ذرایع ابلاغ گواہ ہیں کہ سیکڑوں ملزم عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوگئے اور وہ جو کسی جرم کے مرتکب نہ تھے ان کا کچھ اتا پتہ نہیں۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹیوں کی نگاہیں گھر کی دہلیز پر لگی ہیں کہ کب ان کے بچھڑے واپس گھر آتے ہیں اس صورت حال پر خاموش تماشائی بن کر رہ جانا صورتحال کو مزید بگاڑ رہا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو لاٹھی اور ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس واقعے پر اگر قوم کی ہر ماں، ہر بہن سڑکوں پر نکل آتی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اتنی اذیت ناک سزا دی جائے؟ بقول ذمے داران کہ وہ لڑکے بدکردار تھے، چور تھے، ڈاکو تھے، بدمعاش تھے مگر کیا ان تمام جرائم کی سزا ہمارے ملکی قوانین میں موجود نہیں؟ ہر ملزم کو عدالت میں پیش کیجیے اور قوانین کے تحت جو سزا ان کے جرم کی ہو وہ نہ صرف دی جائے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جائے۔ مگر ضروری ہے کہ ملزم کو عدالت میں مکمل ثبوت کے ساتھ مجرم ثابت کیا جائے۔ جب اتنا دردناک منظر ٹی وی چینلز پر دیکھ کر بھی ہم خاموش رہے تو پھر مزید ماورائے عدالت جانے کتنے افراد قتل اور کتنے لاپتہ ہوئے۔ شاہ زیب کا، حمزہ کا، سرفراز شاہ کا قتل یا کسی اور نوجوان کا یہ سلسلہ نہ صرف اب تک تھما نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔ مرجانے والوں کو پھر صبر کرلیا جائے مگر لاپتہ افراد کے لواحقین تو سدا امید وبیم کی سولی پر رہتے ہیں۔ اس صورتحال کا کوئی پرسان حال نہیں، نہ عدلیہ، نہ حکمراں، نہ سیاستداں۔۔۔اب ایسے میں اگر قلمکار بھی اپنے قلم کا سودا کرلیں تو معاشرہ تباہی سے کیسے بچ سکتا ہے؟ مگر ایسا ہے نہیں صرف ادیب، قلمکار اور شاعر ہی ہیں اپنی تحریروں، کالم اور اشعار میں اس ظلم کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔۔۔۔اگر ہم ظالم کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتے، مظلوم کو پناہ نہیں دے سکتے، اگر ہم مصلحتاً سچ لکھ نہیں سکتے، بلکہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں تو پھر بے سمت سیاست، بے عمل سیاستداں، علما، بے مقصد تعلیم اور غیر ذمے دار صاحبان اقتدار کے خلاف کون آواز بلند کرے گا؟ اس لیے قلمکار ہی اپنا فرض ادا کرتے ہیں کہ کم ازکم اپنے حصے کا دیا تو روشن کیا جاسکے۔ مگر ان پر بھی عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ یوں تو اب تک جانے کتنے اہل فکر، قلمکار، پروفیسر اور ادیب لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حالیہ مثال ایکسپریس نیوز کے تین فرض شناس کارکنان اور مشہور مصنف وڈرامہ نگار اصغر ندیم سید پر قاتلانہ حملے کی ہے۔

ہم نے جس معاشرے میں جنم لیا تھا وہ جانے کس کے ہتھے چڑھ گیا۔ ورنہ ہماری تربیت تو یہ تھی کہ ظلم کی مذمت کرو، مظلوم کا ساتھ دو، طاقتور سے خوفزدہ ہونے کی بجائے کمزوروں کا سہارا بنو۔ اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دو، اپنی خواہشات کو قابو میں رکھ کر دوسروں کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں فراہم کرو۔ مگر یہ تربیت ان ماؤں نے دی تھی جو کسی ماڈرن تعلیمی ادارے کے بجائے اپنے وقت کے سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں اپنی ذمے داریاں نباہ رہی تھیں، اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بھی حق کو حق، باطل کو باطل کہنے کے مجرم ہیں اور یہ کہ:
جھکاتی میں نہیں ہوں سر کسی بھی ظلم کے آگے
میرے مذہب میں سہنا ظلم، ظلم کرنے کے برابر ہے

آج ہم اپنے بچوں کو دوات، طاقت، حق گوئی اور اقتدار سے خوف کے علاوہ کیا دے رہے ہیں؟ غور فرمائیے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔