موسمیاتی خطرات اور شہر کراچی…
آنیوالے سالوں میں موسمیاتی تبدیلیاں شہر کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔
ڈیڑھ ماہ قبل، انتہائی شدت کے سمندری طوفان ''شاہین'' نے عمان میں تباہی پھیلادی۔ تیز ہوائوں، طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے کم از کم 13 افراد جاں بحق ہوئے۔
یہ طوفان (گلاب) تھا، جو پہلے کراچی سے ٹکرانے والا تھا لیکن چند کلومیٹرکے فاصلے سے اُس نے اپنا رُخ کراچی سے عمان کی جانب موڑ لیا تھا۔''گلاب'' کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کے الیکٹرک (کے ای) سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پہلے ہی تیاریاں کرچکے تھے، لیکن متوقع ''موسلادھار بارشوں'' سے ہونیوالے نقصان کے خدشات نے انھیں پریشان کر رکھا تھا، جس سے شہر کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو شدید خطرات لاحق تھے۔
خوش قسمتی سے طوفان نے اپنا رُخ موڑ لیا اور شہر ممکنہ تباہی سے محفوظ رہا،لیکن کیا ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی خوش قسمت ثابت ہوں گے؟ بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع کراچی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار خطوں میں ہوتا ہے اور اسے بدلتے ہوئے موسمیاتی حالات کے تناظر میں دنیا کے 12 ویں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار شہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے،کراچی کا موسم بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے، شدید گرمی اور تیز بارشیں معمول بن گئی ہیں۔ گزشتہ سال غیرمعمولی بارشوں نے پورے شہر میں تباہی مچادی اور بارشوں کا 9 دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف اگست 2020 میں 484 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
موسم کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بنیادی انفرا اسٹرکچر مسائل کے باعث کراچی کو ہرسال موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ہر مون سون میں بند گٹروں اور نکاسی آب کا مناسب نظام نہ ہونے کے باعث تقریباً پورے شہر میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات شہر کی منصوبہ بندی کے بغیر آبادکاری ہے، جس کی وجہ سے جگہ جگہ تجاوزات قائم ہوگئی ہیں۔ یہ تجاوزات حفاظتی اقدامات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے خطرناک حد تک یوٹیلیٹی انفرا اسٹرکچر کے قریب ہوتے ہیں۔
مزید برآں، کراچی کی غیر منصوبہ بند آبادکاری اور کنکریٹائزیشن نہ صرف بارشوں کے دوران گلیوں کو آبی گزرگاہوں میں تبدیل کردیتی ہیں بلکہ موسم گرما میں گرمی کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ بھی ہے، جو ''اربن ہیٹ آئس لینڈ'' اثرات کو جنم دیتی ہیں۔گزشتہ چند دہائیوں میں شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کو بڑھتی ہوئی آبادی کی تناسب سے ترقی نہ دی جاسکی ہے، جس کے باعث دبائو پڑنے سے نت نئے مسائل سامنے آتے ہیں۔
مجموعی طور پر کراچی پر غیرمعمولی موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، جن کی شدت میں آنیوالے برسوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ''تو پھر ہمیںکیا کرنے کی ضرورت ہے؟''ہمیں چاہیے کہ بڑھتے ہوئے آب و ہوا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا کے بہترین شہروں کے ڈیزائن کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر آباد کریں۔ کونگجیان یو ایک چینی معمار ہیں جو ''اسپنج سٹی'' کے تصور پر کام کر رہا ہے، جو شہر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے قدرتی ماحول سے کنکریٹ کو جوڑ کر قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔
درخت لگانے کے ساتھ چھتوں اور دیواروں کو سرسبز بنائیں، جس سے قدرتی طور پر موسمیاتی سختیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پانی کو خطرہ سمجھنے کے بجائے اُسے شہر کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ شمالی چین کا شہر ''ہاربن'' اپنی سڑکوں پر غیرمحفوظ اسفالٹ استعمال کررہا ہے جو پانی کو زمینی آبی ذخائر میں شامل کررہا ہے۔ اس طرح پانی ذخیرہ کرکے اُسے ضایع کرنے کے بجائے کہیں اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ذرا تصور کریں کہ یہ ٹیکنالوجی کراچی کی بڑی شاہراہوں شاہراہ فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ میں استعمال کی جائے تو کتنا پانی ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔شدید گرمی اور لُو کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی کے ذریعے شہر کی بنجر زمینوں کو گھنے جنگلات میں تبدیل کرسکتے ہیں، جو سایہ اور ٹھنڈی ہوا فراہم کرکے گرمی کی شدت کو کم کریں گے اور اس سے شہر کا البیڈو بھی بڑھے گا، جس کا مطلب سورج کی شعاعوں کی شدت میں کمی ہے، جس سے درجہ حرارت بھی کم ہوگا۔
کلفٹن اور لیاری کے علاقوں میں دو شہری جنگلات پہلے ہی تیار ہوچکے ہیں، لیکن ہمارے شہر کو سانس لینے کے لیے ایسے جنگلات کی مزید ضرورت ہے۔ مزید برآں ہمیں ''Cool Pavements'' کے تصور کو اپنانا ہوگا، جس سے مراد سڑک کی سطح ہے،جن میں روایتی تاریک سڑکوں کے برعکس شمسی تابکاری کو منعکس کرنے کے لیے اضافی اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی سڑکیں گرمی کی شدت بڑھانے کا باعث بنتی ہیں، کیوں کہ یہ سورج کی روشنی کو 80 سے 95 فیصد جذب کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہوا گرم ہوجاتی ہے۔
مزید برآں مستقبل میں ہم تعمیرات کے حوالے سے ''بریز چینلنگ عمارتوں'' کے ڈھانچے کو بھی اپنا سکتے ہیں جو ہوا کے گزرنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شہر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کو اَپ گریڈ کرنے کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔ خاص طور پر غیرمعمولی بارش اور شدید گرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
یہ واضح ہے کہ ناقص انفرا اسٹرکچر اور ایڈہاک اربنائزیشن بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ کے ساتھ معیار زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، جس سے شہری پریشان ہیں۔یہ توقع رکھنا ناانصافی ہوگی کہ شہر کو درپیش چیلنجز سے کسی ایک تنظیم یا ادارے کی مدد سے نمٹا جاسکتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے اس کے لیے پالیسی سازوں اور آزاد ماہرین کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ مشاورت کے ساتھ منصوبہ بندی کی جاسکے۔
ہمیں ایک مشترکہ وژن کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اپنے حصے کے طور پر ''کے ای'' نے کراچی میں اپنے انفرا اسٹرکچر کو مزید بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ شدید بارش اور پانی بھر جانے کی صورت میں بجلی کی قابل اعتماد فراہمی جاری ہے۔ اپنے منصوبے ''سربلندی'' کے ایک حصے کے طور پر کے ای کمیونٹیز کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ پارکوں کی تزئین و آرائش اور ان کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔
اس طرح کے اقدامات نہ صرف سماجی اقدار کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں، بلکہ یہ شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں کو دوبارہ سرسبز بنانے کی جانب ایک چھوٹا قدم بھی ہے۔ جس سے شہر کی ماحولیات پر خوشگوار اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
مزید برآں کے الیکٹرک ہر سال شدید گرمی کے موسم میں سیلانی ویلفیئر جیسی سماجی خدمات میں مصروف تنظیموں کی مدد سے شہر کے مکینوں میں امدادی سامان بھی تقسیم کرتی ہے۔20 ملین سے زائد آبادی والے شہر کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کراچی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے نجی اور سرکاری اداروں کا اشتراک وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں آنیوالے سالوں میں موسمیاتی تبدیلیاں شہر کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔
( مضمون نگار ،ڈائریکٹر
کمیونی کیشنز، کے الیکٹرک ہیں)