بنگالی محنت کشوں کی حالت زار
سنا ہے کہ رشوت دے کر سب کام ہو جاتے ہیں کیوں کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے،اسی لیے کہتے ہیں کہ دام بنائے کام۔۔۔
پاکستان میں تقریباً 10 لاکھ بنگالی رہتے ہیں۔ جس میں 7 لاکھ کراچی میں اور باقی ملک بھر میں بستے ہیں۔ 80 فیصد بنگالیوں کی پیدائش پاکستان کی ہے اور ان میں 90 فیصد محنت کش ہیں۔ لکھے پڑھے بنگالی 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے جب کہ بنگلہ زبان لکھنا پڑھنا صرف 3 فیصد بنگالیوں کو آتی ہے۔ کراچی میں بسنے والے بنگالیوں میں70 فیصد مچھلی مارنے کا کام کرتے ہیں، باقی فیکٹریوں، کارخانوں ، ملوں اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ 2/1 تو قومی اسمبلی تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش کے شہری ہونے کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہزار میں 2/3 افراد ہوں۔ پاکستان میں بسنے والے بنگالی نژاد کے پاکستانیوں کا تعلق چٹاگانگ، نواکھالی، فینی اور کوملا سے ہے۔
یعنی کل بنگالیوں میں سے 90 فیصد ان اضلاع کے ہیں۔ یہ علاقے بنگلہ دیش کے مشرقی حصے میں واقع ہیں۔ یہاں سیلاب بہت آتا تھا (اب اس طرح کا نہیں آتا) اس لیے وہاں سے ان کے آبا و اجداد مغربی پاکستان میں آبسے اور بنگلہ دیش آزاد ہونے کے بعد وہ یہیں رہ گئے۔ پاکستان میں یہ بنگالی نژاد مختلف کاشتکاری کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مچھلی کی افزائش، چائے، پان اور پٹ سن کی کاشت میں معاون بنے ہیں۔ پہلے یہاں جوٹ ملوں میں بڑے پیمانے پر کام کرتے تھے اب جوٹ ملیں بند ہونے سے وہ ٹیکسٹائل ملوں اور گھروں میں کھانا پکانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ مزدور بہت کم اجرتوں پہ کام کرتے ہیں۔ جہاں تک محنت کشوں کی ہجرت کی بات ہے تو ''جہاں روزی وہیں روزہ'' کے مصداق عمل ساری دنیا میں ہوتا آرہا ہے۔ ڈھاکہ شہر کے 90 فیصد لوگ ڈھاکہ کے نہیں ہیں۔ کولکتہ میں 60 فیصد شہری غیر بنگالی ہیں۔ ماسکو میں 40 فیصد غیر روسی، پشاور میں تقریباً50 فیصد ہندکو بولنے والے ہیں، بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں اکثریت پختونوں کی ہے۔
اسی طرح پاکستان جب ایک تھا تو سابقہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں روزگار کی خاطر مغربی پاکستان آبسے تھے۔ کئی نسلیں گزرنے کے بعد اب وہ پاکستان کے شہری ہیں۔ مگر پاکستانی نژاد کے بنگالی پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں، بعض موقعے پر تو یہ پاکستانی شاؤنسٹ بھی بن جاتے ہیں۔ ویسے تو برصغیر میں ہندی /اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بنگلہ ہے۔ تقریباً 32 کروڑ کی آبادی بنگلہ زبان میں لکھتی پڑھتی اور بولتی ہے۔ برصغیر کی جنگ آزادی میں سب سے پہلے برطانوی استعماریت کے خلاف لڑنے والے بھی بنگالی تھے۔ ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور بنگالی تھے۔ دنیا کے معروف ریاضی داں جادوچکروردی، معروف کیمیسٹ لاڈلی موہن، معروف فزکسٹ جے کے موکھرجی، معروف موسیقار بھوپنیس حاجریکا اور نیشنل انڈین آرمی کی تشکیل دینے والے سوشلسٹ رہنما سبھاش چندر بوس بھی بنگالی تھے۔ بنگالی یا بنگالی نژاد پاکستانی ہونا کوئی جرم نہیں، جب کہ پاکستان میں بنگالیوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر ہراساں کیا جاتا ہے۔
پولیس والے اکثر بنگالیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان پر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جو یوپی، سی پی، دہلی یا جنوبی بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ہیں تو ان کے وہاں رشتے دار بھی ہوں گے اور آنا جانا بھی لگا رہے گا، بلوچوں کے رشتے دار ایرانی بلوچستان میں پختونوں کے رشتے دار افغانستان میں، سندھ کے لوگوں کے رشتہ دار راجستھان میں بستے ہیں جو اپنے رشتے داروں سے ملاقات کرنے کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے پاکستانی بنگالیوں کا بھی بنگلہ دیش آنا جانا لگا رہتا ہے۔ انھیں بنگلہ دیشی کہہ کر ہراساں کرنا اور ان سے لاکھوں روپے رشوت لینا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ یہ ایک قسم کی بدمعاشی ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر کسی بنگالی کا دادا بنگلہ دیش میں ہے، باپ کا پاکستان میں ہی انتقال ہوچکا ہے اور اس نے کوئی شناختی کارڈ نہیں بنایا تھا تو پھر اس بنگالی پاکستانی کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا بلکہ اسے پاکستانی ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ۔ اسی طرح پاسپورٹ بنانا بھی ایک مصیبت ہے۔
سنا ہے کہ رشوت دے کر سب کام ہو جاتے ہیں کیوں کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے،اسی لیے کہتے ہیں کہ دام بنائے کام۔ پاسپورٹ بننے کے بعد ایئرپورٹ پر اسے بنگلہ دیشی شہری ہونے کا الزام لگا کر روک لیا جاتا ہے۔ اور جب وہی نام نہاد بنگلہ دیشی چند ہزار روپے تھما دیتا ہے تو اسے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی طرح جب وہ کراچی ایئرپورٹ واپس آتا ہے تو اسے بنگلہ دیش واپس بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بعض ادارے پاکستانی حب الوطنی کا سہارا لے کر اسے جب ڈراتے دھمکاتے ہیں تو پھر اس سے پیسے لے کر آنے دیا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ سرکاری اداروں کے اہلکار و افسران اس سلسلے میں لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔
بنگالیوں کو ایک طرح کا دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا ہے۔ اس مصیبت اور لوٹ مار سے بچنے کے لیے بہت سے بنگالی مسجد کے امام اور موذن بن جاتے ہیں پھر داڑھی ٹوپی اوڑھ کر پکے پاکستانی اور مسلمان بھائی ہونے کے دعوے دار بن جاتے ہیں پھر بھی انھیں رشوت دے کر ہی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں ایسی تنگ نظر قوم پرست ماہی گیروں کی یونینز ہیں جو بنگالیوں کو ممبر شپ نہیں دیتیں ۔ انھیں غیر ملکی کہہ کر رد کرتے ہیں۔ جب کہ یورپ اور امریکا میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے محنت کشوں کو مہمان مزدور کہہ کر عزت سے مخاطب ہوا جاتا ہے اور یونین کارکن بھی بنایا جاتا ہے۔ تب ہی تو مزدوروں کا یہ نعرہ مقبول ہوا کہ ''دنیا کے مزدورو ایک ہوجاؤ''۔ اس سلسلے میں کراچی کے لاکھوں بنگالیوں نے مظاہرے ، ہڑتالیں، ریلیاں اور جلسے بھی کیے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ہاں مگر کچھ بنگالی سیاسی رہنما ان محنت کش بنگالیوں کو چارے کے طور پر ضرور (ووٹ لے کر) استعمال کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر محنت کشوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا، وطن ہوتے ہوئے بھی بے وطن، خاندان ہوتے ہوئے بھی بے خاندان، گھر ہوتے ہوئے بھی بے گھر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اسے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دنیا بھر کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی آبادی مستقل نہیں ہوتی۔ کوئی ہزار سال، کوئی سو سال اور کوئی دہائیوں سے ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ صرف کراچی کے 15 لاکھ شہری یورپ، عالم عرب اور امریکا میں ملازمت کرتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی سماج ہی میں ممکن ہے لیکن پاکستان میں رہتے ہوئے فوری طور پر بنگالیوں سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے عوض رشوت کی وصولیابی بند ہونی چاہیے۔ اس پر حکومت سندھ اور کراچی کی انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے رشوت خوری کو روکا جائے۔ یہ طبقاتی استحصال ہے۔ صاحب جائیداد طبقات کے بنگالیوں کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، اگر مسائل ہیں تو محنت کش بنگالیوں کے ہیں۔
ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
ایک کھیت نہیں ایک دیس نہیں' ہم ساری دنیا مانگیں گے
(تصحیح: گزشتہ مضمون میں بھارت میں 490 ارب پتی سہواً چھپ گیا، دراصل 49 افراد ارب پتی ہیں۔)