ہندوستان میں یورپین اقوام

یہ درست کہ برطانوی اور ولندیزی دونوں ہندوستان میں دوستوں کی طرح آئے۔


ایم قادر خان November 14, 2021

تاریخ کے طالب علم فلپ دوم کے خلاف نیدر لینڈ کی بغاوت سے بخوبی واقف ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی علم ہوگا کہ فلپ دوم کی تمام کوششوں کے باوجود یہ ملک آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

اس ملک کی فتح کے موقع پر 1551 میں امیسٹرڈیم کے چند تاجروں نے ایک ڈچ کمپنی قائم کی۔ کارلیسس کے تین سال بعد ہاوٹ مین ہندوستان روانہ ہوا۔ وہاں سے بہت زیادہ سامان تجارت لے کر واپس آیا۔

بحرہند ولندیزیوں کے لیے کھلا ہوا تھا۔ ولندیزیوں کو اس قدرکامیابی ہوئی کہ ان کو دیکھ کر دیگر کمپنیاں قائم ہوئیں۔ 1602 میں تمام ولندیزی کمپنیوں کو ملا کر ڈچ اسٹیٹ کمپنی بنائی۔ اس کمپنی کو حکومت کے مابین ایک عہد نامہ طے پایا، جس کے مطابق کمپنی کو مشرق میں تجارت کی اجارہ داری دے دی گئی۔ اس کے علاوہ اس کو جنگ اور صلح نامہ کرنے مقبوضات کی توسیع کرنے اور قلعہ تعمیرکرنے کا بھی اختیار دے دیا گیا۔

ہندوستان میں ولندیزی (ڈچ) کمپنی کا مقصد اعلیٰ تجارت کرنا تھا، انھوں نے مشرق بعید میں مسالے کے جزائر میں اپنی توجہ مرکوز کردی۔ یہاں انھوں نے اپنی واحد اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی، انھوں نے اپنے تمام جزائرکے سرداروں سے ہالینڈ کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کروایا۔ یورپ کی دوسری اقوام کو ان جزائرکے ساتھ تجارت کرنے کی ضمانت دی اور اس طرح تجارتی اجارہ داری برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

یہ درست کہ برطانوی اور ولندیزی دونوں ہندوستان میں دوستوں کی طرح آئے۔ انگلستان اور ہالینڈ ، پرتگال اور اسپین کے مقابلے میں جوکہ رومن کیتھولک تھے پروٹسٹنٹ کے حامی تھے۔ باوجود مذہبی یک جہتی کے دونوں اقوام کے درمیان اختلافات رونما ہونا شروع ہوگئے۔ ولندیزی یہ مصمم ارادہ کرچکے تھے کہ تجارت میں ہر قیمت میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھیں گے۔ ہوتے ہوتے دونوں ممالک کے درمیان رقابت اس حد تک بڑھی 1623 میں ولندیزی انموٹونا کے قتل عام کے مرتکب ہوئے۔ اس حادثے کے بعد انگریزوں کو مجبوراً مسالے والے جزائر کو چھوڑ کر ہندوستان آنا پڑا۔

کرامویل کے زمانے میں ولندیزیوں کو پانچ ہزار پونڈ ادا کرنا پڑے اور 1641میں ولندیزیوں نے پرتگالیوں سے ملاکا حاصل کیا، بعدازاں 1658 میں وہ لنکا پر قابض ہوگئے۔ ہندوستان میں مدراس کے ساحل پر لینیاکاٹیم اور بنگال میں تھے۔ باوجود اس کے شروع سے لے کر آخر تک ولندیزیوں کو ہندوستان میں کوئی اہمیت حاصل نہ ہوسکی۔

یورپ کے دیگر ممالک میں تاجروں کی مثال سے ڈنمارک کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ چنانچہ اس ملک کے لوگوں نے بھی تجارت میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، اس مقصد کے لیے انھوں نے تنجور 1660 میں اپنی تجارتی کوٹھی قائم کی۔ 1676 میں انھوں نے سسرامتور پر قبضہ کرلیا ، لیکن ان کے قدم ہندوستان میں جم نہ سکے۔ 1845 میں انھوں نے اپنے مقبوضات انگریزوں کو فروخت کردیے۔

یورپ کی دیگر خواہش مند اقوام کو ہندوستان سے تجارت کرکے منافع حاصل کرتا دیکھ کر فرانسیسیوں نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ 18 جنوری 1611 میں لوئی دواروہم فرانس کے بادشاہ نے ایک کمپنی کو تجارت کی اجازت دی۔ تجارت کرنے کی ان کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ بعدازاں 1664 میں کولبرٹ اور لوئی چہارم کی رہنمائی میں ایک نئی کمپنی قائم کی گئی۔ فرانسیسی حکومت نے اس فرانسیسی کمپنی کے اختیارات کی ذمے داری لی۔

فرانسیسی کمپنی نے ہندوستان پر خاص توجہ دی اس کے مدغاسکر کو نصف راستہ کا مرکز بنایا گیا۔ 4 دسمبر 1667 کو فرانسیسی کراؤن نے جو ڈائریکٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔ سورت میں فرانسیسی تجارتی کوٹھی قائم کی۔ 20 دسمبر 1660 میں موسلی پٹم میں ایک اور تجارتی کوٹھی قائم کی۔ گورکندہ کے بادشاہ نے درآمدی اور برآمدی محصول معاف کرکے تجارتی کوٹھی کے قیام میں اجازت دی۔

10 مارچ 1672 کمرون کو واپس فرانس بلالیا اس کی جگہ فرانسیسی مارٹن مقرر کیا گیا۔ ہندوستان میں فرانسیسی کمپنی کا حقیقی بانی مارٹن تھا۔ جس سال وہ مقرر ہوا اس سال اس نے شیرخان لودھی شاہ بیچاپور کی اجازت سے پانڈے چری میں تجارتی کوٹھی قائم کی۔ اس حقیقت کے باوجود فرانسیسی حکومت نے مارٹن کی کوئی مدد نہ کی۔

مارٹن پانڈے چری کو فرانسیسی مقبوضات کا اہم علاقہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ 1693 میں ولندیزیوں نے طاقت ور ہونے کی وجہ سے پانڈے چری پر قبضہ کرلیا ، لیکن 7 فروری 1697 میں رائی سوک کے صلح نامہ کی رو سے یہ علاقہ فرانسیسیوں کو دوبارہ مل گیا۔ مارٹن کو دوبارہ پانڈے چری کا گورنر مقرر کیا گیا۔ 12 نومبر 1706 میں اس کا انتقال ہو گیا۔

چندری نگر فرانسیسیوں کے مقبوضات میں شامل تھا۔ بالاثور اور قاسم بازار بھی ان کا علاقہ تھا۔ مالابار کے سال پر 14 اپریل 1725 میں فرانسیسیوں نے ماہی پر قبضہ کرلیا اور 18 جون 1739 میں کارڈومندل کے ساحل پر کالی کال پر بھی فرانسیسی قابض ہوگئے۔

گورنر مارٹن کے انتقال کے بعد فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاملات درہم برہم ہوگئے، لیکن 1726 کے بعد حالات بہتر ہوتے گئے۔14 اگست 1735 میں ڈوماس پانڈے چری کا گورنر مقرر ہوا۔ 18 ستمبر 1739 میں اس نے کاری کال حاصل کرلیا۔ 15 اکتوبر 1740 میں فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ ہوئی۔اس موقعے پر حالات فرانسیسوں کے ویسے ہی تھے ، جیسا کالم میں بیان کیے گئے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں