داخلی سلامتی کا چیلنج

داخلی سلامتی کے چیلنج سے نمٹنے کااہم اور موثر طریقہ بتدریج یا تسلسل کے ساتھ مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کا عمل ہوتا ہے۔

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی داخلی سلامتی کا چیلنج ایک بڑا سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے۔ کیونکہ جو بھی ریاست ترقی کرتی ہے یا اپنی ساکھ کو داخلی یا خارجی سطح پر قائم کرتی ہے تو اس کا ایک مضبوط پہلو داخلی سلامتی کا چیلنج ہوتا ہے۔

داخلی سلامتی کا تعلق محض قومی سیکیورٹی پالیسی تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر یہ ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک مضبوط، مربوط اور شفاف عمرانی معاہدہ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا ریاستی وحکومتی سمیت ادارہ جاتی نظام جس انداز سے چلایا جارہا ہے اس سے ریاست یا حکومتو ں کا چیلنج کم نہیں بلکہ زیادہ شدت اختیار کررہا ہے۔

عمومی طور پر داخلی سلامتی کے چیلنج سے نمٹنے کااہم اور موثر طریقہ بتدریج یا تسلسل کے ساتھ مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کا عمل ہوتا ہے۔ جمہوری یا سیاسی نظام کی بڑی کامیابی کا دارومدار بھی اصلاحات کے ایجنڈے سے جڑا ہوتا ہے ۔ کیونکہ حالات ، واقعات اور تجربات کی بنیاد پر ہونے والی اصلاحات جن میں پالیسی ، قانون سازی یا عملدرآمد کا نظام ہوتا ہے وہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان کا جو داخلی بحران ہے اس کا علاج کسی بھی صورت میںسیاسی تنہائی میں ممکن نہیںاس کے لیے جو جامع حکمت عملی یا فہم وفراست ، تدبر اور گہری سوچ وفکر درکار ہے اس کا فقدان بھی ہمارے مسائل کو بڑھارہا ہے ۔سب سے اہم مسئلہ حکمرانی یا گورننس کے بحران کا ہے۔ بدقسمتی سے ریاستی و حکومتی یا سیاسی سطح پر ہم حکمرانی کے تناظر میں دنیا کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا انتظامی،قانونی اور پولیس کا ڈھانچہ مفلوج ہوگیا ہے یا یہ واقعی اپنی اہمیت کم کرچکا ہے۔

لیکن جس انداز سے یہ طاقت ور طبقات یا ادارے اصلاحات کے ایجنڈے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے حکومت اور فیصلہ ساز لوگوں کو ایسی اصلاحات سے دور رکھتے ہیں جو ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ویسے بھی کمزور اور چند ووٹوں یا اتحادی جماعتوں کی بنیاد پر کھڑی حکومتیں بڑی تبدیلی یا اصلاحات کے عمل میں وہ نتیجہ نہیں دے سکتیں جو ریاستی ضرورت بنتا ہے۔


نجی ادارے جن میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی ادارے بھی شامل ہیں وہاں ہونے والی لوٹ مار کی جوابدہی کے لیے کوئی تیار نہیں اور لوگوں کو جان بوجھ کر نجی شعبہ کے رحم و کرم پر ڈالنا بھی خود ایک بڑے ظلم کی نشاندہی کرتا ہے ۔نجی شعبہ کو ضرور مراعات دی جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست اور حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ پبلک شعبہ کی دیکھ بھال بھی اس انداز میں کرے کہ لوگ ان سے استفادہ کرسکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ریاست و حکومت ایک طاقت طبقات کی نمایندگی کرنے کے بجائے عام اور کمزور آدمی کے ساتھ کھڑی ہو۔

ایک اچھی اور ذمے دار ریاست یا حکومت بروقت اور ضرورت کے تحت فوری فیصلے کرنے اور ان کی مینجمنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری ریاست اور حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے ۔داخلی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں صرف ووٹ کی عملی سیاست سے باہر نکل کر کچھ بڑا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرنی چاہیے ۔ ہمیں ریاست کے نظام کی شفافیت کے لیے پورا ایک بڑا روڈ میپ درکار ہے جو سب فریقین کی مدد سے تیار ہو، تاکہ اس کی ملکیت یا اونر شپ سب لے سکیں ۔

داخلی محاذ پر ہمیں ایک بڑی سیاسی کمٹمنٹ اور یکسوئی انتہا پسند عناصر چاہے وہ سیاسی ، لسانی ، مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر طاقت اور بندوق کے زور پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں تو ان کے خلاف ریاستی پالیسی میں کوئی تضاد اور الجھن نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ریاست کے اندرکسی بھی قسم کی متبادل ریاست کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ۔کیونکہ یہ مسئلہ محض داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی محاذ پر بھی ہمارے لیے بدنامی کا سبب بنتا ہے۔

ریاست اور حکومتوں کا سمجھوتہ ان معاملات میں ریاست کی داخلی سیاست کے مقدمہ کو کمزور کرتا ہے ۔اسی طرح اس تاثر کی بھی نفی کرنا ہوگی کہ ہم انتہا پسند جماعتوں کی پس پردہ سرپرستی کرکے ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ۔داخلی سیکیورٹی کے تناظر میں ہمیں بڑی توجہ اپنے علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات پر دینی ہوگی۔

ہماری قیادت کا یہ بیانیہ کہ اب ہماری پالیسی میں ٹکراؤ اور تضادات یا کسی کی جنگ میں بلاوجہ حصہ بننے کا عمل یا ہم تنازعات سے زیادہ تعلقات کی بہتری میں آگے بڑھیں گے درست حکمت عملی ہے ۔ ان کے بقول اس وقت اولین ترجیح علاقائی معاشی تعلقات کو بہتر بنانا اور بالخصوص بھارت سے بہتر تعلقات شامل ہیں ۔ہمیں اس تاثر کو دنیا میں اجاگر کرنا ہوگا کہ ہم علاقائی معاملات میں دوستی کے فریق ہیں اور سب سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔
Load Next Story