ناظم جوکھیو
فطرت کے حسن سے اس کی روح مالا مال تھی وہ جانوروں سے پیار کرتا تھا۔
وہ چلا تو جاں سے گذر گیا، اور نہ جانے کتنے جیون بکھیر گیا، انسانوں میں ، پرندوں میں ، جانوروں میں۔ وہ ہوشو نہیں تھا جو 1843 میں میانی کے میدان میں مارا گیا تھا، چارلس نیپیئر حملہ آور کے سامنے یہ نعرہ فضائوں میں بلند کرتے کرتے ''مرویسوں مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں'' وہ سندھ انسانوں کا تھا، مگر ناظم جوکھیو کی حد نگاہ اس سے بھی وسیع تھی، وہ پرندوں کا محافظ تھا۔
فطرت کے حسن سے اس کی روح مالا مال تھی وہ جانوروں سے پیار کرتا تھا ،اسے یہ سب انسانوں کی طرح سندھ کے باسی نظر آئے،وہ دھرتی کو فطرت کے تناظر میں دیکھتا تھا، دہقانوں کے سندھ کوسمجھتا تھا ، وڈیروں کے سندھ کو نہیں۔
عجیب ہیں یہ سندھ کے پرندے، وہ پرندے جوہجرت کرکے آتے ہیں۔ سردیاں یہاں گذارتے ہیں اور گرمیاں سائبریا میں۔ ہزاروں میل اڑتے اڑتے یہاں آتے ہیں اور یہیں کے ہوجاتے ہیں اور پھر مارچ کے آخر میں یہ پھر واپس چلے جاتے ہیں، کئی قسمیں ہیں یہاں پرندوں کی خاص کرکے تلور جن کا عرب شہزادے شکار کرنے یہاں آتے ہیں ، وہ اپنے باز ان کے پیچھے اڑاتے ہیں، جو ان تلوروں کو جھپٹ کے لے آتے ہیں۔
یہ جاڑ ے اب کے سندھ میں مقتل ہیں ،ان تلوروں کے اور ان ہجرت کرنے والے پرندوں کی،گزشتہ دس سالوں میں یہ بحث پھیلتی گئی کہ یہ کیوں یہاں آتے ہیں، کیوں ہمارے پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح یہ شکار بھی مقامی لوگوں کی معاونت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
اور پھر ناظم جوکھیو ان قدموں کے نشان ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان اوطاقوں تک پہنچتا ہے جہاں یہ شکار کرنے والے آتے ہیں۔ یہ وڈیرے ہیں جو ان شکار گاہوں کے پیچھے ہیں۔ خود یہ وڈیرے جو یہ شکار کرتے ہیں، ناظم جوکھیو اس وڈیرا شاہی کو للکارتے ہوئے قتل ہوا۔
پرندے سندھ کے صوفی مزاج کے عکاس ہیں۔ یہ سندھ کی فوک داستانوں ، قصوں اور کہانیوں میں رچے بسے ہیں۔ ہمارے صوفی شعرا نے پرندوں کے مثل بڑے بڑے پیغام دیے ہیں۔ فارسی کے عظیم شاعر فرید الدین عطار کی طرح اس کی طویل نظم ''منطق الطیر ''پرندوں کی آپس میں باتیں، وہ اس طویل نظم میں سب پرندوں کو ایک ساتھ بٹھاتا ہے، ایک طویل داستانیہ شاعری ہے ،پانچ ہزار سطروں پر پھیلی ہوئی بدک، مور، کوا، طوطا، باز، چڑیا، کوئل وغیرہ اور پھر ان کی آپس میں باتیں، ان کی ایک طویل یاترا۔ یہ وہ فرید الدین عطار ہے جو 1220 میں جب منگولوں نے حملہ کیا تھا، ایران و بغداد پے تو نیشا پور شہرمیں ان کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
ناظم جوکھیو کی شہادت سے ہمارے سندھ کی پانچ سو سالہ صوفی تاریخ ابل پڑی، ان جاڑوں میں، ہمارے لاشعور میں جو پرندوں سے صوفیوں پیار کرنا تھا ۔ اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا ناظم جوکھیو نے۔
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
(مرزا غالب)
تھر میں مور ،ان میگھواڑوں، راجپوتوں کے آنگن میں اترتے ہیں۔ یہ ان کے لیے کھانا اور پانی رکھتے ہیں ۔ شام کو جاکے مندرو ں، درختوں پر آرام کرتے ہیں۔ میں نے خود جاکے ننگرپارکر کے قصبوں، گائوں میں دیکھا تھا۔ یہ میگھواڑ اتنے صفائی پسند تھے کہ میری بیوی نے مجھے کہا کہ '' ہم ریسٹ ہائوس میں نہیں بلکہ ان کے چئوروں میں رہیں تو بہتر ہے'' جب سے راجپوت تھر سے ہجرت کرنے لگے ہیں، تو مور اب زیادہ مرنے لگے ہیں۔
ناظم جوکھیو نے اپنی شہادت سے دو جنگیں لڑیں۔ ایک جنگ فطرت اور ماحولیات کی جنگ ہے اور دوسری جنگ سندھ کے اندر وڈیرہ شاہی کے خلاف ہے۔ جس کی بنیاد ڈالنے میں سندھ کے اندر دو بڑے نام ہیں کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمد ، جی ایم سید اور وہ سندھ ہاری کمیٹی دہقانوں کے حقوق کی جنگ ، کامریڈ غلام محمد لغاری، جام ساقی۔ یہ وہ جنگ تھی جس سے جڑے ہوئے تھے ، ڈاکٹر اعتزاز نذیر ، امام علی نازش ، سجاد ظہیر، پروفیسر جمال نقوی اور خود ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ اسی سندھ کی دہقانوں کی عظیم تحریک ہاری کمیٹی سے اپنی پارٹی میں جذب کیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ بھٹو کی سیاست پاور کی سیاست تھی اور پھر سارے کے سارے زمیندار، اور وڈیروں نے اس پارٹی میں جگہ بنائی۔بے نظیر تک بھی یہ توازن تھا کہ پارٹی کارکنوں کی پارٹی تھی مگر زرداری صاحب کے زمانے میں یہ روایت ختم ہوئی ۔ بھلا ہو عمران خان کا جس کی ناقص کارکردگی میں سندھ کے اندر پیپلزپارٹی کی کارکردگی دب گئی، مگر ناظم جوکھیو کی شہادت نے وہ تضاد جس کو زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی نے پیوست کیا ہے، وہ عیاں کردیا۔
ناظم جوکھیو کے لہو سے ابھرتی ہے سندھ کے اندر ایک نئی سوچ ، ایک نیا بیانیہ جو ان سب فرسودہ و مدعی خارجہ بیانیہ کو رد کرتا ہے جو آج تک کرنسی تھے۔ اب بند ہونے چاہیے ایسی تصاویر کا کاروبار جس میں پرندوں کی قتل کیے ہوئے سیکڑوں جسم راستے پرپھیلائے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے، اوپر سے کھلی ہوئی جیپ کھڑی ہوتی ہے جس میں شکاری بندوقیں لے کر جشن مناتے ،اپنے آپ کو دکھاتے ہیں ۔ یہ سرخرو ہونے کی بات نہیں یہ تو شرم آمیز تصویر ہے ، ناظم جوکھیو کی آنکھ سے۔
فطرت کے حسن سے اس کی روح مالا مال تھی وہ جانوروں سے پیار کرتا تھا ،اسے یہ سب انسانوں کی طرح سندھ کے باسی نظر آئے،وہ دھرتی کو فطرت کے تناظر میں دیکھتا تھا، دہقانوں کے سندھ کوسمجھتا تھا ، وڈیروں کے سندھ کو نہیں۔
عجیب ہیں یہ سندھ کے پرندے، وہ پرندے جوہجرت کرکے آتے ہیں۔ سردیاں یہاں گذارتے ہیں اور گرمیاں سائبریا میں۔ ہزاروں میل اڑتے اڑتے یہاں آتے ہیں اور یہیں کے ہوجاتے ہیں اور پھر مارچ کے آخر میں یہ پھر واپس چلے جاتے ہیں، کئی قسمیں ہیں یہاں پرندوں کی خاص کرکے تلور جن کا عرب شہزادے شکار کرنے یہاں آتے ہیں ، وہ اپنے باز ان کے پیچھے اڑاتے ہیں، جو ان تلوروں کو جھپٹ کے لے آتے ہیں۔
یہ جاڑ ے اب کے سندھ میں مقتل ہیں ،ان تلوروں کے اور ان ہجرت کرنے والے پرندوں کی،گزشتہ دس سالوں میں یہ بحث پھیلتی گئی کہ یہ کیوں یہاں آتے ہیں، کیوں ہمارے پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح یہ شکار بھی مقامی لوگوں کی معاونت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
اور پھر ناظم جوکھیو ان قدموں کے نشان ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان اوطاقوں تک پہنچتا ہے جہاں یہ شکار کرنے والے آتے ہیں۔ یہ وڈیرے ہیں جو ان شکار گاہوں کے پیچھے ہیں۔ خود یہ وڈیرے جو یہ شکار کرتے ہیں، ناظم جوکھیو اس وڈیرا شاہی کو للکارتے ہوئے قتل ہوا۔
پرندے سندھ کے صوفی مزاج کے عکاس ہیں۔ یہ سندھ کی فوک داستانوں ، قصوں اور کہانیوں میں رچے بسے ہیں۔ ہمارے صوفی شعرا نے پرندوں کے مثل بڑے بڑے پیغام دیے ہیں۔ فارسی کے عظیم شاعر فرید الدین عطار کی طرح اس کی طویل نظم ''منطق الطیر ''پرندوں کی آپس میں باتیں، وہ اس طویل نظم میں سب پرندوں کو ایک ساتھ بٹھاتا ہے، ایک طویل داستانیہ شاعری ہے ،پانچ ہزار سطروں پر پھیلی ہوئی بدک، مور، کوا، طوطا، باز، چڑیا، کوئل وغیرہ اور پھر ان کی آپس میں باتیں، ان کی ایک طویل یاترا۔ یہ وہ فرید الدین عطار ہے جو 1220 میں جب منگولوں نے حملہ کیا تھا، ایران و بغداد پے تو نیشا پور شہرمیں ان کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
ناظم جوکھیو کی شہادت سے ہمارے سندھ کی پانچ سو سالہ صوفی تاریخ ابل پڑی، ان جاڑوں میں، ہمارے لاشعور میں جو پرندوں سے صوفیوں پیار کرنا تھا ۔ اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا ناظم جوکھیو نے۔
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
(مرزا غالب)
تھر میں مور ،ان میگھواڑوں، راجپوتوں کے آنگن میں اترتے ہیں۔ یہ ان کے لیے کھانا اور پانی رکھتے ہیں ۔ شام کو جاکے مندرو ں، درختوں پر آرام کرتے ہیں۔ میں نے خود جاکے ننگرپارکر کے قصبوں، گائوں میں دیکھا تھا۔ یہ میگھواڑ اتنے صفائی پسند تھے کہ میری بیوی نے مجھے کہا کہ '' ہم ریسٹ ہائوس میں نہیں بلکہ ان کے چئوروں میں رہیں تو بہتر ہے'' جب سے راجپوت تھر سے ہجرت کرنے لگے ہیں، تو مور اب زیادہ مرنے لگے ہیں۔
ناظم جوکھیو نے اپنی شہادت سے دو جنگیں لڑیں۔ ایک جنگ فطرت اور ماحولیات کی جنگ ہے اور دوسری جنگ سندھ کے اندر وڈیرہ شاہی کے خلاف ہے۔ جس کی بنیاد ڈالنے میں سندھ کے اندر دو بڑے نام ہیں کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمد ، جی ایم سید اور وہ سندھ ہاری کمیٹی دہقانوں کے حقوق کی جنگ ، کامریڈ غلام محمد لغاری، جام ساقی۔ یہ وہ جنگ تھی جس سے جڑے ہوئے تھے ، ڈاکٹر اعتزاز نذیر ، امام علی نازش ، سجاد ظہیر، پروفیسر جمال نقوی اور خود ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ اسی سندھ کی دہقانوں کی عظیم تحریک ہاری کمیٹی سے اپنی پارٹی میں جذب کیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ بھٹو کی سیاست پاور کی سیاست تھی اور پھر سارے کے سارے زمیندار، اور وڈیروں نے اس پارٹی میں جگہ بنائی۔بے نظیر تک بھی یہ توازن تھا کہ پارٹی کارکنوں کی پارٹی تھی مگر زرداری صاحب کے زمانے میں یہ روایت ختم ہوئی ۔ بھلا ہو عمران خان کا جس کی ناقص کارکردگی میں سندھ کے اندر پیپلزپارٹی کی کارکردگی دب گئی، مگر ناظم جوکھیو کی شہادت نے وہ تضاد جس کو زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی نے پیوست کیا ہے، وہ عیاں کردیا۔
ناظم جوکھیو کے لہو سے ابھرتی ہے سندھ کے اندر ایک نئی سوچ ، ایک نیا بیانیہ جو ان سب فرسودہ و مدعی خارجہ بیانیہ کو رد کرتا ہے جو آج تک کرنسی تھے۔ اب بند ہونے چاہیے ایسی تصاویر کا کاروبار جس میں پرندوں کی قتل کیے ہوئے سیکڑوں جسم راستے پرپھیلائے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے، اوپر سے کھلی ہوئی جیپ کھڑی ہوتی ہے جس میں شکاری بندوقیں لے کر جشن مناتے ،اپنے آپ کو دکھاتے ہیں ۔ یہ سرخرو ہونے کی بات نہیں یہ تو شرم آمیز تصویر ہے ، ناظم جوکھیو کی آنکھ سے۔