آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں
کہتے ہیں صبح صبح اچھی باتیں سننے سے طبیعت پر خوش گوار اثر پڑتا ہے۔۔۔
BAHAWALPUR:
خاموش رہنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب آپ کچھ کہنا چاہتے ہوں، مگر کہہ نہ سکتے ہوں۔ شاعرکا توکہنا ہے کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے مگر ہمیں ایسے اشاروں کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ ہمارا تو حال کیا ماضی بھی اس حوالے سے بہت خراب ہے کبھی اماں جی کے اشاروں کو ہی نہ سمجھا اور اگر کچھ سمجھا تو ایسا سمجھا کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ اس حوالے سے بڑے تلخ تجربات ہیں ہمارے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے رات کا وقت، بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی ، ہم سب بیٹھے باجماعت ریڈیو سن رہے تھے، ایک دم خالو آگئے، اب خالہ نے ہمیں اشارہ کیا کہ آواز بند کردو، مگر ہم سمجھے کہ آواز تیز کردو۔ سو جناب ہم نے آواز تیز کردی، وائے قسمت کہ گانا آرہا تھا کیوں بیٹھے ہو چپ میرا دولہا لے کر آؤ۔ لو جی خالو نے تو گانے کو ہمارے دل کی آواز سمجھا کہ جو درپردہ ہمارا فرمائشی پروگرام لگتا تھا اور پھر نہ پوچھیے کہ ہم سب کا کیا حال ہوا۔
یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے کئی مسائل اور واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ سمجھ سمجھ کے جو نہ سمجھے وہ بڑا ناسمجھ ہے اور ہماری ناسمجھی تو اظہر من الشمس ہے کہ ہم انفرادی طور پر تو ناسمجھ ہیں ہی اجتماعی یا قومی سطح پر بھی بڑے ناسمجھ ہیں کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اور حرکات و سکنات کچھ ہیں الیکشن سے پہلے دعوے تھے کہ ملک کی لٹی ہوئی دولت کو واپس لے کر آئیں گے۔ ملک لوٹنے والوں کو چوک پر الٹا لٹکادیں گے اور عوام نے پھر ناسمجھی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کو جانتے بوجھتے ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ مگر اب بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں کہ دولت صاحبہ کب تشریف لائیں گی مگر وہ تو نخرے دکھا رہی ہیں اور کیوں واپس آئے ایک بار جانے کے بعد کون واپس آتا ہے؟ ''او جانے والے رے' ٹھہرو ذرا رک جاؤ، لوٹ آؤ''مگر سب داد فریاد بے کار ہے، یہاں سن کون رہا ہے سب نے اپنے کان بند کر لیے ہیں بے کار کی بکواس سننے سے بہتر ہے کہ کچھ سنا ہی نہ جائے۔ ہاں اگر اپنی تعریف ہو رہی ہو تو سننے میں کوئی حرج بھی نہیں، کہتے ہیں صبح صبح اچھی باتیں سننے سے طبیعت پر خوش گوار اثر پڑتا ہے اور اس مقصد کے لیے اگر دو چار تعریف کرنے والے ارد گرد موجود ہوں یا موبائل پر available ہوں اور سب اچھا کی خبر سنائیں تو پھر کون فاطمہ جیسی بے وقوف ہے جو حالات کا تجربہ کرے گی ۔ آخر سب اچھا کی رپورٹ دینے والے معزز لوگ ہیں ان کی کہی ہوئی بات پر یقین کرنے میں ہی بہتری ہے ہمیں بھی اپنی تعریف سننے کی بڑی خواہش ہے مگر ہم نہ کوئی وزیر ہیں نہ قوم کے دردمند لیڈر اور نہ ہی کوئی حکومتی عہدیدار۔ اس لیے بے کار کی تعریف کرکے اپنا وقت کون ضایع کرے ۔ کہتے ہیں وقت بڑا قیمتی ہے یہ لوٹ کر نہیں آتا مگر جناب یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ دنیا گول ہے اگر وقت لوٹ کر نہیں آتا تو یہ باریاں نہ لگتیں پہلے آپ اور پھر ہم والا معاملہ تو یہ کہتا ہے کہ وقت کی رفتار ہمارے ہاتھوں میں ہے مگر بھول جاتے ہیں کہ ایک قدرت کی لاٹھی بھی ہے جب پڑتی ہے تو سب پتے بکھر جاتے ہیں۔
اب ہوتا وہی ہے جو نوشہ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے نوشہ تقدیر سے یاد آیا کہ ہماری تقدیر میں ہی لکھا ہے کہ کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نعروں پر سر دھنیں اور آخر میں پتہ چلے کہ نہ قرض اترا نہ ملک سنورا۔ بقول شاعر نہ رات گزری نہ دن آیا مگر جناب! اپنی تقدیر تو سنور گئی، اب نوجوانوں کو پھر ایک نئی قرضہ اسکیم سے متعارف کروایا جا رہا ہے اللہ خیر کرے۔ 100 ارب روپے کا معاملہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے معیشت تباہ ہو رہی ہے جب کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس اسکیم میں تکنیکی غلطیاں ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے سودی قرضے اللہ سے کھلی جنگ ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی تقدیر سنور جائے گی۔ اب کون ان کو بتائے قرضوں سے تقدیر کہاں سنورتی ہے۔ اگر قرضوں سے تقدیر سنور رہی ہوتی تو ہمارے ملک کی سنور جاتی کہ آئی ایم ایف کے تو ہم جانے کب سے مقروض ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرضے لیتے ہیں انفرادی اور اجتماعی تقدیر کو سنوارنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ غربت، بے روزگاری ختم کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم بڑے ناسمجھ ہیں۔ ہمیں تو حکومتی پالیسیوں کی کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سیاسی و معاشی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ہر طرف لاقانونیت، دہشت گردی ، بھوک کا راج ہے مگر ہمارے حکمران چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوریت کے علمبردار ان میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ وہ ملک و قوم کی خودداری، خودمختاری، عزت و وقار کو بلند کرنے کے منصوبے بنائیں ۔ ہر حکمران نے امریکا کی آشیرباد سے حکمرانی کے مزے لوٹے اور اپنی قوم کو ذلت و رسوائی کے اندوہناک غار میں دھکیل دیا ہے، عوام بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم قومی مفادات کے لیے کیوں نہیں ہڑتالیں کرتے، اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرواتے،نجکاری کے مسئلہ پر تو ہم پر بے حسی سی طاری ہے، ہم نے کیا زندگی گزاری ہے ، ہم مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشیاں تو کر رہے ہیں مگر اس حوالے سے اجتماعی سوچ نظر نہیں آتی۔
دوسری طرف جوں ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے ہمارا میڈیا ہمارے سیاستدان ہمارے تجزیہ نگار سب مل کر لوگوں کو کنفیوز کرنے کا کام سرانجام دینے لگتے ہیں ایک بات پر بھی تو سب لوگ متفق نہیں ہوتے ۔ سب نے قوم کو تقسیم کردیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مفادات پر سودے بازی کرنے کی بجائے اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست اور صحیح سمت میں فیصلے کیے جائیں تاکہ پاکستان کا نام بھی اقوام عالم میں سربلند ہو۔ کاش کہ ہمارے حکمرانوں کو عقل آئے اور وہ بھی اپنے مفادات کی جگہ قومی مفادات کا سوچنے لگیں۔ لیجیے ہم پھر وہی ناسمجھی کی باتیں کرنے لگے۔ وہ پاکستانی حکمران ہی کیا جو قومی مفادات کو مقدم سمجھ لیں۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ قوم بد امنی میں مر رہی ہے اور ہم یہ بھی طے نہیں کر پا رہے تھے کہ امن کی فاختہ کو کہاں سے لائیں؟
خدا خدا کرکے بات مذاکرات تک تو پہنچی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ مگر ہوا یہ کہ پشاور کے ایک سینما گھر میں بم دھماکا ہوگیا، دھابے جی کے قریب بم دھماکے سے مسافر ٹرین الٹ گئی، یہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش تو نہیں ۔ مذاکراتی ٹیمیں بھی ماشاء اللہ آمنے سامنے آرہی ہیں ۔ میری ناسمجھی اپنی جگہ مگر اس حقیقت کو اب ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ وطن عزیز کو چیلنجز کا سامنا ہے، کشتی ہماری طوفان آشنا تو ہے لیکن سمجھنے کی بات اب یہ ہے کہ کون اپنے اور بیگانوں کے اٹھائے گئے ہلاکت خیز طوفانوں کا رخ موڑے گا ؟ اللہ کرے میرے وطن کو بھی امن کی چھاؤں نصیب ہو (آمین!)
خاموش رہنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب آپ کچھ کہنا چاہتے ہوں، مگر کہہ نہ سکتے ہوں۔ شاعرکا توکہنا ہے کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے مگر ہمیں ایسے اشاروں کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ ہمارا تو حال کیا ماضی بھی اس حوالے سے بہت خراب ہے کبھی اماں جی کے اشاروں کو ہی نہ سمجھا اور اگر کچھ سمجھا تو ایسا سمجھا کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ اس حوالے سے بڑے تلخ تجربات ہیں ہمارے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے رات کا وقت، بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی ، ہم سب بیٹھے باجماعت ریڈیو سن رہے تھے، ایک دم خالو آگئے، اب خالہ نے ہمیں اشارہ کیا کہ آواز بند کردو، مگر ہم سمجھے کہ آواز تیز کردو۔ سو جناب ہم نے آواز تیز کردی، وائے قسمت کہ گانا آرہا تھا کیوں بیٹھے ہو چپ میرا دولہا لے کر آؤ۔ لو جی خالو نے تو گانے کو ہمارے دل کی آواز سمجھا کہ جو درپردہ ہمارا فرمائشی پروگرام لگتا تھا اور پھر نہ پوچھیے کہ ہم سب کا کیا حال ہوا۔
یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے کئی مسائل اور واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ سمجھ سمجھ کے جو نہ سمجھے وہ بڑا ناسمجھ ہے اور ہماری ناسمجھی تو اظہر من الشمس ہے کہ ہم انفرادی طور پر تو ناسمجھ ہیں ہی اجتماعی یا قومی سطح پر بھی بڑے ناسمجھ ہیں کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اور حرکات و سکنات کچھ ہیں الیکشن سے پہلے دعوے تھے کہ ملک کی لٹی ہوئی دولت کو واپس لے کر آئیں گے۔ ملک لوٹنے والوں کو چوک پر الٹا لٹکادیں گے اور عوام نے پھر ناسمجھی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کو جانتے بوجھتے ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ مگر اب بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں کہ دولت صاحبہ کب تشریف لائیں گی مگر وہ تو نخرے دکھا رہی ہیں اور کیوں واپس آئے ایک بار جانے کے بعد کون واپس آتا ہے؟ ''او جانے والے رے' ٹھہرو ذرا رک جاؤ، لوٹ آؤ''مگر سب داد فریاد بے کار ہے، یہاں سن کون رہا ہے سب نے اپنے کان بند کر لیے ہیں بے کار کی بکواس سننے سے بہتر ہے کہ کچھ سنا ہی نہ جائے۔ ہاں اگر اپنی تعریف ہو رہی ہو تو سننے میں کوئی حرج بھی نہیں، کہتے ہیں صبح صبح اچھی باتیں سننے سے طبیعت پر خوش گوار اثر پڑتا ہے اور اس مقصد کے لیے اگر دو چار تعریف کرنے والے ارد گرد موجود ہوں یا موبائل پر available ہوں اور سب اچھا کی خبر سنائیں تو پھر کون فاطمہ جیسی بے وقوف ہے جو حالات کا تجربہ کرے گی ۔ آخر سب اچھا کی رپورٹ دینے والے معزز لوگ ہیں ان کی کہی ہوئی بات پر یقین کرنے میں ہی بہتری ہے ہمیں بھی اپنی تعریف سننے کی بڑی خواہش ہے مگر ہم نہ کوئی وزیر ہیں نہ قوم کے دردمند لیڈر اور نہ ہی کوئی حکومتی عہدیدار۔ اس لیے بے کار کی تعریف کرکے اپنا وقت کون ضایع کرے ۔ کہتے ہیں وقت بڑا قیمتی ہے یہ لوٹ کر نہیں آتا مگر جناب یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ دنیا گول ہے اگر وقت لوٹ کر نہیں آتا تو یہ باریاں نہ لگتیں پہلے آپ اور پھر ہم والا معاملہ تو یہ کہتا ہے کہ وقت کی رفتار ہمارے ہاتھوں میں ہے مگر بھول جاتے ہیں کہ ایک قدرت کی لاٹھی بھی ہے جب پڑتی ہے تو سب پتے بکھر جاتے ہیں۔
اب ہوتا وہی ہے جو نوشہ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے نوشہ تقدیر سے یاد آیا کہ ہماری تقدیر میں ہی لکھا ہے کہ کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نعروں پر سر دھنیں اور آخر میں پتہ چلے کہ نہ قرض اترا نہ ملک سنورا۔ بقول شاعر نہ رات گزری نہ دن آیا مگر جناب! اپنی تقدیر تو سنور گئی، اب نوجوانوں کو پھر ایک نئی قرضہ اسکیم سے متعارف کروایا جا رہا ہے اللہ خیر کرے۔ 100 ارب روپے کا معاملہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے معیشت تباہ ہو رہی ہے جب کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس اسکیم میں تکنیکی غلطیاں ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے سودی قرضے اللہ سے کھلی جنگ ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی تقدیر سنور جائے گی۔ اب کون ان کو بتائے قرضوں سے تقدیر کہاں سنورتی ہے۔ اگر قرضوں سے تقدیر سنور رہی ہوتی تو ہمارے ملک کی سنور جاتی کہ آئی ایم ایف کے تو ہم جانے کب سے مقروض ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرضے لیتے ہیں انفرادی اور اجتماعی تقدیر کو سنوارنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ غربت، بے روزگاری ختم کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم بڑے ناسمجھ ہیں۔ ہمیں تو حکومتی پالیسیوں کی کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سیاسی و معاشی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ہر طرف لاقانونیت، دہشت گردی ، بھوک کا راج ہے مگر ہمارے حکمران چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوریت کے علمبردار ان میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ وہ ملک و قوم کی خودداری، خودمختاری، عزت و وقار کو بلند کرنے کے منصوبے بنائیں ۔ ہر حکمران نے امریکا کی آشیرباد سے حکمرانی کے مزے لوٹے اور اپنی قوم کو ذلت و رسوائی کے اندوہناک غار میں دھکیل دیا ہے، عوام بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم قومی مفادات کے لیے کیوں نہیں ہڑتالیں کرتے، اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرواتے،نجکاری کے مسئلہ پر تو ہم پر بے حسی سی طاری ہے، ہم نے کیا زندگی گزاری ہے ، ہم مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشیاں تو کر رہے ہیں مگر اس حوالے سے اجتماعی سوچ نظر نہیں آتی۔
دوسری طرف جوں ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے ہمارا میڈیا ہمارے سیاستدان ہمارے تجزیہ نگار سب مل کر لوگوں کو کنفیوز کرنے کا کام سرانجام دینے لگتے ہیں ایک بات پر بھی تو سب لوگ متفق نہیں ہوتے ۔ سب نے قوم کو تقسیم کردیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مفادات پر سودے بازی کرنے کی بجائے اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست اور صحیح سمت میں فیصلے کیے جائیں تاکہ پاکستان کا نام بھی اقوام عالم میں سربلند ہو۔ کاش کہ ہمارے حکمرانوں کو عقل آئے اور وہ بھی اپنے مفادات کی جگہ قومی مفادات کا سوچنے لگیں۔ لیجیے ہم پھر وہی ناسمجھی کی باتیں کرنے لگے۔ وہ پاکستانی حکمران ہی کیا جو قومی مفادات کو مقدم سمجھ لیں۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ قوم بد امنی میں مر رہی ہے اور ہم یہ بھی طے نہیں کر پا رہے تھے کہ امن کی فاختہ کو کہاں سے لائیں؟
خدا خدا کرکے بات مذاکرات تک تو پہنچی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ مگر ہوا یہ کہ پشاور کے ایک سینما گھر میں بم دھماکا ہوگیا، دھابے جی کے قریب بم دھماکے سے مسافر ٹرین الٹ گئی، یہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش تو نہیں ۔ مذاکراتی ٹیمیں بھی ماشاء اللہ آمنے سامنے آرہی ہیں ۔ میری ناسمجھی اپنی جگہ مگر اس حقیقت کو اب ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ وطن عزیز کو چیلنجز کا سامنا ہے، کشتی ہماری طوفان آشنا تو ہے لیکن سمجھنے کی بات اب یہ ہے کہ کون اپنے اور بیگانوں کے اٹھائے گئے ہلاکت خیز طوفانوں کا رخ موڑے گا ؟ اللہ کرے میرے وطن کو بھی امن کی چھاؤں نصیب ہو (آمین!)