دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
اُس نے چار مسلسل مواقع ملنے کے بعدبھی اپنی خراب فارم کو درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
KARACHI:
گزشتہ ہفتے سندھ رینجرز کے اقبال ڈے والے پروگرام میں کچھ اور پرانے دوستوں کے ساتھ اعجاز فاروقی بھائی سے بھی ملاقات رہی جن کے علم وادب اور پرفارمنگ آرٹس سے دلچسپی اور سرپرستی کے بہت سے حوالے ہیں کہ وہ تین برس کراچی آرٹ کونسل کے صدر رہنے کے بعد اب آٹھ برس سے اُس کے سیکریٹری چلے آرہے ہیں اور اس ادارے کو متحرک اور شاندار بنانے میں شائد احمد شاہ کے بعد انھی کا نام لیا جاسکتاہے مگر میرے اُن سے تعلقِ خاطر کی بنیادی وجہ اُن کی صوبائی اور قومی کرکٹ کے تنظیمی معاملات اور کھیل کے فروغ سے اُن کی غیر مشروط دلچسپی ہے جس کے باعث وہ سندھ کی طرف سے تین برس پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے بھی ممبر رہ چکے ہیں۔
یہ مختصر سا تعارف اس لیے ضروری تھا کہ تقریب کے اختتام پر انھوں نے اصرار کرکے ہمیں جم خانہ کلب تک ڈراپ کرنے کی ذمے داری اپنے سر لی کہ اس بہانے پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کارکردگی پر گفتگو بھی ہوسکے گی کہ وہ میری اس کھیل سے غیر معمولی دلچسپی سے آگاہ ہیں۔
ایک زمانہ میں کرکٹ کو شُرفا کا کھیل سمجھا جاتا تھا اور Skill سے زیادہ چانس کو اہمیت دی جاتی تھی اور یہ زیادہ تر برطانیہ اور اس کی نو آبادیوں میں کھیلا جاتا تھا، کھیل اور کھلاڑی دونوں بہت مقبول تھے لیکن ستر کی دہائی میں کیری پیکر کی انٹری سے پہلے تک یہ مشغلہ زیادہ اور پیشہ کم کم تھا کہ روزگار کے حوالے سے نہ تو یہ مستقل تھا اور نہ ہی مقبول کہ اس میں آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں کے ڈومیسٹک تو ایک طرف ٹیسٹ کرکٹ میں بھی پانچ روزہ میچ کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے یومیہ ملتے تھے اور عام طور پر ایک برس میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچوں کی تعداد چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کئی کھلاڑی خود سائیکل چلا کر گھر سے ٹیسٹ میچ کے وینیو تک آیا جایا کرتے تھے اور عام طور پر اُن کا گزارا عوامی محبت اور ایک محدود سطح کے گلیمر سے ہی چلتا تھا ۔
کیری پیکر کے آنے سے کھلاڑیوں کے مالی حالات تو بعض صورتوں میں ناقابل یقین حد تک بہترہوتے چلے گئے مگر اب یہ کھیل مشغلے کی جگہ سائنس اور Skillاور آرٹ کے بجائے کرافٹ کی شکل اختیار کرتا گیا اب ظاہر ہے ان حالات میں اس کا Gentleman's Sport والاتعارف تو متاثر ہونا ہی تھا ۔
پاکستان سے پہلے اگرچہ انگلینڈ ، آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ ، نیوزی لینڈ ، ویسٹ انڈیز اور بھارت ٹیسٹ کرکٹ کے لیے مطلوبہ معیار حاصل کرنے کے بعد اس کلب کے ممبر بن چکے تھے مگر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان نے وسائل کی کمی، ڈومیسٹک کرکٹ کے اسٹرکچر کی عدم موجودگی اور کھلاڑیوں کی تربیت کے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اپنے سے بہت بڑی، منظّم، تجربہ کار اور تربیت یافتہ ان تمام ٹیموں سے اپنے پہلے ٹکرائو کے دوران انھیں کم از کم ایک میچ میں شکست ضرور دی۔
1950سے 1970کے درمیان حاصل شدہ ان کامیابیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی لیکن بوجوہ انھیں اپنے فطری جوہر کے اظہار کے بہت کم مواقع مل سکے، میرے نزدیک فضل محمود اور حنیف محمد اس دور کے وہ کھلاڑی ہیں جن کے بغیر اس کھیل سے متعلق کوئی Hall of Fameمکمل نہیں ہوسکتا۔
ستّرسے نویّ کے درمیان ہمارے باصلاحیت کھلاڑیوں کی انگلش کائونٹی کرکٹ میں بہت پذیرائی ہوئی جس سے اُن کی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی بہتری ہوئی اور یوں اس دور میں ظہیر عباس، جاوید میانداد، عمران خان، ماجد خان، آصف اقبال، مدثر نذر ، مشتاق محمد، سلیم ملک، صادق محمد، آصف مسعود، عبدالقادر، سرفراز نواز ، انتخاب عالم ، وسیم راجہ جیسے کھلاڑی سامنے آئے جن میں سے بیشتر کا شمار آل ٹائم گریٹس کی فہرست میں ہوتا ہے اس طرح تیسرے دور میں جس میں نوّے سے دو ہزار اکیس تک کا زمانہ شامل ہے پاکستان کے جن کرکٹرز نے عالمی شہرت پائی ان میں وسیم اکرم، وقار یونس، شاہدآفریدی، انضمام الحق، ثقلین مشتاق، شعیب اختر ، محمد یوسف، یونس خان، مشاق احمد، مصباح الحق، یاسر شاہ، عبدالرزاق ، سعید انور، اظہر محمود، محمد آصف، بابرا عظم اور شاہین شاہ آفریدی زیادہ نمایاں ہیں۔
عالمی مقابلوں کی سطح پر اگرچہ ہم 1992 کے ورلڈ کپ کے علاوہ 2009 میں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ بھی حاصل کرچکے ہیں مگر سیمی فائنلز تک پہنچنے والی آخری چار ٹیموں میں اکثر ہمارا نام موجود ہوتا ہے اس سارے پس منظر میں کرکٹ بورڈ کی متنازعہ تعیناتیوں، سپورٹنگ اسٹاف کے انتخاب، کوچز کے مسائل اور اسکولوں کالجوں اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر وسائل کی کمی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اصولاً اسے بھی ہاکی کی طرح ایک نشانِ عبرت ہونا چاہیے تھا اب یہ عوام کی اس کھیل سے والہانہ وابستگی ہے یا معاشی بہتری کھلاڑیوں کی خداداد صلاحیت ہے یا ڈسپلن کا فروغ لیکن امرِواقعہ یہی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے مشکلات کے باوجود ہاکی کی طرح ہتھیار نہیں پھینکے اور ہار ہار کر اُٹھنے کا حوصلہ افزا مظاہر ہ بھی کیا ہے۔
آیئے اب اس پس منظر میں 11نومبر کی شام دوبئی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی سیمی فائنل کا جائزہ لیتے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ اس سطح کے مقابلوں میں سیمی فائنل تک پہنچنے والی ٹیموں میں انیس بیس سے زیادہ کا فرق نہیں ہوتا وسائل، تیاری اور کھلاڑیوں کی تربیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کا نمبر انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت اور سائوتھ افریقہ کے بعد آتا تھا لیکن جس طرح سے اس ٹیم نے اپنے گروپ کے پانچوں میچ با آسانی جیت کر سیمی فائنل میں قدم رکھا تھا اس کی بنیاد پر اس کو ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ ترین قرار دیا جارہا تھا اور یہ تاثر میچ کی پہلی اننگز اور آسٹریلیا کی جوابی نصف اننگز تک بالکل واضح اور مستحکم تھا۔
یہ بات درست ہے کہ 120بال فی اننگر کے اس کھیل میں ایک یا دو اوورز بلکہ بعض اوقات دو تین گیندوں کے اندر ہی میچ کا رُخ بدل سکتا ہے سو وارنر، اسٹیو ئنس اور میتھیوویڈ کا لاٹھی چارج اپنی جگہ، دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم نے کیا کیا یا کیا نہیں کیا۔ اسکور بورڈ پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عماد وسیم کے اوور (17) شاہین آفریدی ایک اوور (22)،حفیظ کے ایک اوور (13) اورحسن علی کے چار اوورز (44)میں بننے والے 96 رنز ہی اس جیتے ہوئے میچ کو ہار میں بدلنے کا باعث بنے۔
وارنر کی موجودگی میں عماد کو دوسرا اوور کرانا کوئی اچھا فیصلہ نہیں تھا حفیظ کے ہاتھ سے پہلے بال کا سلپ ہوجانا ایک حادثہ اور شاہین شاہ آفریدی کا اپنے آخری اوور میں غلط فیلڈ پلیسنگ کے ساتھ غلط لینتھ پر بالنگ کرنا بائولر اور کپتان دونوں کی ناتجربہ کاری کا آئنہ دار تھا مگر میرے نزدیک خرابی کی جڑ حسن علی کے چار اوور تھے۔
حسن بہت اچھا اور بہادر بائولر ہے مگر اُس نے چار مسلسل مواقع ملنے کے بعدبھی اپنی خراب فارم کو درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ممکن ہے وہ کسی ذہنی دبائو میں ہو لیکن بطور ایک قومی کھلاڑی کے اس کا فرض سب سے پہلے اپنے رَن اپ کو تھوڑا کم کرکے نو بال کے امکان سے بچنا ہے، میرے نزدیک اگر درمیانی حصہ میں اس کے دو اوورز عماد وسیم اور حفیظ میں تقسیم کردیے جاتے تو صورت بہتر ہوسکتی تھی کہ 176کا ٹارگٹ دوبئی جیسی وکٹ پر ایک بہت معقول اور بڑا ٹارگٹ تھا۔
رمیز راجہ کا بطور چیئر مین انتخاب بہت مستحسن ہے کہ وہ چالیس برس سے اس کھیل کی اعلیٰ ترین سطح سے وابسطہ ہیں، میتھیو ہیڈن اورورنون فلینڈر بھی تجربہ کار لوگ ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سابقہ ہیروز پر مشتمل ایک تھنک ٹینک ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہوکر بنائے اور اُن کے مشوروں کو ساتھ لے کر چلے اور ان لوگوں کو بطور مشیر تو ضرور اعزازیہ دیا جائے مگر باقاعدہ ملازم نہ رکھا جائے کہ اس طرح خیر سے زیادہ شر کو فروغ ملتا ہے خود بھی حوصلہ رکھیئے اور کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ دیجیے۔
گزشتہ ہفتے سندھ رینجرز کے اقبال ڈے والے پروگرام میں کچھ اور پرانے دوستوں کے ساتھ اعجاز فاروقی بھائی سے بھی ملاقات رہی جن کے علم وادب اور پرفارمنگ آرٹس سے دلچسپی اور سرپرستی کے بہت سے حوالے ہیں کہ وہ تین برس کراچی آرٹ کونسل کے صدر رہنے کے بعد اب آٹھ برس سے اُس کے سیکریٹری چلے آرہے ہیں اور اس ادارے کو متحرک اور شاندار بنانے میں شائد احمد شاہ کے بعد انھی کا نام لیا جاسکتاہے مگر میرے اُن سے تعلقِ خاطر کی بنیادی وجہ اُن کی صوبائی اور قومی کرکٹ کے تنظیمی معاملات اور کھیل کے فروغ سے اُن کی غیر مشروط دلچسپی ہے جس کے باعث وہ سندھ کی طرف سے تین برس پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے بھی ممبر رہ چکے ہیں۔
یہ مختصر سا تعارف اس لیے ضروری تھا کہ تقریب کے اختتام پر انھوں نے اصرار کرکے ہمیں جم خانہ کلب تک ڈراپ کرنے کی ذمے داری اپنے سر لی کہ اس بہانے پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کارکردگی پر گفتگو بھی ہوسکے گی کہ وہ میری اس کھیل سے غیر معمولی دلچسپی سے آگاہ ہیں۔
ایک زمانہ میں کرکٹ کو شُرفا کا کھیل سمجھا جاتا تھا اور Skill سے زیادہ چانس کو اہمیت دی جاتی تھی اور یہ زیادہ تر برطانیہ اور اس کی نو آبادیوں میں کھیلا جاتا تھا، کھیل اور کھلاڑی دونوں بہت مقبول تھے لیکن ستر کی دہائی میں کیری پیکر کی انٹری سے پہلے تک یہ مشغلہ زیادہ اور پیشہ کم کم تھا کہ روزگار کے حوالے سے نہ تو یہ مستقل تھا اور نہ ہی مقبول کہ اس میں آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں کے ڈومیسٹک تو ایک طرف ٹیسٹ کرکٹ میں بھی پانچ روزہ میچ کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے یومیہ ملتے تھے اور عام طور پر ایک برس میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچوں کی تعداد چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کئی کھلاڑی خود سائیکل چلا کر گھر سے ٹیسٹ میچ کے وینیو تک آیا جایا کرتے تھے اور عام طور پر اُن کا گزارا عوامی محبت اور ایک محدود سطح کے گلیمر سے ہی چلتا تھا ۔
کیری پیکر کے آنے سے کھلاڑیوں کے مالی حالات تو بعض صورتوں میں ناقابل یقین حد تک بہترہوتے چلے گئے مگر اب یہ کھیل مشغلے کی جگہ سائنس اور Skillاور آرٹ کے بجائے کرافٹ کی شکل اختیار کرتا گیا اب ظاہر ہے ان حالات میں اس کا Gentleman's Sport والاتعارف تو متاثر ہونا ہی تھا ۔
پاکستان سے پہلے اگرچہ انگلینڈ ، آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ ، نیوزی لینڈ ، ویسٹ انڈیز اور بھارت ٹیسٹ کرکٹ کے لیے مطلوبہ معیار حاصل کرنے کے بعد اس کلب کے ممبر بن چکے تھے مگر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان نے وسائل کی کمی، ڈومیسٹک کرکٹ کے اسٹرکچر کی عدم موجودگی اور کھلاڑیوں کی تربیت کے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اپنے سے بہت بڑی، منظّم، تجربہ کار اور تربیت یافتہ ان تمام ٹیموں سے اپنے پہلے ٹکرائو کے دوران انھیں کم از کم ایک میچ میں شکست ضرور دی۔
1950سے 1970کے درمیان حاصل شدہ ان کامیابیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی لیکن بوجوہ انھیں اپنے فطری جوہر کے اظہار کے بہت کم مواقع مل سکے، میرے نزدیک فضل محمود اور حنیف محمد اس دور کے وہ کھلاڑی ہیں جن کے بغیر اس کھیل سے متعلق کوئی Hall of Fameمکمل نہیں ہوسکتا۔
ستّرسے نویّ کے درمیان ہمارے باصلاحیت کھلاڑیوں کی انگلش کائونٹی کرکٹ میں بہت پذیرائی ہوئی جس سے اُن کی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی بہتری ہوئی اور یوں اس دور میں ظہیر عباس، جاوید میانداد، عمران خان، ماجد خان، آصف اقبال، مدثر نذر ، مشتاق محمد، سلیم ملک، صادق محمد، آصف مسعود، عبدالقادر، سرفراز نواز ، انتخاب عالم ، وسیم راجہ جیسے کھلاڑی سامنے آئے جن میں سے بیشتر کا شمار آل ٹائم گریٹس کی فہرست میں ہوتا ہے اس طرح تیسرے دور میں جس میں نوّے سے دو ہزار اکیس تک کا زمانہ شامل ہے پاکستان کے جن کرکٹرز نے عالمی شہرت پائی ان میں وسیم اکرم، وقار یونس، شاہدآفریدی، انضمام الحق، ثقلین مشتاق، شعیب اختر ، محمد یوسف، یونس خان، مشاق احمد، مصباح الحق، یاسر شاہ، عبدالرزاق ، سعید انور، اظہر محمود، محمد آصف، بابرا عظم اور شاہین شاہ آفریدی زیادہ نمایاں ہیں۔
عالمی مقابلوں کی سطح پر اگرچہ ہم 1992 کے ورلڈ کپ کے علاوہ 2009 میں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ بھی حاصل کرچکے ہیں مگر سیمی فائنلز تک پہنچنے والی آخری چار ٹیموں میں اکثر ہمارا نام موجود ہوتا ہے اس سارے پس منظر میں کرکٹ بورڈ کی متنازعہ تعیناتیوں، سپورٹنگ اسٹاف کے انتخاب، کوچز کے مسائل اور اسکولوں کالجوں اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر وسائل کی کمی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اصولاً اسے بھی ہاکی کی طرح ایک نشانِ عبرت ہونا چاہیے تھا اب یہ عوام کی اس کھیل سے والہانہ وابستگی ہے یا معاشی بہتری کھلاڑیوں کی خداداد صلاحیت ہے یا ڈسپلن کا فروغ لیکن امرِواقعہ یہی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے مشکلات کے باوجود ہاکی کی طرح ہتھیار نہیں پھینکے اور ہار ہار کر اُٹھنے کا حوصلہ افزا مظاہر ہ بھی کیا ہے۔
آیئے اب اس پس منظر میں 11نومبر کی شام دوبئی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی سیمی فائنل کا جائزہ لیتے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ اس سطح کے مقابلوں میں سیمی فائنل تک پہنچنے والی ٹیموں میں انیس بیس سے زیادہ کا فرق نہیں ہوتا وسائل، تیاری اور کھلاڑیوں کی تربیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کا نمبر انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت اور سائوتھ افریقہ کے بعد آتا تھا لیکن جس طرح سے اس ٹیم نے اپنے گروپ کے پانچوں میچ با آسانی جیت کر سیمی فائنل میں قدم رکھا تھا اس کی بنیاد پر اس کو ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ ترین قرار دیا جارہا تھا اور یہ تاثر میچ کی پہلی اننگز اور آسٹریلیا کی جوابی نصف اننگز تک بالکل واضح اور مستحکم تھا۔
یہ بات درست ہے کہ 120بال فی اننگر کے اس کھیل میں ایک یا دو اوورز بلکہ بعض اوقات دو تین گیندوں کے اندر ہی میچ کا رُخ بدل سکتا ہے سو وارنر، اسٹیو ئنس اور میتھیوویڈ کا لاٹھی چارج اپنی جگہ، دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم نے کیا کیا یا کیا نہیں کیا۔ اسکور بورڈ پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عماد وسیم کے اوور (17) شاہین آفریدی ایک اوور (22)،حفیظ کے ایک اوور (13) اورحسن علی کے چار اوورز (44)میں بننے والے 96 رنز ہی اس جیتے ہوئے میچ کو ہار میں بدلنے کا باعث بنے۔
وارنر کی موجودگی میں عماد کو دوسرا اوور کرانا کوئی اچھا فیصلہ نہیں تھا حفیظ کے ہاتھ سے پہلے بال کا سلپ ہوجانا ایک حادثہ اور شاہین شاہ آفریدی کا اپنے آخری اوور میں غلط فیلڈ پلیسنگ کے ساتھ غلط لینتھ پر بالنگ کرنا بائولر اور کپتان دونوں کی ناتجربہ کاری کا آئنہ دار تھا مگر میرے نزدیک خرابی کی جڑ حسن علی کے چار اوور تھے۔
حسن بہت اچھا اور بہادر بائولر ہے مگر اُس نے چار مسلسل مواقع ملنے کے بعدبھی اپنی خراب فارم کو درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ممکن ہے وہ کسی ذہنی دبائو میں ہو لیکن بطور ایک قومی کھلاڑی کے اس کا فرض سب سے پہلے اپنے رَن اپ کو تھوڑا کم کرکے نو بال کے امکان سے بچنا ہے، میرے نزدیک اگر درمیانی حصہ میں اس کے دو اوورز عماد وسیم اور حفیظ میں تقسیم کردیے جاتے تو صورت بہتر ہوسکتی تھی کہ 176کا ٹارگٹ دوبئی جیسی وکٹ پر ایک بہت معقول اور بڑا ٹارگٹ تھا۔
رمیز راجہ کا بطور چیئر مین انتخاب بہت مستحسن ہے کہ وہ چالیس برس سے اس کھیل کی اعلیٰ ترین سطح سے وابسطہ ہیں، میتھیو ہیڈن اورورنون فلینڈر بھی تجربہ کار لوگ ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سابقہ ہیروز پر مشتمل ایک تھنک ٹینک ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہوکر بنائے اور اُن کے مشوروں کو ساتھ لے کر چلے اور ان لوگوں کو بطور مشیر تو ضرور اعزازیہ دیا جائے مگر باقاعدہ ملازم نہ رکھا جائے کہ اس طرح خیر سے زیادہ شر کو فروغ ملتا ہے خود بھی حوصلہ رکھیئے اور کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ دیجیے۔