پھردبئی چلو
اگرملک کے کسی فٹ پاتھ کی ایک چھوٹی اینٹ بھی اکھڑ جائے، تو اس کی جگہ بغیر کسی دیر کے دوسری اینٹ لگادی جائے
ISLAMABAD:
ویسے تو آج کل ہر کوئی دبئی تو کیا شمال و جنوب ہر طرف جا سکتا ہے اور جا بھی رہا ہے، تو اب کہ ہم نے بھی اپنی مہار دبئی کی طرف موڑ لی۔ پہلے سوچا کہ پنجیری بھی ساتھ لے لوں، لیکن بعد میں خیال آیا کہ میرا سفر ہوائی جہازکا ہے، سمندری نہیں، کہ علی اعجاز کی طرح پنجیری کا ڈبہ بھی لے لوں۔ دبئی دنیا کے ان چند شہروں میں شامل ہے، جن میں ہر دوسرے تیسرے مہینے کوئی نہ کوئی نیا پن ہوتا ہے۔ ویسے قرونِ اولیٰ میں ہمارا کراچی بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ کراچی سے باہر رہنے والے لوگ جب دوسرے تیسرے مہینے آتے تھے تو کوئی نہ کوئی نئی چیز دیکھتے تھے (یہ بات اور ہے کہ آج کل روزانہ کراچی لوگوں کو ہراساں کرنے، لْوٹنے، اس بے ثبات دنیا سے نجات دلانے کے نت نئے نئے طریقے ایجاد ہو رہے ہیں)۔ دبئی میں آج کل ایکسپو 20 کا بہت شہرہ، بلکہ چرچا بھی ہے ۔ ساتھ ساتھ ہم پاکستانیوں سے ایک تھوڑی سی رنجش بھی ہے، کیونکہ ہم نے اس سلسلے میں ترکی کی حمایت کی تھی، لیکن ہماری طرف سے وضاحت کے بعد امید کی جاتی ہے کہ وہ شکوہ ختم ہو چکا ہوگا۔
اب کہ دبئی میں میرے ہوتے ہوئے نیا سال بھی آگیا، اور انھوں نے سوچا کہ کیوں نا میری موجودگی کا فائدہ ہی اٹھایا جائے اور کوئی نئی بات کی جائے، توانھوں نے اس نئے سال کو اتنا بڑا یادگار بنانے کا پروگرام بھی بنالیا، جو کہ پہلے کبھی بھی نا ہوا ہو۔ تو انھوں نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانے کے لیے بہت بڑا چراغاں کروانے کا سوچا، جو ریکارڈ اس سے پہلے کویت کے پاس تھا۔ وہ تو خیر سمجھیے کہ وہ اس چراغاں کی وجہ میرا یہاں براجمان ہونا بھی بتاتے بتاتے رہ گئے، کہ میں نے انھیں منع کردیا، کہ میرا نام نہ آنے پائے، ورنہ میرے پاکستان آنے پر خوامخواہ عوام کو ایئر پورٹ پر آنا پڑے گا اور ویلنٹائن ڈے پر جو پھولوں کی قیمتیںبڑھ جاتی ہیں، میرے آنے پر کہیں آسمان سے باتیں کرنا نہ شروع کر دیں۔
دبئی کے حکمران جناب شیخ محمدالراشدالمکتوم کا حکم ہے کہ اگرملک کے کسی فٹ پاتھ کی ایک چھوٹی اینٹ بھی اکھڑ جائے، تو اس کی جگہ بغیر کسی دیر کے دوسری اینٹ لگادی جائے، تاکہ میرا ملک بدصورت نہ لگے۔ اسے کہتے ہیں ملک کے لیے اپنائیت کا جذبہ، جو کہ شاید کبھی ہم میں بھی تھا، لیکن آج مفقود ہے اور ہم میں یہ جذبہ پتہ نہیں دوبارہ آئے کہ نا آئے۔ کم از کم مجھے تو ایسی کوئی امید نہیں ہے، کیونکہ ہم نے اپنے ملک کی صورت ایسی بگاڑ دی ہے، کہ اب سدھرنے کا کوئی بھی چانس نہیں ہے۔ اور نہیں تو صرف ٹریفک کے نظام کو ہی لے لیں۔ میرے ایک دوست کو اپنی کار کی سالانہ رجسٹریشن کی تجدید کروانی تھی۔ ہمارے ملک میں تو آپ بینک جائیں، وہاں محکمہ ٹیکس کا ایک آدمی بیٹھا ہوتا ہے، جو آپ کو ایک چالان دے گا، جو آپ بینک میں جمع کرائیں اور آپ کی گاڑی کی رجسٹریشن کی تجدید ہوگئی، اللہ اللہ خیر سلا۔ آپ کی گاڑی کی حالت کیا ہے، اس سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن وہاں ایسا نہیں ہوتا۔آپ کو گاڑی رجسٹریشن سینٹر لے جانی ہے، جہاں کی ورکشاپ میں گاڑی کی مکمل جانچ پڑتال ہوگی۔آپ گاڑی کی چابی سینٹر کے آدمی کے حوالے کریں گے اور آپ کو سینٹر کے ہال میں جاکر بیٹھنے کو کہا جائے گا۔
دریں اثنا گاڑی کی جمپر، بریک، ٹائر، انجن، نیچے اوپر، اندر باہر، ہر چیز چیک کی جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ بھی چیک کیا جائے گا کہ ٹائر تین سالوں سے زیادہ پرانے نا ہوں، جس چیز کو آپ چھپا نہیں سکتے، کیونکہ ہر ٹائر پر اس کی تاریخ پیدائش لکھی ہوتی ہے۔ مطلب کہ ہر چیز چیک کی گئی۔ اور یہ سب کچھ قطار میں ہوتا تھا۔ اتنے میں، میں نے دیکھاکہ ایک آدمی، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ جو وہاں کے حکمران کا کوئی عزیز تھا، وہ بھی اپنی گاڑی قطار میں کھڑی کرکے، اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ نہیں کہ اس کو کوئی ترجیح دے کر اس کی گاڑی کو پہلے چیک کیا جائے۔ اندرکاؤنٹر پر بھی وہ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک صاحب جو وہاں کے ایوان تجارت کے ڈائریکٹر تھے، وہ بھی اپنے باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بلکہ ایک صاحب جو کہ محکمہ ٹریفک کے ملازم تھے اور وردی میں بھی تھے، لیکن وہ بھی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ تو پرائیویٹ گاڑیوں کے لے تھا، کمرشل گاڑیوں کی چیکنگ اور بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ گاڑیاں فٹ ہوں اور حادثات کم سے کم ہوں۔ یہ نہیں کہ وہاں حادثات نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں، لیکن صرف اور صرف تیز رفتاری کی وجہ سے، ناں کہ گاڑیوں کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے۔ اور اگر آپ نے لال بتی پر سگنل توڑا تو ایک دم اس کی ریکارڈنگ ہوجائے گی اور آپ جرمانے سے بچ نہیں سکتے۔ اور وہ ریکارڈنگ محکمہ رجسٹریشن کو اسی دم بھیجی جاتی ہے اور گاڑی کی رجسٹریشن کی تجدید تب تک نہیں ہو سکتی، جب تک آپ جرمانہ ادا نہ کریں۔ یہ پوری کہانی میں نے اس لیے لکھی ہے کہ ہماری زندگیاں ٹریفک سے جڑی ہوئی ہیں، چاہے آپ پیدل ہوں یا رکشا سے لے کر بڑی سے بڑی پرائیویٹ یا کمرشل گاڑی میں سفر کر رہے ہوں۔
جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں، دبئی تقریبا ہر ایک نے دیکھا ہے ۔ لیکن وہاں جب بھی جاؤ تو کوئی نہ کوئی نئی چیز ملتی ہے ۔اب کہ جو نئی چیز مجھے کھانے کو ملی وہ تھے بٹیر۔ عام طور پر پاکستان میں بٹیر اتنے فربہ نہیں ملتے ہیں،کہ ان کا کھانا گناہِ بے لذت ہوتا ہے، جب کہ عرب امارات میں بڑے اور فربہ بٹیر ملتے ہیں، کہ ان کا کھانا گناہ بے لذت نہیں ہوتا۔
ایک اور نئی چیز جو دیکھی وہ تھی بین الاقوامی نمائش، جس کو گلوبل ولیج کا نام دیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر کے 25 سے زائد ممالک کے پویلین لگے ہوئے ہیں۔ کچھ ممالک نے تو اپنی مصنوعات کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب کو بھی خوب اجاگر کیا ہے، خصوصی طور پر مصر کے پیویلین کے ساتھ کشتی میں دریائے نیل کی سیر بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ گلوبل ولیج ہر سال اکتوبر سے مارچ تک برپا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں 1964 میں کراچی میں ایک بین الاقوامی نمائش منعقد کی گئی تھی، ٹھیک اسی جگہ پر جہاں آج ایکسپو سینٹر ہے۔ وہ نمائش کھلے آسمان کے نیچے تھی اور بدرجہا بہتر تھی، ان نمائشوں سے، جو ایکسپو سینٹر میں منعقد کی جا رہی ہیں۔