میرا صاحب صاحبِ فراش ہے
ہم اُن کے اعتراضات کا جواب نہیں دیتے۔ صلح جُو ہونے کے باعث چند پر تو اتفاق کر جاتے ہیں۔۔۔
کیسا بھاری غم ہے۔ گریہ کروں، سر پر خاک ڈالوں، یا گریباں چاک کیے گلیوں میں نکل جاؤں۔ جب سے خبر آئی ہے کہ صاحب، صاحبِ ِفراش ہیں، اور مطب کا بے ذایقہ پرہیزی کھانا زہر مار کرتے ہیں، کسی طور چین نہیں پڑتا۔ عجب بے کلی ہے۔ اپنے ہونے کا احساس جاتا جا رہا ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صاحب برسراقتدار تھے۔ مالک و مختار تھے۔ اعتماد ہمالیہ سا بلند۔ ہر حکم پتھر پر لکیر ہوا کرتا۔ جب تک مسند پر رہے، کسی کی مجال تھی کہ اُن کے آگے دَم مارتا۔ ان کے دبدبے سے دشمنوں کے کاندھے ڈھلکے رہتے تھے۔ باغیوں کی آواز بلند ہونے سے قبل سینوں میں دفن ہو جاتی۔ماہ اکتوبر میں جب اُن کی منظر میں آمد ہوئی، ہم نے محلے میں بیسن کے لڈو بانٹے۔ خوش تھے کہ اب کسی ''تیز رَو'' کے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ راہبر کو ہم نے پہچان لیا۔ راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ اور پورے ایک عشرے یہی لکھا کیا۔
وہ بڑے ہی منصف مزاج تھے۔ منصفوں کی مزاج پُرسی کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ اپنے بعد آنے والوں کی طرح عہد شکن نہیں تھے کہ بحالی کا وعدہ کریں، اور مُکر جائیں۔ یوں تو سیاسی ساز باز کے لیے اُنھیں کئی ''حکم کے بندے'' میسر تھے، لیکن ہمہ وقت ایک ساز پاس رکھتے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، سب اُن کے اطاعت گزار۔ تنہائی میں بھی نام اُن کا احترام سے لیا کرتے۔ اُن کی بہ آواز بلند مدح سرائی کرتے۔مگر آسماں رنگ بدل لیتا ہے، وقت ایک سا نہیں رہتا۔ وہ کرسی سے کیا الگ ہوئے، سب نے منہ پھیر لیا۔ جو کل تک دم بھرتے تھے، اُنھوں نے پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ سب اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔
مایوس ہو کر وہ باہر چلے گئے، مگر وہاں بھی ہمارے غم میں گھلتے رہے۔ ہم بھی یہاں لپ چھپ کر آنسو بہاتے۔ برقیاتی مراسلوں کے وسیلے انھیں اپنے دکھوں سے آگاہ کرتے رہتے۔ کبھی لکھتے، ٹماٹر کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں تیرے بعد۔ کبھی بتاتے، پیٹرول نایاب ہو گیا ہے آپ کے جاتے ہی۔ ایک روز بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کی بھی شکایت کر ڈالی۔ داڑھ کے درد کا بھی تذکرہ کیا۔
ہم ہر مراسلے میں صاحب کو ''صاحبِ مسند'' کہہ کر مخاطب کرتے کہ اب ان کے ساتھ ''سابق'' کا سابقہ لگاتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا۔ دل پر چھریاں چلتیں۔
شاید ہمارے مراسلوں سے اُن کا دل پسیج گیا۔ ویسے '' فیس بک'' پر چاہنے والے اور بھی بہت تھے، جو دن رات، ہر جمعرات ایک ہی گیت گنگناتے: ''تو خدا کا نور ہے، عقل ہے شعور ہے، قوم تیرے ساتھ ہے، تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے!''
تو صاحب ہمارے واسطے لوٹ آئے۔ اپنی جان کی پروا نہیں کی۔ اور رجائیت پسند ایسے ہیں کہ جب ایئرپورٹ پر حامیوں کی تعداد قلیل پائی، تو کہا: ''سی این جی بند ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ سکیں ہوں گے۔''
سوچیے ذرا، بدلے میں ہم نے اُن کے ساتھ کیا کیا۔ انھیں اینیمل فارم میں قید کر دیا۔ طرح طرح کے مقدمات بنائے۔ کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ خیر، کٹہرے والے معاملے پر ہمیں اعتراض نہیں۔ وہ سیاست داں ہی کیا، جو مقدمات کا ذایقہ نہ چکھے۔ اور ''صاحبِ مسند'' کسی سے ڈرتے بھی نہیں، مگر جب سے وہ صاحبِ فراش ہوئے ہیں، دل سراسیمہ ہے۔ اچھے لوگوں کے قلیل العمر ہونے کی روایت بار بار دھیان میں آتی ہے۔ جوں ہی اُن کی بیماری کی خبر پھیلی، ناقدین کی چاندی ہو گئی۔ کسی نے پھبتیاں کسیں، تو کوئی لطیفے گڑھ رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے تبصرے بھی استہزائیہ تھے۔ ڈیل کارنیگی کے سچے بھگت ہونے کے باعث ہم نے ہر تجزیہ کار کی حمایت کی۔ خواہ مخواہ بحث میں پڑنے کی بھلا کیا ضرورت۔
ہمارے عزیز دوست چھوٹے بھیم، نیم حکیم، جو قہقہہ سازی کی پوری صنعت ہیں، وہ بھی ''صاحبِ مسند'' کی علالت کو ایک طربیہ یونانی ڈرامہ قرار دینے پر مُصر ہیں۔ مرض کو مرض مان کر نہیں دیتے۔ ہم پر ہنستے ہیں۔ سوالات عجیب عجیب اٹھاتے ہیں۔ ایک روز کہنے لگے؛ اتنے بَڑھیا بَڑھیا مطب یہاں، طبیب بھی ایک سے ایک، فارن فارن کی رٹ کیوں؟
ہم اُن کے اعتراضات کا جواب نہیں دیتے۔ صلح جُو ہونے کے باعث چند پر تو اتفاق کر جاتے ہیں۔ وہ تو پیدایشی ناقد ہیں۔ امتحانات میں جب چڑیا گھر پر مضمون لکھنے کا سوال آتا، تو شستہ زبان میں ''صاحبِ مسند'' کے خلاف مضمون لکھ مارتے۔ فیل ہوتے، تو اُن ہی پر الزام دھرتے۔ موصوف ''صاحبِ مسند'' کی تصویر سامنے رکھ کر ہندوستانی فلم کا گیت ''گھر آ جا پرندے، گھر آ جا'' گنگناتے بھی دیکھے گئے ہیں۔اپنے پیارے دوست چھوٹے بھیم کو، خدا اُنھیں صحت دے، ناہنجاروں کی فہرست میں ڈالتے ہوئے نظرانداز کر دینا بہتر۔ جو شے درد دے، اُس پر توجہ نہ دینا ہی صوفیوں کا مسلک ٹھہرا۔ ہمیں شکوہ تو ''صاحبِ مسند'' کے سولسٹروں سے ہے۔ وہ تو کٹہرے میں آنا چاہتے ہیں، مگر یہ روک دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کا لہجہ پاٹ دار ہے۔ سنجیدہ دکھائی دینے کی سنجیدہ سی کوشش کرتے ہیں۔ سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والوں کے مطابق وہ ماضی جیسا ایک اور کارنامہ پھر انجام دینے کے متمنی ہیں۔
ہمیں یاد ہے، گزشتہ برس، موسم خزاں میں انھیں بغرض عیادت فارن جانے کی اجازت بمع گریہ طلب کی گئی۔
رونا تو ہمیں بھی آیا۔ ابھی کچھ روز پہلے وہ ایک میڈیا والے سے الجھ پڑے کہ تمھارا بھی کچھ کرنا پڑے گا۔
ویسے ''صحافی اور وکیل'' نامی قصّے میں سخت کلامی کا جو پُر مزاح واقعہ ملتا ہے، اُس کا قصور فقط سولسٹر کے سر منڈھنا ٹھیک نہیں۔ میڈیا والے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ ٹیڑھے میٹرھے سوال کرتے ہیں۔ اچھا خاصا آدمی حواس باختہ ہوجائے۔ ''صاحبِ مسند'' کے حمایتی سوشل میڈیا پر بڑے متحرک ہیں، مگر اِس محاذ پر پختگی کی ہمیں کمی نظر آتی ہے۔ بیشتر جذبات کی تھاپ پر رقصاں، ''پروف ریڈنگ'' میں کچے۔ ابھی کل ہی کسی نے ''صاحبِ مسند'' کی ہنستی مسکراتی تصویر، مع حمایتی مواد شیئر کی۔ ''پروف'' صحیح پڑھا نہیں، سب سے پہلے میری جان'' چلا گیا۔ بہت سے چاہنے والوں نے پوسٹ کو لائیک کیا، بہتوں نے شیئر بھی کر دیا۔ ہم نے یہ سوچ کر کہ جس طرح کئی الفاظ غلط العام ہوجاتے ہیں، یہ نعرہ بھی عام ہو جائے گا، تصویر کھٹ سے شیئر کر ڈالی۔ ساتھ فیضؔ کا مصرع:
''خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو''
ٹانک دیا۔ ہماری پوسٹ کو بھی بہت سوں نے لائیک کیا۔ ایک نوجوان نے تبصرے کے خانے میں لکھ مارا: ''اپنی تو دعا ہے یہ، ''صاحبِ مسند'' رہے سدا '' سدا اُنھوں نے ''ص''سے لکھا۔خیر، اب اِس تحریر کو سمیٹتے ہیں کہ گریے کا وقت ہو چلا ہے۔ اب ہم اُن کے غم میں جی بھر کر روئیں گے۔ پھر پیٹ بھر کر کھائیں گے، تھوڑا گنگنائیں گے، اور سو جائیں گے۔ اگر نیند نہیں آئی، تو کوئی افسانہ وغیرہ لکھ لیں گے۔ اُن کے جانے کے بعد اب زندگی ایسی ہی گزر رہی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صاحب برسراقتدار تھے۔ مالک و مختار تھے۔ اعتماد ہمالیہ سا بلند۔ ہر حکم پتھر پر لکیر ہوا کرتا۔ جب تک مسند پر رہے، کسی کی مجال تھی کہ اُن کے آگے دَم مارتا۔ ان کے دبدبے سے دشمنوں کے کاندھے ڈھلکے رہتے تھے۔ باغیوں کی آواز بلند ہونے سے قبل سینوں میں دفن ہو جاتی۔ماہ اکتوبر میں جب اُن کی منظر میں آمد ہوئی، ہم نے محلے میں بیسن کے لڈو بانٹے۔ خوش تھے کہ اب کسی ''تیز رَو'' کے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ راہبر کو ہم نے پہچان لیا۔ راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ اور پورے ایک عشرے یہی لکھا کیا۔
وہ بڑے ہی منصف مزاج تھے۔ منصفوں کی مزاج پُرسی کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ اپنے بعد آنے والوں کی طرح عہد شکن نہیں تھے کہ بحالی کا وعدہ کریں، اور مُکر جائیں۔ یوں تو سیاسی ساز باز کے لیے اُنھیں کئی ''حکم کے بندے'' میسر تھے، لیکن ہمہ وقت ایک ساز پاس رکھتے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، سب اُن کے اطاعت گزار۔ تنہائی میں بھی نام اُن کا احترام سے لیا کرتے۔ اُن کی بہ آواز بلند مدح سرائی کرتے۔مگر آسماں رنگ بدل لیتا ہے، وقت ایک سا نہیں رہتا۔ وہ کرسی سے کیا الگ ہوئے، سب نے منہ پھیر لیا۔ جو کل تک دم بھرتے تھے، اُنھوں نے پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ سب اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔
مایوس ہو کر وہ باہر چلے گئے، مگر وہاں بھی ہمارے غم میں گھلتے رہے۔ ہم بھی یہاں لپ چھپ کر آنسو بہاتے۔ برقیاتی مراسلوں کے وسیلے انھیں اپنے دکھوں سے آگاہ کرتے رہتے۔ کبھی لکھتے، ٹماٹر کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں تیرے بعد۔ کبھی بتاتے، پیٹرول نایاب ہو گیا ہے آپ کے جاتے ہی۔ ایک روز بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کی بھی شکایت کر ڈالی۔ داڑھ کے درد کا بھی تذکرہ کیا۔
ہم ہر مراسلے میں صاحب کو ''صاحبِ مسند'' کہہ کر مخاطب کرتے کہ اب ان کے ساتھ ''سابق'' کا سابقہ لگاتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا۔ دل پر چھریاں چلتیں۔
شاید ہمارے مراسلوں سے اُن کا دل پسیج گیا۔ ویسے '' فیس بک'' پر چاہنے والے اور بھی بہت تھے، جو دن رات، ہر جمعرات ایک ہی گیت گنگناتے: ''تو خدا کا نور ہے، عقل ہے شعور ہے، قوم تیرے ساتھ ہے، تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے!''
تو صاحب ہمارے واسطے لوٹ آئے۔ اپنی جان کی پروا نہیں کی۔ اور رجائیت پسند ایسے ہیں کہ جب ایئرپورٹ پر حامیوں کی تعداد قلیل پائی، تو کہا: ''سی این جی بند ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ سکیں ہوں گے۔''
سوچیے ذرا، بدلے میں ہم نے اُن کے ساتھ کیا کیا۔ انھیں اینیمل فارم میں قید کر دیا۔ طرح طرح کے مقدمات بنائے۔ کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ خیر، کٹہرے والے معاملے پر ہمیں اعتراض نہیں۔ وہ سیاست داں ہی کیا، جو مقدمات کا ذایقہ نہ چکھے۔ اور ''صاحبِ مسند'' کسی سے ڈرتے بھی نہیں، مگر جب سے وہ صاحبِ فراش ہوئے ہیں، دل سراسیمہ ہے۔ اچھے لوگوں کے قلیل العمر ہونے کی روایت بار بار دھیان میں آتی ہے۔ جوں ہی اُن کی بیماری کی خبر پھیلی، ناقدین کی چاندی ہو گئی۔ کسی نے پھبتیاں کسیں، تو کوئی لطیفے گڑھ رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے تبصرے بھی استہزائیہ تھے۔ ڈیل کارنیگی کے سچے بھگت ہونے کے باعث ہم نے ہر تجزیہ کار کی حمایت کی۔ خواہ مخواہ بحث میں پڑنے کی بھلا کیا ضرورت۔
ہمارے عزیز دوست چھوٹے بھیم، نیم حکیم، جو قہقہہ سازی کی پوری صنعت ہیں، وہ بھی ''صاحبِ مسند'' کی علالت کو ایک طربیہ یونانی ڈرامہ قرار دینے پر مُصر ہیں۔ مرض کو مرض مان کر نہیں دیتے۔ ہم پر ہنستے ہیں۔ سوالات عجیب عجیب اٹھاتے ہیں۔ ایک روز کہنے لگے؛ اتنے بَڑھیا بَڑھیا مطب یہاں، طبیب بھی ایک سے ایک، فارن فارن کی رٹ کیوں؟
ہم اُن کے اعتراضات کا جواب نہیں دیتے۔ صلح جُو ہونے کے باعث چند پر تو اتفاق کر جاتے ہیں۔ وہ تو پیدایشی ناقد ہیں۔ امتحانات میں جب چڑیا گھر پر مضمون لکھنے کا سوال آتا، تو شستہ زبان میں ''صاحبِ مسند'' کے خلاف مضمون لکھ مارتے۔ فیل ہوتے، تو اُن ہی پر الزام دھرتے۔ موصوف ''صاحبِ مسند'' کی تصویر سامنے رکھ کر ہندوستانی فلم کا گیت ''گھر آ جا پرندے، گھر آ جا'' گنگناتے بھی دیکھے گئے ہیں۔اپنے پیارے دوست چھوٹے بھیم کو، خدا اُنھیں صحت دے، ناہنجاروں کی فہرست میں ڈالتے ہوئے نظرانداز کر دینا بہتر۔ جو شے درد دے، اُس پر توجہ نہ دینا ہی صوفیوں کا مسلک ٹھہرا۔ ہمیں شکوہ تو ''صاحبِ مسند'' کے سولسٹروں سے ہے۔ وہ تو کٹہرے میں آنا چاہتے ہیں، مگر یہ روک دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کا لہجہ پاٹ دار ہے۔ سنجیدہ دکھائی دینے کی سنجیدہ سی کوشش کرتے ہیں۔ سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والوں کے مطابق وہ ماضی جیسا ایک اور کارنامہ پھر انجام دینے کے متمنی ہیں۔
ہمیں یاد ہے، گزشتہ برس، موسم خزاں میں انھیں بغرض عیادت فارن جانے کی اجازت بمع گریہ طلب کی گئی۔
رونا تو ہمیں بھی آیا۔ ابھی کچھ روز پہلے وہ ایک میڈیا والے سے الجھ پڑے کہ تمھارا بھی کچھ کرنا پڑے گا۔
ویسے ''صحافی اور وکیل'' نامی قصّے میں سخت کلامی کا جو پُر مزاح واقعہ ملتا ہے، اُس کا قصور فقط سولسٹر کے سر منڈھنا ٹھیک نہیں۔ میڈیا والے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ ٹیڑھے میٹرھے سوال کرتے ہیں۔ اچھا خاصا آدمی حواس باختہ ہوجائے۔ ''صاحبِ مسند'' کے حمایتی سوشل میڈیا پر بڑے متحرک ہیں، مگر اِس محاذ پر پختگی کی ہمیں کمی نظر آتی ہے۔ بیشتر جذبات کی تھاپ پر رقصاں، ''پروف ریڈنگ'' میں کچے۔ ابھی کل ہی کسی نے ''صاحبِ مسند'' کی ہنستی مسکراتی تصویر، مع حمایتی مواد شیئر کی۔ ''پروف'' صحیح پڑھا نہیں، سب سے پہلے میری جان'' چلا گیا۔ بہت سے چاہنے والوں نے پوسٹ کو لائیک کیا، بہتوں نے شیئر بھی کر دیا۔ ہم نے یہ سوچ کر کہ جس طرح کئی الفاظ غلط العام ہوجاتے ہیں، یہ نعرہ بھی عام ہو جائے گا، تصویر کھٹ سے شیئر کر ڈالی۔ ساتھ فیضؔ کا مصرع:
''خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو''
ٹانک دیا۔ ہماری پوسٹ کو بھی بہت سوں نے لائیک کیا۔ ایک نوجوان نے تبصرے کے خانے میں لکھ مارا: ''اپنی تو دعا ہے یہ، ''صاحبِ مسند'' رہے سدا '' سدا اُنھوں نے ''ص''سے لکھا۔خیر، اب اِس تحریر کو سمیٹتے ہیں کہ گریے کا وقت ہو چلا ہے۔ اب ہم اُن کے غم میں جی بھر کر روئیں گے۔ پھر پیٹ بھر کر کھائیں گے، تھوڑا گنگنائیں گے، اور سو جائیں گے۔ اگر نیند نہیں آئی، تو کوئی افسانہ وغیرہ لکھ لیں گے۔ اُن کے جانے کے بعد اب زندگی ایسی ہی گزر رہی ہے۔