کیا اس ہوائی جہاز میں امونیا کا ایندھن استعمال ہوگا
امونیا کو محفوظ کرنا اور ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی بہت آسان ہوتا ہے
تین برطانوی ادارے باہمی اشتراک سے ایک ایسا انجن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو امونیا گیس کو بطور ایندھن استعمال کرے گا۔
واضح رہے کہ ہوائی جہازوں میں 'جیٹ فیول' کہلانے والا ایندھن استعمال ہوتا ہے جو عموماً 30 فیصد کیروسین (مٹی کے تیل) اور 70 فیصد گیسولین (پیٹرول) کو آپس میں ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
دنیا میں مسلسل بڑھتے ہوئے فضائی سفر کی وجہ سے یہی جیٹ فیول آلودگی کا باعث بھی بن رہا ہے جس کی جگہ کوئی نیا اور ماحول دوست ایندھن متعارف کروانے کی کوششیں پچھلے کئی سال سے جاری ہیں۔
ری ایکشن انجنز، ایس ٹی ایف سی اور آئی پی گروپ نامی تین برطانوی اداروں کا مشترکہ منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں جیٹ انجن کےلیے جدید ٹیکنالوجی 'سیبر' (SABRE) سے استفادہ کیا جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی ری ایکشن انجنز نے وضع کی ہے۔
خبروں کے مطابق، امونیا سے جیٹ فیول کی نسبت 50 فیصد توانائی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن یہ دوسرے مجوزہ متبادل ایندھن یعنی ہائیڈروجن کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ توانائی خارج کرتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ امونیا کو محفوظ کرنا اور ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی بہت آسان ہوتا ہے جبکہ اسے مائع ہائیڈروجن کی نسبت خاصی کم جگہ میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔
مطلب یہ کہ اگر امونیا کو متبادل ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے تو ہوائی جہاز کے انجن اور فیول ٹینک کی جسامت میں غیرمعمولی اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس کے برعکس، ہائیڈروجن ایندھن کی صورت میں اتنا بڑا فیول ٹینک اور انجن درکار ہوں گے کہ طیارے میں مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش بہت کم رہ جائے گی۔
امونیا ایندھن کی دوسری تمام خوبیوں کے باوجود، ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جیٹ فیول سے زیادہ ماحول دشمن ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ فضا میں جیٹ فیول جلنے سے صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات خارج ہوتے ہیں لیکن امونیا کے جلنے پر نائٹروجن آکسائیڈز (NOx) گیسیں خارج ہوں گی جو فضا کو زہریلا کرتے ہوئے تیزابی بارشوں میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
فی الوقت اس بارے میں کچھ بھی کہنا اس لیے قبل از وقت ہے کیونکہ امونیا کا ایندھن استعمال کرنے والے انجن کی ٹیکنالوجی ابھی بالکل ابتدائی مرحلے پر ہے۔
ہزاروں تجربات اور سیکڑوں آزمائشوں کے بعد ہی اس کے طیاروں میں قابلِ استعمال ہونے یا نہ ہونے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ہوائی جہازوں میں 'جیٹ فیول' کہلانے والا ایندھن استعمال ہوتا ہے جو عموماً 30 فیصد کیروسین (مٹی کے تیل) اور 70 فیصد گیسولین (پیٹرول) کو آپس میں ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
دنیا میں مسلسل بڑھتے ہوئے فضائی سفر کی وجہ سے یہی جیٹ فیول آلودگی کا باعث بھی بن رہا ہے جس کی جگہ کوئی نیا اور ماحول دوست ایندھن متعارف کروانے کی کوششیں پچھلے کئی سال سے جاری ہیں۔
ری ایکشن انجنز، ایس ٹی ایف سی اور آئی پی گروپ نامی تین برطانوی اداروں کا مشترکہ منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں جیٹ انجن کےلیے جدید ٹیکنالوجی 'سیبر' (SABRE) سے استفادہ کیا جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی ری ایکشن انجنز نے وضع کی ہے۔
خبروں کے مطابق، امونیا سے جیٹ فیول کی نسبت 50 فیصد توانائی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن یہ دوسرے مجوزہ متبادل ایندھن یعنی ہائیڈروجن کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ توانائی خارج کرتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ امونیا کو محفوظ کرنا اور ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی بہت آسان ہوتا ہے جبکہ اسے مائع ہائیڈروجن کی نسبت خاصی کم جگہ میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔
مطلب یہ کہ اگر امونیا کو متبادل ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے تو ہوائی جہاز کے انجن اور فیول ٹینک کی جسامت میں غیرمعمولی اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس کے برعکس، ہائیڈروجن ایندھن کی صورت میں اتنا بڑا فیول ٹینک اور انجن درکار ہوں گے کہ طیارے میں مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش بہت کم رہ جائے گی۔
امونیا ایندھن کی دوسری تمام خوبیوں کے باوجود، ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جیٹ فیول سے زیادہ ماحول دشمن ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ فضا میں جیٹ فیول جلنے سے صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات خارج ہوتے ہیں لیکن امونیا کے جلنے پر نائٹروجن آکسائیڈز (NOx) گیسیں خارج ہوں گی جو فضا کو زہریلا کرتے ہوئے تیزابی بارشوں میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
فی الوقت اس بارے میں کچھ بھی کہنا اس لیے قبل از وقت ہے کیونکہ امونیا کا ایندھن استعمال کرنے والے انجن کی ٹیکنالوجی ابھی بالکل ابتدائی مرحلے پر ہے۔
ہزاروں تجربات اور سیکڑوں آزمائشوں کے بعد ہی اس کے طیاروں میں قابلِ استعمال ہونے یا نہ ہونے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔