خواتین ہراسگی کے واقعات میں خوفناک اضافہ خاتون محتسب کو 5657 شکایات موصول
202 شکایات پرجرم ثابت ہونے پر سزائیں، 56 مقدمات میں ملزمان بری، 72 شکایت کنندگان نے درخواستیں واپس لے لیں۔
ملک بھر میں جہاں خواتین کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے وہیں سرکاری ویگردفاتر سمیت معاشرے کے ہر حصے میں خواتین کو ہراساں کرنے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے چند سالوں میں ہراسگی کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹریبیون کو حاصل دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں نجی و سرکاری دفاتر ،فیکٹریوں،گھروں میں کام کرنے والی اور سفر کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ کچھ کیسز میں خواتین کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستیں غلط بھی ثابت ہوئی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ہراسگی کیخلاف جتنی شکایات موصول ہوتی ہیں وہ اصل پیش آنے والے واقعات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حکومت کی جانب سے کام کی جگہ پر خواتین کی حفاظت کیلئے پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس قانون 2010 میں لایا گیا اور وفاقی حکومت نے 2010 میں ہی اس قانون کو لاگو کیا۔ 2012 مذکورہ قانون میں ترمیم کی گئیں اور اسے پنجاب میں بھی نافذ کیا گیا۔
2013 اس قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے خاتون محتسب پنجاب کا دفتر قائم کیا گیاہے۔ یہ ایک اسپیشل ادارہ ہے اور اس وقت یہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے امپلیمینٹیشن اور کوآرڈینیشن ونگ کے ماتحت کام کر رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ہراسگی کے حوالے سے 2013 اب تک محکمہ کو 5657درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن میں سے 512درخواستوں کو ہراسگی سے متعلقہ قرار دے کر سماعت کی گئی اوران میں سے 363پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ 202 کیسز میں الزام ثابت ہونے پر سزائیں دی گئیں، 56چھپن کیسز میں جرم ثابت نہ ہونے پر ملزمان کو بری کیا گیا جبکہ 72 درخواستیں درخواست گزار کی طرف سے واپس لے لی گئیں۔
دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و ترجمان حکومت پنجاب حسّان خاور کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی اور تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے خواتین کی شکایات پر فوری مقدمات کا اندراج، ملوث ملزمان کی گرفتاری اور میرٹ پر تفتیش یقینی بنائی جا رہی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹریبیون کو حاصل دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں نجی و سرکاری دفاتر ،فیکٹریوں،گھروں میں کام کرنے والی اور سفر کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ کچھ کیسز میں خواتین کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستیں غلط بھی ثابت ہوئی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ہراسگی کیخلاف جتنی شکایات موصول ہوتی ہیں وہ اصل پیش آنے والے واقعات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حکومت کی جانب سے کام کی جگہ پر خواتین کی حفاظت کیلئے پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس قانون 2010 میں لایا گیا اور وفاقی حکومت نے 2010 میں ہی اس قانون کو لاگو کیا۔ 2012 مذکورہ قانون میں ترمیم کی گئیں اور اسے پنجاب میں بھی نافذ کیا گیا۔
2013 اس قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے خاتون محتسب پنجاب کا دفتر قائم کیا گیاہے۔ یہ ایک اسپیشل ادارہ ہے اور اس وقت یہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے امپلیمینٹیشن اور کوآرڈینیشن ونگ کے ماتحت کام کر رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ہراسگی کے حوالے سے 2013 اب تک محکمہ کو 5657درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن میں سے 512درخواستوں کو ہراسگی سے متعلقہ قرار دے کر سماعت کی گئی اوران میں سے 363پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ 202 کیسز میں الزام ثابت ہونے پر سزائیں دی گئیں، 56چھپن کیسز میں جرم ثابت نہ ہونے پر ملزمان کو بری کیا گیا جبکہ 72 درخواستیں درخواست گزار کی طرف سے واپس لے لی گئیں۔
دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و ترجمان حکومت پنجاب حسّان خاور کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی اور تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے خواتین کی شکایات پر فوری مقدمات کا اندراج، ملوث ملزمان کی گرفتاری اور میرٹ پر تفتیش یقینی بنائی جا رہی ہے۔