کاش کاش
S_afarooqi@yahoo.com
کتنا اچھا ہوتا اگر سابق وزیراعظم عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے اور یہ نوبت نہ آتی کہ:
بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا، کیونکہ انھوں نے اپنے دل میں یہ ٹھان رکھی تھی کہ عدالت کا فیصلہ کسی بھی صورت میں نہیں ماننا۔ عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنا شاید ہمارے موجودہ حکمرانوں کی گُھٹّی میں شامل ہے۔ چنانچہ وزیراعظم ہائوس سے نکالے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نے ایوانِ صدر کا رُخ کیا۔
یہ بھی عدالتِ عالیہ کی اس واضح ہدایت کی خلاف ورزی ہے کہ ایوانِ صدر کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ دریں اثناء اس کالم کو سپردِ قلم کرتے وقت یہ خبر شایع ہوچکی تھی کہ ایوانِ صدر کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے رہنا ہمارے ''عوامی'' حکمرانوں کی فطرت میں شامل ہے۔
محض سابق وزیراعظم ہی نہیں ہمارے نئے وزیراعظم کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، بلکہ ''بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اﷲ'' کے مصداق راجہ صاحب کی کراچی تشریف آوری اہلِ شہر کے لیے اس وقت عذاب بن گئی جب ''عوامی'' وزیراعظم کی آمد کے موقعے پر ٹریفک جام ہوگیا اور مارکیٹیں بند کرادی گئیں۔ ابھی تو راجہ صاحب کے راج کی شروعات ہے۔
رینٹل راجہ جب وزیراعظم بنے تو بعض اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں، ''پرویز اشرف پاکستان کے راجہ۔'' اس کے بعد جب وہ وزیراعظم کی سرکاری رہایش گاہ پہنچے تو انھیں شاہانہ انداز میں فوجی پریڈ کی سلامی دی گئی، گویا کسی غیر ملکی سربراہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا جارہا ہو۔ دوسری جانب مادرِ جمہوریت برطانیہ کو دیکھیے جہاں وزیراعظم اپنا عہدہ نہایت سادگی سے سنبھالتا ہے۔ کسی قسم کی پی پاں، فوں فاں یا باادب باملاحظہ ہوشیار کی نمود و نمایش کے بغیر نو منتخب وزیراعظم بکنگھم پیلس جا کر ملکہ معظمہ سے ملاقات کرتا ہے اور اس کے بعد ان کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے۔
بس یہی حلف برداری بھی ہے اور حلفِ وفاداری بھی۔ نہ کوئی بینڈ باجا اور نہ کوئی فوجی پریڈ۔ کابینہ کے وزراء کی حلف برداری کی بھی کوئی خصوصی تقریب نہیں ہوتی۔ پارلیمان کے ممبران کے اجلاس میں سب کے سب اراکین صرف ایک بار اکٹھے حلف اُٹھاتے ہیں۔ بس اﷲ اﷲ خیر صلاّ۔ بھارت کی حکمراں سیاسی جماعت کانگریس کے ایک سینئر رکن، بزرگ سیاست داں اور سابق وزیراعظم آنجہانی مرار جی ڈیسائی نے ایک مرتبہ نہایت حسرت سے یہ کہا تھا کہ ''مجھے پاکستانی رہنمائوں پر رشک آتا ہے کہ انھیں ایسے عوام میسر آئے ہیں جو اُن کی دیوتائوں کے سمان پوجا کرتے ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''کاش ہم بھارتی سیاست دانوں کو بھی پاکستان جیسی جنتا نصیب ہو۔''
برطانیہ کے علاوہ ابھی فرانس کی ہی تازہ مثال لے لیجیے، جہاں سرکوزی کی رخصتی کے بعد موسیا اولاند نے عہدۂ صدارت سنبھالا ہے۔ صدارتی محل میں منتقل ہونے کے بجائے وہ ابھی تک اپنے سابقہ کرایے کے اپارٹمنٹ میں اسی طرح رہایش پذیر ہیں۔ ان کے معمولات وہی ہیں جو صدر بننے سے پہلے تھے۔ وہ اسی طرح بازار جا کر سودا سلف خریدتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے فاصلے سڑک سے ہی طے کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے رضاکارانہ طور پر صدارتی تنخواہ میں اضافے کے بجائے 30 فیصد کٹوتی کردی ہے۔ یہ ہے اس ملک کے صدر کا رہن سہن جو یورپ کا ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک اور دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اب سنیے ان کی بیگم صاحبہ کا احوال جو فرانس کی خاتونِ اوّل ہیں۔
اپنے شوہر کے صدر منتخب ہونے سے قبل جب وہ پیرس کی ایک سپر مارکیٹ میں پھلوں کی خریداری کررہی تھیں تو انھوں نے ایک اخبار نویس سے گفتگو کے دوران برجستہ یہ کہا تھا کہ ان کے شوہر کے صدر بننے کے بعد بھی ان کا معمول یہی ہوگا کہ جب ان کا فریج خالی ہوجائے گا تو وہ اسی طرح سپر مارکیٹ آکر خریداری کیا کریں گی۔ خاتونِ اوّل نے جو کچھ کہا تھا وہ لفظ بہ لفظ پورا کر دِکھایا۔
وہ ''پیرس میچ'' نامی میگزین کے ساتھ بطور صحافی اسی طرح آج بھی وابستہ ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بدستور قلمی مزدوری کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ وہ کوئی عام قسم کی معمولی صحافی نہیں ہیں بلکہ اپنے میگزین میں مسلسل 20 سال سے فرانس کی سیاست پر تبصرے اور اظہاریے تحریر کررہی ہیں۔ ان کی سادگی اور شانِ بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ جب ان کے رسالے ''Paris match'' نے ''Hollande's charming asset'' یعنی ''اولاندے کا پُرکشش اثاثہ'' کے زیرِ عنوان اپنا سرورق چھاپا تو خاتونِ اوّل نے نہایت خفگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
Trier weiler نامی یہ خاتون اوّل دو مرتبہ طلاق یافتہ تین بچوں کی ماں ہیں، جن کا تعلق مشرقی فرانس کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ وہ اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے سرکاری خزانے کی ایک پائی بھی خرچ کرنا نہیں چاہتیں اور نہ ہی اپنے شوہر کو ریاست کا شرمندہ احسان ہونا پسند کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچّوں کے کپڑے اور موزے بنیان تک خود بازار جا کر خریدتی ہیں جب کہ فرانس کے صدر، ان کے شوہر نامدار موسیو اولاند حسبِ سابق آج بھی ان کے ساتھ بازار جا کر شاپنگ کرتے ہیں اور امورِ خانہ داری بشمول کھانا پکانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اور ہاں! سب سے دلچسپ بات یہ کہ اولاند اب بھی اپنی پرانی عادت سے باز نہیں آئے اور وہ آج بھی الماری کے دروازے بالکل چوپٹ کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔
فرانس کی معیشت یورپ کی دوسری بڑی معیشت ہے، جسے سنبھالنے میں سابق صدر نکولس سرکوزی بُری طرح ناکام ہوگئے تھے۔ ان کے طرزِ حکمرانی اور ان کی پالیسیوں سے فرانسیسی عوام بُری طرح نالاں اور متنفر ہوگئے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس نے اولاند کی کامیابی کا راستہ ہموار کردیا۔ چنانچہ صدارتی منصب اولاند کے لیے کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہے۔ بلاشبہ انھیں نہایت سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا جو ان کے لیے ایک کڑی آزمایش ہے۔ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح نمٹیں گے؟ ان کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ اور ان کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ ان سوالات کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ یقیناً انھیں اپنے قدم جمانے کے لیے کچھ نہ کچھ مہلت ضرور درکار ہوگی۔
ان کے سامنے وہ تمام وعدے موجود ہیں جو الیکشن سے قبل انھوں نے اپنے عوام سے کیے تھے۔ اس میں شرح نمو میں اضافہ، اخراجات میں خاطر خواہ کمی، بجٹ خسارے کو ممکنہ حد تک گھٹانا، امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرنا اور ساٹھ ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی جیسے گمبھیر مسائل شامل ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انھیں کوئی سابقہ انتظامی تجربہ حاصل نہیں ہے۔ وہ کبھی وزیر یا مشیر بھی نہیں رہے۔ دراصل ریاستی امور سے انھیں کبھی کوئی واسطہ ہی نہیں رہا۔ مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت مخلص اور ایمان دار شخص ہیں۔ ایک ایسے رہنما جو اپنے عوام کی دل و جان سے خدمت کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا ماضی بے داغ اور ان کا کردار آئینے کی طرح سے بالکل صاف اور شفاف ہے۔ وہ خود کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ ایک ادنیٰ سا خادم سمجھتے ہیں۔
وہ عوام کے سروں پر نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر راج کرنے کی نیت اور مقصد سے حکومت میں آئے ہیں۔ وہ لوٹ مار کرکے اپنی تمام دولت بیرونِ ملک بینکوں میں منتقل کرنے والے شاطر و جابر صدر نہیں بلکہ اپنے عوام کے حقیقی خدمت گزار صدر ہیں۔ وہ فرانس کی تقدیر کو راتوں رات بدل دینے کا وعدہ کرنے والے جھوٹے اور مکار رہنما نہیں ہیں۔ ان کے سامنے تین بہت بڑے چیلنج موجود ہیں۔ نمبر ایک فرانس کی معیشت کو ازسرِنو ترتیب دینا، نمبر دو فرانسیسی معاشرے کو افہام و تفہیم کی راہ پر گامزن کرنا اور نمبر تین یورپ میں فرانس کے حلیف تلاش کرنا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تینوں کے تینوں کام نہایت کٹھن اور دشوار ہیں مگر اولاند کو یقین ہے کہ اپنے عوام کے تعاون اور عزم کی بدولت وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
کاش! ہمیں بھی صدر اولاند جیسا کوئی مخلص اور سادہ رہنما میسر آجائے جو ایک عام آدمی جیسی زندگی گزارے اور ملک و قوم کی قسمت سنوارے، جو بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے اپنے کردار اور عمل کے ذریعے ہماری ڈوبتی ہوئی نیّا کو حالات کے بھنور سے بہ حفاظت نکال دے۔ کاش! کاش!!
بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا، کیونکہ انھوں نے اپنے دل میں یہ ٹھان رکھی تھی کہ عدالت کا فیصلہ کسی بھی صورت میں نہیں ماننا۔ عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنا شاید ہمارے موجودہ حکمرانوں کی گُھٹّی میں شامل ہے۔ چنانچہ وزیراعظم ہائوس سے نکالے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نے ایوانِ صدر کا رُخ کیا۔
یہ بھی عدالتِ عالیہ کی اس واضح ہدایت کی خلاف ورزی ہے کہ ایوانِ صدر کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ دریں اثناء اس کالم کو سپردِ قلم کرتے وقت یہ خبر شایع ہوچکی تھی کہ ایوانِ صدر کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے رہنا ہمارے ''عوامی'' حکمرانوں کی فطرت میں شامل ہے۔
محض سابق وزیراعظم ہی نہیں ہمارے نئے وزیراعظم کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، بلکہ ''بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اﷲ'' کے مصداق راجہ صاحب کی کراچی تشریف آوری اہلِ شہر کے لیے اس وقت عذاب بن گئی جب ''عوامی'' وزیراعظم کی آمد کے موقعے پر ٹریفک جام ہوگیا اور مارکیٹیں بند کرادی گئیں۔ ابھی تو راجہ صاحب کے راج کی شروعات ہے۔
رینٹل راجہ جب وزیراعظم بنے تو بعض اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں، ''پرویز اشرف پاکستان کے راجہ۔'' اس کے بعد جب وہ وزیراعظم کی سرکاری رہایش گاہ پہنچے تو انھیں شاہانہ انداز میں فوجی پریڈ کی سلامی دی گئی، گویا کسی غیر ملکی سربراہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا جارہا ہو۔ دوسری جانب مادرِ جمہوریت برطانیہ کو دیکھیے جہاں وزیراعظم اپنا عہدہ نہایت سادگی سے سنبھالتا ہے۔ کسی قسم کی پی پاں، فوں فاں یا باادب باملاحظہ ہوشیار کی نمود و نمایش کے بغیر نو منتخب وزیراعظم بکنگھم پیلس جا کر ملکہ معظمہ سے ملاقات کرتا ہے اور اس کے بعد ان کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے۔
بس یہی حلف برداری بھی ہے اور حلفِ وفاداری بھی۔ نہ کوئی بینڈ باجا اور نہ کوئی فوجی پریڈ۔ کابینہ کے وزراء کی حلف برداری کی بھی کوئی خصوصی تقریب نہیں ہوتی۔ پارلیمان کے ممبران کے اجلاس میں سب کے سب اراکین صرف ایک بار اکٹھے حلف اُٹھاتے ہیں۔ بس اﷲ اﷲ خیر صلاّ۔ بھارت کی حکمراں سیاسی جماعت کانگریس کے ایک سینئر رکن، بزرگ سیاست داں اور سابق وزیراعظم آنجہانی مرار جی ڈیسائی نے ایک مرتبہ نہایت حسرت سے یہ کہا تھا کہ ''مجھے پاکستانی رہنمائوں پر رشک آتا ہے کہ انھیں ایسے عوام میسر آئے ہیں جو اُن کی دیوتائوں کے سمان پوجا کرتے ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''کاش ہم بھارتی سیاست دانوں کو بھی پاکستان جیسی جنتا نصیب ہو۔''
برطانیہ کے علاوہ ابھی فرانس کی ہی تازہ مثال لے لیجیے، جہاں سرکوزی کی رخصتی کے بعد موسیا اولاند نے عہدۂ صدارت سنبھالا ہے۔ صدارتی محل میں منتقل ہونے کے بجائے وہ ابھی تک اپنے سابقہ کرایے کے اپارٹمنٹ میں اسی طرح رہایش پذیر ہیں۔ ان کے معمولات وہی ہیں جو صدر بننے سے پہلے تھے۔ وہ اسی طرح بازار جا کر سودا سلف خریدتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے فاصلے سڑک سے ہی طے کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے رضاکارانہ طور پر صدارتی تنخواہ میں اضافے کے بجائے 30 فیصد کٹوتی کردی ہے۔ یہ ہے اس ملک کے صدر کا رہن سہن جو یورپ کا ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک اور دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اب سنیے ان کی بیگم صاحبہ کا احوال جو فرانس کی خاتونِ اوّل ہیں۔
اپنے شوہر کے صدر منتخب ہونے سے قبل جب وہ پیرس کی ایک سپر مارکیٹ میں پھلوں کی خریداری کررہی تھیں تو انھوں نے ایک اخبار نویس سے گفتگو کے دوران برجستہ یہ کہا تھا کہ ان کے شوہر کے صدر بننے کے بعد بھی ان کا معمول یہی ہوگا کہ جب ان کا فریج خالی ہوجائے گا تو وہ اسی طرح سپر مارکیٹ آکر خریداری کیا کریں گی۔ خاتونِ اوّل نے جو کچھ کہا تھا وہ لفظ بہ لفظ پورا کر دِکھایا۔
وہ ''پیرس میچ'' نامی میگزین کے ساتھ بطور صحافی اسی طرح آج بھی وابستہ ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بدستور قلمی مزدوری کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ وہ کوئی عام قسم کی معمولی صحافی نہیں ہیں بلکہ اپنے میگزین میں مسلسل 20 سال سے فرانس کی سیاست پر تبصرے اور اظہاریے تحریر کررہی ہیں۔ ان کی سادگی اور شانِ بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ جب ان کے رسالے ''Paris match'' نے ''Hollande's charming asset'' یعنی ''اولاندے کا پُرکشش اثاثہ'' کے زیرِ عنوان اپنا سرورق چھاپا تو خاتونِ اوّل نے نہایت خفگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
Trier weiler نامی یہ خاتون اوّل دو مرتبہ طلاق یافتہ تین بچوں کی ماں ہیں، جن کا تعلق مشرقی فرانس کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ وہ اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے سرکاری خزانے کی ایک پائی بھی خرچ کرنا نہیں چاہتیں اور نہ ہی اپنے شوہر کو ریاست کا شرمندہ احسان ہونا پسند کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچّوں کے کپڑے اور موزے بنیان تک خود بازار جا کر خریدتی ہیں جب کہ فرانس کے صدر، ان کے شوہر نامدار موسیو اولاند حسبِ سابق آج بھی ان کے ساتھ بازار جا کر شاپنگ کرتے ہیں اور امورِ خانہ داری بشمول کھانا پکانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اور ہاں! سب سے دلچسپ بات یہ کہ اولاند اب بھی اپنی پرانی عادت سے باز نہیں آئے اور وہ آج بھی الماری کے دروازے بالکل چوپٹ کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔
فرانس کی معیشت یورپ کی دوسری بڑی معیشت ہے، جسے سنبھالنے میں سابق صدر نکولس سرکوزی بُری طرح ناکام ہوگئے تھے۔ ان کے طرزِ حکمرانی اور ان کی پالیسیوں سے فرانسیسی عوام بُری طرح نالاں اور متنفر ہوگئے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس نے اولاند کی کامیابی کا راستہ ہموار کردیا۔ چنانچہ صدارتی منصب اولاند کے لیے کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہے۔ بلاشبہ انھیں نہایت سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا جو ان کے لیے ایک کڑی آزمایش ہے۔ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح نمٹیں گے؟ ان کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ اور ان کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ ان سوالات کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ یقیناً انھیں اپنے قدم جمانے کے لیے کچھ نہ کچھ مہلت ضرور درکار ہوگی۔
ان کے سامنے وہ تمام وعدے موجود ہیں جو الیکشن سے قبل انھوں نے اپنے عوام سے کیے تھے۔ اس میں شرح نمو میں اضافہ، اخراجات میں خاطر خواہ کمی، بجٹ خسارے کو ممکنہ حد تک گھٹانا، امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرنا اور ساٹھ ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی جیسے گمبھیر مسائل شامل ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انھیں کوئی سابقہ انتظامی تجربہ حاصل نہیں ہے۔ وہ کبھی وزیر یا مشیر بھی نہیں رہے۔ دراصل ریاستی امور سے انھیں کبھی کوئی واسطہ ہی نہیں رہا۔ مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت مخلص اور ایمان دار شخص ہیں۔ ایک ایسے رہنما جو اپنے عوام کی دل و جان سے خدمت کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا ماضی بے داغ اور ان کا کردار آئینے کی طرح سے بالکل صاف اور شفاف ہے۔ وہ خود کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ ایک ادنیٰ سا خادم سمجھتے ہیں۔
وہ عوام کے سروں پر نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر راج کرنے کی نیت اور مقصد سے حکومت میں آئے ہیں۔ وہ لوٹ مار کرکے اپنی تمام دولت بیرونِ ملک بینکوں میں منتقل کرنے والے شاطر و جابر صدر نہیں بلکہ اپنے عوام کے حقیقی خدمت گزار صدر ہیں۔ وہ فرانس کی تقدیر کو راتوں رات بدل دینے کا وعدہ کرنے والے جھوٹے اور مکار رہنما نہیں ہیں۔ ان کے سامنے تین بہت بڑے چیلنج موجود ہیں۔ نمبر ایک فرانس کی معیشت کو ازسرِنو ترتیب دینا، نمبر دو فرانسیسی معاشرے کو افہام و تفہیم کی راہ پر گامزن کرنا اور نمبر تین یورپ میں فرانس کے حلیف تلاش کرنا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تینوں کے تینوں کام نہایت کٹھن اور دشوار ہیں مگر اولاند کو یقین ہے کہ اپنے عوام کے تعاون اور عزم کی بدولت وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
کاش! ہمیں بھی صدر اولاند جیسا کوئی مخلص اور سادہ رہنما میسر آجائے جو ایک عام آدمی جیسی زندگی گزارے اور ملک و قوم کی قسمت سنوارے، جو بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے اپنے کردار اور عمل کے ذریعے ہماری ڈوبتی ہوئی نیّا کو حالات کے بھنور سے بہ حفاظت نکال دے۔ کاش! کاش!!