سیاسی نہیں معاشی مسائل پر توجہ دیں
غیر مقبول اور کمزور سیاسی قیادت کسی بھی بحران سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
عمران خان کے دوستوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی بحران ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا، میری رائے میں سیاسی نہیں معاشی بحران عمران خان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
اگر ان کی عوامی مقبولیت قائم رہ رہتی ہے تو سیاسی بحران حل ہو جائے گا لیکن اگر معاشی بحران مزید گہرا تو عوامی مقبولیت مزید نیچے آجائے گی، اس وقت عمران خان کے لیے خطرات بڑھتے جائیں گے۔
غیر مقبول اور کمزور سیاسی قیادت کسی بھی بحران سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس کے لیے سیاسی بحران بھی زہر قاتل بن جاتے ہیں جب کہ معاشی بحران تو اسے فوری لے ڈوبتے ہیں، اس لیے عمران خان معاشی مسائل کی طرف توجہ بڑھائیں۔
آج کل حکومت یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس نے چینی کی قیمت میں نمایاں کمی ہے بلکہ حکومت کو گلہ ہے کہ اس پر ملک کا میڈیا اس طرح شور نہیں مچا رہا ہے جیسے قیمت بڑھنے پر مچاتا ہے۔ چینی کی قیمت واپس نوے رو پے پر آگئی ہے لیکن میڈیا نے حکومت کی واہ واہ نہیں کی۔
حکومت کو علم ہونا چاہیے کہ میڈیا کا کام حکومت کی وا ہ واہ کرنا نہیں ہے، اگر قیمتیں بڑھیں گی تو خبر ہو گی، اگر اپنی اصل قیمت پر واپس آئیں گی تو یہ کوئی خبر نہیں ہے کیونکہ حکومت کا کام یہی ہے اور اپناکام کرنا عوام پرکوئی احسان نہیں ہے۔ اس میں خبر والی کوئی بات بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت اپنے اچھے کاموں کو عوام کے سامنے لانا چاہتی ہے تو اسے ان کاموں کی تشہیر کرنی چاہیے۔
چینی کے حوالے سے عرض ہے کہ حکومت نے جو چینی درآمد کی ہے، وہ غیر معیاری ہے۔ اس وقت بھی جب گاہک اسٹور پر جا کر اچھی اور معیاری چینی مانگتا ہے تو اسے وہ چینی 150روپے فی کلوگرام ہی ملتی ہے۔ مارکیٹ میں چینی کے اس وقت بھی دو ریٹ چل رہے ہیں۔ بیرون ملک سے درآمد کی گئی غیر معیاری اور باریک چینی نوے سے سو روپے فی کلوگرام میں مل رہی ہے جب کہ دانے دار، اچھی اور معیاری چینی 150روپے میں فی کلوگرام مل رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو میڈیا سے گلہ کرنے سے پہلے اس صورتحال کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔
حکومت کو سمجھنا چاہیے اگر چینی سستی کر کے گھی مہنگا کر دیا گیا ہے تو عوام حکومت کو کیا کریڈٹ دیں۔ دودھ کی قیمت میں دس سے بیس روپے فی کلو گرام اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیا کوئی حکومت سے سوال کر سکتا ہے کہ کھلے اور پیکٹوں میں بند دودھ کا ڈالر سے کیا تعلق ہے۔ ڈالر بڑھتا ہے تو ملک میں کھلے اور پیکٹوں میں بند دودھ کی قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں۔
اگر چینی سستی کر کے دودھ بڑھ جائے گا تو لوگ خالی سستی چینی کیا کیا کریں گے۔ مہنگا دودھ سستی چینی کا کریڈٹ بھی کھا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کو خود ہی دیکھنا چاہیے کہ چائے کی پتی کی قیمت کتنی بڑھی ہے، اس لیے چینی سستی کر کے دودھ اور پتی مہنگی کر دی جائے گی تو عوام کوکیا فائدہ ہوگا۔
بے حسی یہ دیکھیں کہ حکومت نے ادارہ شماریات کو مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ اگر حکومت کے پاس مہنگائی کا یہی حل ہے کہ ادارہ شماریات مہنگائی کے اعداد و شمار جاری نہ کرے تو پھر حکومت کا اﷲ حافظ ہے۔ جب سے مہنگائی کا شور مچا ہے، ادارہ شماریات کی رپورٹ میڈیا میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہو گئی تھی۔ عوام کو پتہ چلنے لگ گیا تھا کہ کونسی چیز کتنی مہنگی ہو رہی ہے۔ ویسے تو لوگوں کو پتہ ہوتا ہے لیکن ایک مجموعی صورتحا ل سامنے آجاتی تھی۔ لیکن حکومت کے لیے یہ رپورٹ درد سر بنی ہوئی تھی، اس لیے اسے بند کر دیا گیا ہے، یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔
روپے کی قدر میں مسلسل کمی حکومت کے لیے ایک ایسا پھندا بنتا جا رہا ہے جو دن بدن ٹائٹ ہوتا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی عام آدمی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ضروریات زندگی مہنگی ہوتی ہیں تو لوگوں کا گھریلو بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ گھی اور آئل کی قیمت کو ہی دیکھ لیں۔
گھی آئل ایسی چیز ہے کہ ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مہنگے ہونے سے ہر گھر متاثر ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ گھی مہنگا کرتے جائیں اور ساتھ ساتھ سب اچھا کی خبریں بھی چاہیں۔ میڈیا عوام کا نمایندہ ہے۔ جب میڈیا حکومت کا نمایندہ بن جائے تو وہ میڈیا نہیں رہتا۔
میں حیران ہوں حکو مت معاشی محاذ پر اتنے مشکل مسائل میں پھنسی ہوئی ہے، ایسے میں حکو مت کی ساری توجہ ای وی ایم مشینوں اور اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ پر کیسے اور کیوں ہے؟ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ جب لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں ، ایسے میں حکومت عوام کو ای وی ایم اور اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کا لالی پوپ دینا چاہتی ہے۔ کیا ای وی ایم اس مہنگائی کا متبادل ہو سکتا ہے، جب لوگ ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے تو ای وی ایم بھی فیل ہو جائے گی۔
اب نیب بھی لوگوں کی اولین ترجیح نہیں رہی ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ لوگ اب کرپشن کے راگ سے تنگ آگئے ہیں۔ جب اپنی جان کے لاے پڑ جائیں تو ایسے نعرے روٹی نہیں دیتے۔ عمران خان کا گلہ ہے کہ لوگ کرپشن کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ معاشرے میں کرپشن کے لیے قبولیت پیدا ہو گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے، یہ اپروچ غلط ہے، سچ یہ ہے کہ لوگ ان کی کرپشن تحریک سے مایوس ہوئے ہیں۔
لوگوں کو امید تھی کہ کرپشن کی تحریک کے نتیجے میں ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوںگی۔ لیکن اگر عوام کے لیے دن بدن مسائل بڑھیں گے تو وہ کیا سمجھیں۔ عمران خان کا نعرہ تھا کہ کرپشن ختم ہو گی تو مسائل حل ہوںگے، اب اگر تین سال میں مسائل حل ہونا تو دور کی بات ، ان کی جانب ایک قدم بھی اٹھتا نظر نہیں آرہا ہے، ایسے میں عام آدمی کے پاس کیا چوائس ہے؟ یہ کرپشن کی قبولیت نہیں ہے، یہ آپ پر عدم اعتماد ہے، آپ اس صورتحال کو غلط انداز سے بیان کر رہے ہیں۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ اگر انھوں نے عام آدمی کی زندگی میں مجموعی طور پر کوئی بہتری پیدا نہیں کی تو یہ ای وی ایم اور اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ بھی ان کا اقتدار بچا نہیں سکیں گے۔ کیا مہنگی ادویات خریدنے والے مجبور لوگوں کو ای وی ایم مطمئن کر سکتی ہے۔ آپ ہیلتھ کارڈ دے رہے ہیں اور ادویات مہنگی کرتے جائیں، لوگ کیا کریں، حکومت اگر ایک ہاتھ سے ریلیف دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لیتی جائے گی تو اس قسم کا ریلیف بھی گناہ بے لذت بن جاتا ہے۔
ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ عمران خان قبل از وقت انتخابات کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک وہ معاشی مسائل حل نہیں کرتے۔ مہنگائی کنٹرول نہیں کرتے۔ عام آدمی کو کچھ ریلیف نہیں دیتے، قبل از وقت انتخابات کا خان صاحب کو کم اور اپوزیشن کا زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں قبل از وقت انتخابات کوئی بہت اچھا آپشن نہیں ہے۔
حکومت اگر سردیوں میں گیس نہیں دے گی تو عام آدمی کے لیے بہت مشکلات ہوںگی۔ ایل پی جی بہت مہنگی ہے۔ گھر کا بجٹ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بجلی بھی مہنگی ہے۔ لوگ کیا کریں، کہاں جائیں۔ لوگ جب معاشی مسائل سے تنگ ہوں، تب سیاسی نعروں سے ان کا دل بہلایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے بے مقصد سیاسی نعروں سے توجہ معاشی مسائل کی طرف کریں، اسی میں عمران خان کی سیاسی بقا ہے ورنہ تمام سیاسی فتوحات معاشی مسائل کھا جائیں گے۔ یہی حقیقت ہے۔