کلوپیٹرا کون تھی
شیکسپئیر کی یہ رومان انگیز بلکہ کسی حد تک جنس زدہ عورت اصل میں ایک مجبورماں تھی اورمصر کی اصل بیٹی۔
یہ اگر اورمگر کا چکر بھی خوب ہے۔غالب نے کہاہے ،
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا پر یادآتاہے
جوہراک بات پر کہتاکہ یوں ہوتاتوکیاہوتا
اوریہی ہم بھی اکثر سوچتے ہیں کہ فلاں فلاں نہ ہوتاتو کیا ہوتا مثلاً پاکستان نہ ہوتا تو اتنے سارے احمق کہاں جاتے۔ایک دانادانشورنے لکھا ہے کہ اگر کلوپیٹرا کی ناک تھوڑی سی بڑی یا چھوٹی ہوتی تو جولیس سیزربھی پیدانہ ہوتا اورمارک انتھونی بھی بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اگر شیکسپیئر نہ ہوتا تو ایک بیچاری، دردوغم کی ماری عورت کوحسن وعشق اورحسن و رومان کااتنا بڑا سمبل کون بناتا۔
بات آگئی ہے توکلو پیٹراکے بارے میں بتا دیں کہ وہ ایک مظلوم بیٹی، مجبوربہن ایک محروم بیوی کے سواکچھ بھی نہیں تھی۔ شیکسپئرنے اپنی شاعرانہ موشگافیوں سے جو اسے کچھ بنایا ہے، وہ ایسی تھی نہیں۔ ایک عام سی عورت تھی۔ نہ اتنی خوب صورت تھی اورنہ ایسی چالاک بلکہ اصل میں وہ بے شمار مجبوریوں کی ماری ہوئی ایک بدنصیب عورت تھی ۔جب وہ چارہزارسالہ مصری سلطنت کے فراعین کے خاندانوں میں تیسویں اورآخری یونانی نژاد سلطنت کی آخری فروعنا بنی تو مصری دستورکے مطابق اس کی شادی اپنے کم عمربھائی سے ہوئی جو اس کے بیٹے کی عمر کایعنی اس سے تیرہ سال چھوٹا تھا اور یہیں سے ساری خرابی پیدا ہوئی اس بچے کاایک اتالیق اورحکیم اس کے سرپرست بن گئے اور نادان اور ناسمجھ بادشاہ ان کے لیے کٹھ پتلی بن گیا ۔
کلیوپیٹر زیرک، قابل اوردانا تھی اورحکمرانی کے لیے قابل ترجیح بھی تھی۔ کلو پیٹرا تاج شاہی سنبھالتی تو ایک طاقتورحکمران ہوتی جس کے سامنے وہ دونوں کچھ بھی نہ کرپاتے لیکن ایک نادان بچے کی حکومت میں اتالیق اور حکیم ہی سیاہ وسفید کے مالک ہوتے، چنانچہ انھوں نے بہن بھائی کے درمیان پھوٹ ڈالی ،سازشوں کے چال بننا شروع کیے یہاں تک کہ اسے قتل کرنے کافیصلہ کیاگیا لیکن وہ جان بچا کر رومی جرنیل جولیس سیزرکے پاس پہنچ گئی۔
یہیں پر شیکسپیئر نے وہ قالین کاقصہ ایجاد کیا ہے ، وہ آئی، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا لیکن ایسا کچھ نہ تھا۔جولیس سیزررومی سلطنت کے سینیٹ کاممبر اورایک طاقتور جرنیل تھا،عشق و رومان کااس میں کوئی دخل نہیں تھا بلکہ یہ سیاست تھی کہ رومی حکومت کاایک رکن اس سے شادی کرلیتا تو مصرکی عظیم سلطنت کافرعون بن کر اپنے رومی ساجھے داروں پر برتری حاصل کرلیتا۔ لیکن وہاں روم میں بھی اس کاحریف آگسٹس کوئی معمولی عیار اور سازشی نہیں تھا چنانچہ اس نے جولیس سیزرکا پتہ کاٹنے کے لیے مارک انتھونی کوبھیجا اورپھر ایک سازش کے تحت جولیس سیزرکوقتل بھی کردیاگیا۔
اب مصری قرب وجوار میں طاقتور رومی سلطنت کانمایندہ مارک انتھونی بن گیا۔ پھر اس مجبورعورت کلو پیٹرا نے اپنی حکومت اور خود کو بچانے کے لیے اس کاسہارا لیا لیکن جب مارک انتھونی بھی زیرعتاب آکر مارا گیایا اس نے خودکشی کرلی تو کلوپیٹرا کو بھی رومی افواج نے اسیرکرلیا۔کلوپیٹراکو معلوم تھا کہ رومی سلطنت کاارادہ کیا ہے، اسے سخت پہرے میں زندہ اس لیے رکھا جارہاتھا کہ اسے روم لے جاکر وہاں کے بازاروں میںپھرواکر رومی عوام کوبتایاجائے کہ دیکھو زبردست آگسٹس نے چار ہزار سالہ مصری حکومت کوفتح کرلیا ہے اوریہ قیدی اس سلطنت کی آخری فرعونا ہے۔
اب کلوپیٹراکے سامنے دوراستے تھے۔ ایک تو یہ کہ زندہ رہ کرعظیم مصرکی توہین وتضحیک کانمونہ بن جائے اورمصر کی تاریخ، قوم اورسلطنت کوساری دنیا میں رسوا کرے اوردوسرا یہ کہ مصر کی عزت و شوکت کو روم کے بازاروں میں رسوائی سے بچانے کے لیے جان دے دے اوراس نے یہ دوسرا راستہ چنا۔اس کلوپیٹرا نے اپنی عزت، اپنے خاندان کے وقار اورمصری خوداری کو بچانے کے لیے اپنی جان کانذرانہ دے دے ۔یہ بات آگسٹس بھی جانتا تھا، اس لیے اسے سخت پہرے اورنگرانی میں رکھا جارہا تھا کہ وہ خودکشی کرکے اس کی عظمت کے اس نادر موقع کوضایع نہ کردے ۔
اب انجیروں کی ٹوکری تو محض شیکسپیئر کے ذہن رسا کی تخلیق ہے لیکن بہرحال کسی بھی طرح اس نے خودکشی کی اورجان کانذرانہ دے کر مصر اورخودکو روم کے بازاروں میں رسوا ہونے سے بچالیا۔اگر وہ واقعی بدکردار عورت ہوتی تو آرام سے روم جاکر خود کو زندہ رکھتی بلکہ عین ممکن ہے کہ آگسٹس بھی اسے ملکہ بنا لیتا یااگروہ عیار، سازشی اور بے راہرو ہوتی تو کسی اورجرنیل یاعہدے دارکو بھی اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،جولیس سیزر اورمارک انتھونی کی بیوی وہ اس لیے بنی تھی کہ وہ دونوں مصرمیں تھے اوروہ ان کے ذریعے مصرکوبچا سکتی تھی لیکن اب جب کچھ بھی نہیں رہا توصرف رسوائی کے لیے اس نے زندہ رہنا پسند نہیں کیا۔
اس کے ساتھ ایک اوربڑا ظلم بھی ہواتھا جس کاذکر تاریخ میں نظر اندازکردیاجاتاہے، انتھونی سے اس کاایک بیٹا بھی تھاچنانچہ اس جگرگوشے کو بچانے کے لیے اس نے کچھ ''بااعتماد'' لوگوں کے ذریعے اسے مشرق میں بھیجنے کابندوبست کیااوران لوگوں کوبہت سار ی دولت بھی دی کہ اس کااکلوتا بیٹا کہیں دورکسی مشرقی ملک میں چلا جائے اورزندہ رہے لیکن ہمیشہ کی طرح وہ بااعتماد لوگ بے اعتماد ثابت ہوئے کہ وہ دولت تو انھوں نے ہتھیالی لیکن لڑکے کومار ڈالا ۔
یہ سب کچھ میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھا بلکہ تاریخ کے اس تار چڑھاؤ سے صاف پتہ چل جاتاہے کہ شیکسپئیر کی یہ رومان انگیز بلکہ کسی حد تک جنس زدہ عورت اصل میں ایک مجبورماں تھی اورمصر کی اصل بیٹی۔
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا پر یادآتاہے
جوہراک بات پر کہتاکہ یوں ہوتاتوکیاہوتا
اوریہی ہم بھی اکثر سوچتے ہیں کہ فلاں فلاں نہ ہوتاتو کیا ہوتا مثلاً پاکستان نہ ہوتا تو اتنے سارے احمق کہاں جاتے۔ایک دانادانشورنے لکھا ہے کہ اگر کلوپیٹرا کی ناک تھوڑی سی بڑی یا چھوٹی ہوتی تو جولیس سیزربھی پیدانہ ہوتا اورمارک انتھونی بھی بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اگر شیکسپیئر نہ ہوتا تو ایک بیچاری، دردوغم کی ماری عورت کوحسن وعشق اورحسن و رومان کااتنا بڑا سمبل کون بناتا۔
بات آگئی ہے توکلو پیٹراکے بارے میں بتا دیں کہ وہ ایک مظلوم بیٹی، مجبوربہن ایک محروم بیوی کے سواکچھ بھی نہیں تھی۔ شیکسپئرنے اپنی شاعرانہ موشگافیوں سے جو اسے کچھ بنایا ہے، وہ ایسی تھی نہیں۔ ایک عام سی عورت تھی۔ نہ اتنی خوب صورت تھی اورنہ ایسی چالاک بلکہ اصل میں وہ بے شمار مجبوریوں کی ماری ہوئی ایک بدنصیب عورت تھی ۔جب وہ چارہزارسالہ مصری سلطنت کے فراعین کے خاندانوں میں تیسویں اورآخری یونانی نژاد سلطنت کی آخری فروعنا بنی تو مصری دستورکے مطابق اس کی شادی اپنے کم عمربھائی سے ہوئی جو اس کے بیٹے کی عمر کایعنی اس سے تیرہ سال چھوٹا تھا اور یہیں سے ساری خرابی پیدا ہوئی اس بچے کاایک اتالیق اورحکیم اس کے سرپرست بن گئے اور نادان اور ناسمجھ بادشاہ ان کے لیے کٹھ پتلی بن گیا ۔
کلیوپیٹر زیرک، قابل اوردانا تھی اورحکمرانی کے لیے قابل ترجیح بھی تھی۔ کلو پیٹرا تاج شاہی سنبھالتی تو ایک طاقتورحکمران ہوتی جس کے سامنے وہ دونوں کچھ بھی نہ کرپاتے لیکن ایک نادان بچے کی حکومت میں اتالیق اور حکیم ہی سیاہ وسفید کے مالک ہوتے، چنانچہ انھوں نے بہن بھائی کے درمیان پھوٹ ڈالی ،سازشوں کے چال بننا شروع کیے یہاں تک کہ اسے قتل کرنے کافیصلہ کیاگیا لیکن وہ جان بچا کر رومی جرنیل جولیس سیزرکے پاس پہنچ گئی۔
یہیں پر شیکسپیئر نے وہ قالین کاقصہ ایجاد کیا ہے ، وہ آئی، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا لیکن ایسا کچھ نہ تھا۔جولیس سیزررومی سلطنت کے سینیٹ کاممبر اورایک طاقتور جرنیل تھا،عشق و رومان کااس میں کوئی دخل نہیں تھا بلکہ یہ سیاست تھی کہ رومی حکومت کاایک رکن اس سے شادی کرلیتا تو مصرکی عظیم سلطنت کافرعون بن کر اپنے رومی ساجھے داروں پر برتری حاصل کرلیتا۔ لیکن وہاں روم میں بھی اس کاحریف آگسٹس کوئی معمولی عیار اور سازشی نہیں تھا چنانچہ اس نے جولیس سیزرکا پتہ کاٹنے کے لیے مارک انتھونی کوبھیجا اورپھر ایک سازش کے تحت جولیس سیزرکوقتل بھی کردیاگیا۔
اب مصری قرب وجوار میں طاقتور رومی سلطنت کانمایندہ مارک انتھونی بن گیا۔ پھر اس مجبورعورت کلو پیٹرا نے اپنی حکومت اور خود کو بچانے کے لیے اس کاسہارا لیا لیکن جب مارک انتھونی بھی زیرعتاب آکر مارا گیایا اس نے خودکشی کرلی تو کلوپیٹرا کو بھی رومی افواج نے اسیرکرلیا۔کلوپیٹراکو معلوم تھا کہ رومی سلطنت کاارادہ کیا ہے، اسے سخت پہرے میں زندہ اس لیے رکھا جارہاتھا کہ اسے روم لے جاکر وہاں کے بازاروں میںپھرواکر رومی عوام کوبتایاجائے کہ دیکھو زبردست آگسٹس نے چار ہزار سالہ مصری حکومت کوفتح کرلیا ہے اوریہ قیدی اس سلطنت کی آخری فرعونا ہے۔
اب کلوپیٹراکے سامنے دوراستے تھے۔ ایک تو یہ کہ زندہ رہ کرعظیم مصرکی توہین وتضحیک کانمونہ بن جائے اورمصر کی تاریخ، قوم اورسلطنت کوساری دنیا میں رسوا کرے اوردوسرا یہ کہ مصر کی عزت و شوکت کو روم کے بازاروں میں رسوائی سے بچانے کے لیے جان دے دے اوراس نے یہ دوسرا راستہ چنا۔اس کلوپیٹرا نے اپنی عزت، اپنے خاندان کے وقار اورمصری خوداری کو بچانے کے لیے اپنی جان کانذرانہ دے دے ۔یہ بات آگسٹس بھی جانتا تھا، اس لیے اسے سخت پہرے اورنگرانی میں رکھا جارہا تھا کہ وہ خودکشی کرکے اس کی عظمت کے اس نادر موقع کوضایع نہ کردے ۔
اب انجیروں کی ٹوکری تو محض شیکسپیئر کے ذہن رسا کی تخلیق ہے لیکن بہرحال کسی بھی طرح اس نے خودکشی کی اورجان کانذرانہ دے کر مصر اورخودکو روم کے بازاروں میں رسوا ہونے سے بچالیا۔اگر وہ واقعی بدکردار عورت ہوتی تو آرام سے روم جاکر خود کو زندہ رکھتی بلکہ عین ممکن ہے کہ آگسٹس بھی اسے ملکہ بنا لیتا یااگروہ عیار، سازشی اور بے راہرو ہوتی تو کسی اورجرنیل یاعہدے دارکو بھی اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،جولیس سیزر اورمارک انتھونی کی بیوی وہ اس لیے بنی تھی کہ وہ دونوں مصرمیں تھے اوروہ ان کے ذریعے مصرکوبچا سکتی تھی لیکن اب جب کچھ بھی نہیں رہا توصرف رسوائی کے لیے اس نے زندہ رہنا پسند نہیں کیا۔
اس کے ساتھ ایک اوربڑا ظلم بھی ہواتھا جس کاذکر تاریخ میں نظر اندازکردیاجاتاہے، انتھونی سے اس کاایک بیٹا بھی تھاچنانچہ اس جگرگوشے کو بچانے کے لیے اس نے کچھ ''بااعتماد'' لوگوں کے ذریعے اسے مشرق میں بھیجنے کابندوبست کیااوران لوگوں کوبہت سار ی دولت بھی دی کہ اس کااکلوتا بیٹا کہیں دورکسی مشرقی ملک میں چلا جائے اورزندہ رہے لیکن ہمیشہ کی طرح وہ بااعتماد لوگ بے اعتماد ثابت ہوئے کہ وہ دولت تو انھوں نے ہتھیالی لیکن لڑکے کومار ڈالا ۔
یہ سب کچھ میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھا بلکہ تاریخ کے اس تار چڑھاؤ سے صاف پتہ چل جاتاہے کہ شیکسپئیر کی یہ رومان انگیز بلکہ کسی حد تک جنس زدہ عورت اصل میں ایک مجبورماں تھی اورمصر کی اصل بیٹی۔