ایران جوہری معاہدے کی بحالی
جوہری معاملے پر ایران، امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان وسیع خلیج اب بھی باقی ہے
ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں اس وقت ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں اور اس تاریخی معاہدے کی بحالی میں مدد کےلیے تمام فریقین کی جانب سے سفارتی تدابیر اور دور اندیشی کی ضرورت ہوگی۔
ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار اس وقت معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کے ساتھ تبادلہ خیال کےلیے یورپ کا دورہ کررہے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکا کے مابین بالواسطہ مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے ہیں۔
جہاں تک فریقین کے درمیان اعتماد بحال کرنے کا تعلق ہے، آنے والے چند ہفتے بہت اہم ہوں گے۔ تاہم، جوہری معاملے پر ایران اور امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان ایک وسیع خلیج اب بھی باقی ہے جو پی فائیو پلس ون گروپ بناتی ہے، جس میں روس اور چین بھی مذکورہ جوہری مسئلے پر اس گروپ میں شامل ہیں۔ تہران اپنے اوپر سے نا صرف تمام پابندیاں اٹھوانا چاہتا ہے بلکہ وہ اس بات کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ امریکا دوبارہ اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا جیسا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کیا تھا۔ اس کے باوجود مغربی بلاک کے اشارے زیادہ مثبت دکھائی نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ اسرائیل کی جانب سے لاپرواہی سے بات چیت کے تمام امکانات کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔ مثال کے طور پر، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں کہا گیا ہے کہ ان کی افواج ''ایران اور فوجی جوہری خطرے سے نمٹنے کےلیے تیار ہیں''۔
اس طرح کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے معاہدے کے مستقل طور پر نا صرف دم توڑنے کا خطرہ ہے، بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہوگا۔
اس لیے اگر صدر جوبائیڈن معاہدے کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ان کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایرانیوں کو دکھائیں کہ وہ اس بار نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سمت میں سب سے اہم قدم ان پابندیوں کو ہٹانا ہوگا جو ماضی میں اسے اس کے ہائیڈرو کاربن برآمد کرنے سے روک کر ایرانی معیشت کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہوئی ہیں، اور اس کے نتیجے میں ملک کے عوام کو لامتناہی مصائب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اسی طرح تہران کو بھی اس طرح کے اقدامات کا مثبت جواب دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی تباہ حال معیشت کو دوبارہ تعمیر کرسکے اور اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرسکے۔
تاہم اگر مغربی بلاک ایک بار پھر راہِ فرار اختیار کرتا ہے تو ایران میں قدامت پسندوں کی قیادت پر مشتمل حکومت کا اپنے موقف کو مزید سخت کرنے کا امکان ہے۔ اس سے خطے میں معاملات مزید پیچیدہ ہوں گے۔ لہٰذا جوہری مذاکرات شروع ہونے سے پہلے بائیڈن انتظامیہ کو مدبرانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے اور اعتماد سازی کے اقدامات متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز اسے اسرائیل کو مذاکرات کی فضا کو خراب کرنے سے بھی روکنا ہوگا۔ لہٰذا فوری طور پر تل ابیب کو ایک واضح پیغام بھیجا جانا چاہیے کہ عالمی برادری ایسی کسی بھی مہم جوئی کو برداشت نہیں کرے گی جس سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کے امکانات ہوں اور مشرق وسطیٰ کو آگ لگنے کا خطرہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار اس وقت معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کے ساتھ تبادلہ خیال کےلیے یورپ کا دورہ کررہے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکا کے مابین بالواسطہ مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے ہیں۔
جہاں تک فریقین کے درمیان اعتماد بحال کرنے کا تعلق ہے، آنے والے چند ہفتے بہت اہم ہوں گے۔ تاہم، جوہری معاملے پر ایران اور امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان ایک وسیع خلیج اب بھی باقی ہے جو پی فائیو پلس ون گروپ بناتی ہے، جس میں روس اور چین بھی مذکورہ جوہری مسئلے پر اس گروپ میں شامل ہیں۔ تہران اپنے اوپر سے نا صرف تمام پابندیاں اٹھوانا چاہتا ہے بلکہ وہ اس بات کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ امریکا دوبارہ اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا جیسا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کیا تھا۔ اس کے باوجود مغربی بلاک کے اشارے زیادہ مثبت دکھائی نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ اسرائیل کی جانب سے لاپرواہی سے بات چیت کے تمام امکانات کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔ مثال کے طور پر، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں کہا گیا ہے کہ ان کی افواج ''ایران اور فوجی جوہری خطرے سے نمٹنے کےلیے تیار ہیں''۔
اس طرح کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے معاہدے کے مستقل طور پر نا صرف دم توڑنے کا خطرہ ہے، بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہوگا۔
اس لیے اگر صدر جوبائیڈن معاہدے کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ان کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایرانیوں کو دکھائیں کہ وہ اس بار نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سمت میں سب سے اہم قدم ان پابندیوں کو ہٹانا ہوگا جو ماضی میں اسے اس کے ہائیڈرو کاربن برآمد کرنے سے روک کر ایرانی معیشت کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہوئی ہیں، اور اس کے نتیجے میں ملک کے عوام کو لامتناہی مصائب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اسی طرح تہران کو بھی اس طرح کے اقدامات کا مثبت جواب دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی تباہ حال معیشت کو دوبارہ تعمیر کرسکے اور اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرسکے۔
تاہم اگر مغربی بلاک ایک بار پھر راہِ فرار اختیار کرتا ہے تو ایران میں قدامت پسندوں کی قیادت پر مشتمل حکومت کا اپنے موقف کو مزید سخت کرنے کا امکان ہے۔ اس سے خطے میں معاملات مزید پیچیدہ ہوں گے۔ لہٰذا جوہری مذاکرات شروع ہونے سے پہلے بائیڈن انتظامیہ کو مدبرانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے اور اعتماد سازی کے اقدامات متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز اسے اسرائیل کو مذاکرات کی فضا کو خراب کرنے سے بھی روکنا ہوگا۔ لہٰذا فوری طور پر تل ابیب کو ایک واضح پیغام بھیجا جانا چاہیے کہ عالمی برادری ایسی کسی بھی مہم جوئی کو برداشت نہیں کرے گی جس سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کے امکانات ہوں اور مشرق وسطیٰ کو آگ لگنے کا خطرہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔