ٹیکس دینا پڑے گا
مختلف سرکاری ٹیکسوں میں جکڑے عوام کو سرکاری طور پر معیاری تعلیم اور بہتر طبی سہولتیں میسر نہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ٹیکس لینا حکومت کا حق ہے ، اس لیے تاجروں سمیت تمام لوگوں کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں صرف دو ٹیکس ہوں گے اور باقی ختم کردیے جائیں گے، ایف بی آر کے پراسسنٹ کو ختم کردیا ہے اور ٹیکس کے نظام کو سہل کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان بھی کہتے آ رہے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور سہولیات مانگتے ہیں اور ٹیکس دیے بغیر ریاست مدینہ چاہتے ہیں مگر حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت وہ وفاقی ہو یا صوبائی لاتعداد ٹیکس مختلف طریقوں سے عوام سے وصول کرتی آ رہی ہے اور ملک میں بچوں کے کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے سیلز ٹیکس ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی سمیت کھانے پینے کی اشیا، پٹرولیم مصنوعات، بجلی وگیس اور سرکاری ٹی وی پر بھی جبری ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
دونوں حکومتیں جائیدادوں کی خرید و فروخت اور ٹرانسفر تک پر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ حکومت کے ہوش ربا ٹیکس بھی ہیں اور یہی حال بجلی و گیس کے استعمال پر عائد ٹیکسوں کا ہے اور ان تینوں پر عائد مختلف ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور حکومت ان تینوں اہم ضروری اشیا کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے اور آئے دن ان تینوں پر ٹیکس بڑھا کر عوام کو خود سے بدظن کر رہی ہے اور عوام سے جبری طور پر وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کے ذریعے اپنی کابینہ کو پال اور اپنوں کو مسلسل نواز رہی ہے۔
بزرگوں اور بچت کرنے والوں کی کچھ اضافی آمدنی کا ذریعہ بینک، نیشنل سیونگ سینٹر اور پوسٹ آفس بینک ہیں جہاں شرح منافع بے حد کم کردیا گیا ہے۔ عام بینکوں میں جمع کرائے گئے سیونگ اکاؤنٹس پر مقررہ شرح منافع کے مقابلے میں بینکوں کی اسلامی برانچوں میں شرح منافع مقرر نہیں بلکہ مقررہ طریقوں کے مطابق کم اور ہر ماہ تبدیل ہونے والے منافع کو بھی حکومت نہیں بخش رہی بلکہ شرعی منافع پر بھی حکومت نے ٹیکس عائد کر رکھا ہے۔ کھانے پینے کے علاوہ گھروں اور عام زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیا پر بھی حکومت خریداری کے وقت ہی ٹیکس وصول کرلیتی ہے۔
خریداری کے وقت ہی لوگ جو ٹیکس ادا کردیتے ہیں وہ حکومت تک مکمل پہنچ رہا ہے یا نہیں اس کا عوام کو تو پتا نہیں کیونکہ یہ اشیا تیار کرنے والے نجی ادارے متعلقہ سرکاری محکموں کی ملی بھگت سے کتنی فروخت کم دکھا کر ٹیکس بچاتے ہیں۔ اس سے حکومت بھی بے خبر ہے اور نجی ادارے متعلقہ افسروں کو مقررہ رشوت دے کر حکومت کو ٹیکس چوری کی مد میں بڑا مالی نقصان پہنچاتے آ رہے ہیں اور عوام کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ وہ تو ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جس سے وزیر اعظم بے خبر ہیں۔
وزیر اعظم ہاؤس اور ان کے گھر آنے والی پیک اشیا پر بنانے والوں کی مقررہ قیمت کے ساتھ عائد سرکاری سیلز ٹیکس کی رقم بھی درج ہوتی ہے جس پر حکمرانوں کی نظر نہیں پڑتی کیونکہ یہ رقم حکمرانوں کی جیب سے جائے تو انھیں پتا چلے۔
نہانے اور منہ ہاتھ دھونے کے صابن سے برتن دھونے اور کپڑے دھونے کے پاؤڈر تک پر لوگ حکومت کو ٹیکس دے رہے ہیں اور اگر کوئی یہ ٹیکس نہیں دے رہا یا کم دے رہا ہے تو وہ لوگ عوام نہیں بلکہ کارخانہ دار اور تاجر ہیں جو سرکاری ملی بھگت سے ٹیکس چراتے اور غلط حکومتی پالیسی پر حکومت کو بلیک میل کرتے اور پھر فائدے اٹھاتے آ رہے ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں نہ وہ ٹیکسوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
کپڑے وہ برتن دھونے کے صابن اور پاؤڈر عیاشی نہیں مجبوری ہے گھریلو ضرورت ہے۔ برتن دھونے کے صابن کے پیک جس کی قیمت 71 روپے ہے اس پر سیلز ٹیکس 12 روپے سمیت 83 روپے نقد ادا کرکے عوام پہلے ہی ٹیکس ادا کردیتے ہیں اور الزام عوام پر لگایا جا رہا ہے کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
یہ درست کہ ٹیکسوں کے بغیر ملک نہیں چلتے اور قومی خزانہ ہمیشہ عوام کے ٹیکسوں سے بھرتا ہے جس سے حکومتی اخراجات تنخواہیں ادا ہونے کے بعد باقی رقم عوامی سہولیات کے لیے وقف ہوتی ہیں اور تعمیری و ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں مگر تبدیلی حکومت میں بھی یہ رقم عوامی فلاح و بہبود کی بجائے سرکاری عیاشی پر خرچ ہو رہی ہے۔
مختلف سرکاری ٹیکسوں میں جکڑے عوام کو سرکاری طور پر معیاری تعلیم اور بہتر طبی سہولتیں میسر نہیں جب کہ ٹیکس لے کر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کا فرض ہے عوام پر احسان نہیں یہ فلاحی کام عوام سے مخلص ہر عوام دوست حکومت اپنے عوام کو فراہم کرتی ہے مگر پاکستان میں حکومتیں ایسا نہیں کر رہیں اور کہتی آ رہی ہیں کہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ سہولتیں نہیں ملیں گی اور اگر نہ دیا تو قانونی کارروائی ہوگی اور عوام کو آئے دن ٹیکس بڑھنے کے سرکاری جھٹکے بھی برداشت کرنا ہوں گے۔