یہ تھے ریاستِ مدینہ کے حکمران
ہمارے حکمرانوں کو بس اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور آیندہ کے انتخابات بھی اپنے حق میں رکھنے کا جنوں ہے
''حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بوقتِ وصال پوچھا: '' مجھے خلیفہ ہونے سے اب تک بیت المال سے کتنا وظیفہ ملا ہے ؟ حساب کرکے بتایا گیا کہ چھ ہزار درہم۔ آپ نے حکم دیا کہ میری فلاں زمین فروخت کرکے یہ روپیہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے ۔پھر فرمایا:اس دوران میرے مال میں کس قدر اضافہ ہُوا ہے ؟ معلوم ہُوا کہ (1) ایک حبشی غلام جو بچوں کو کھلاتا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی تلواروں پر صیقل کرتا ہے(2) ایک اونٹنی جس پر پانی لایا جاتا ہے (3) ایک چادر جو چند درہم مالیت کی تھی ۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حکم فرمایا کہ میری وفات کے بعد یہ تینوں چیزیں خلیفہ وقت کی خدمت میں بھیج دی جائیں ۔ (آپ کی وفات کے بعد) جب اس حکم کی تعمیل میں یہ چیزیں حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمت میں پہنچیں تو وہ رو پڑے اور فرمانے لگے : ابوبکر ، آپ اپنے جانشینوں کے لیے کام بہت دشوار کر گئے ہیں۔''(بحوالہ مقدمہ سیرۃ الرسولﷺ۔ حصہ دوم۔ از ڈاکٹر محمد طاہر القادری ۔ صفحہ 345)اِسی تصنیف کے صفحہ 349پر ایک واقعہ سیدنا حضرت علیؓ کے حوالے سے یوں رقم کیا گیا ہے :'' حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے بیعتِ خلافت کے بعد اپنے خطبہ میں یوں ارشاد فرمایا:''لوگو، مَیں صرف ایک شرط پر تمہارا خلیفہ بنوں گا کہ تمہارے خزانے کی چابیاں اگرچہ میرے قبضہ میں ہوں گی لیکن مَیں تمہاری رضا مندی کے بغیر اس میں سے ایک درہم بھی نہ لُوں گا۔'' یہ تھے ریاستِ مدینہ کے عظیم الشان اور عظیم المرتبت حکمران اور اُن کا قابلِ فخر کردار۔ آج ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی ملک کو ''ریاستِ مدینہ '' بنانے کا اعلان کرتے نظر آ رہے ہیں۔
انھوں نے ملک میں رحمت للعالمینؐ اتھارٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔اُن کے وزیر مذہبی امور جناب نور الحق قادری نے بھی ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے اپنے وزیر اعظم کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ''90سال بعد کسی شخص نے پاکستان کے نظام کے لیے ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا ہے'' لیکن کیا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر قوم کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا واقعات کے عشر عشیر پر بھی ہمارے یہ حکمران عمل کرنے کی ہمت اور نیت رکھتے ہیں؟۔
ہمارے آج کے مرکزی حکمران چند ''شیلٹر ہومز'' اور کچھ ''لنگر خانے '' بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم ریاستِ مدینہ پر عمل پیرا ہیں ۔ہم مگر جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے فیصلوں اور نقوشِ قدم دیکھتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ تھا ریاستِ مدینہ کے ایک حکمران کا نقشہ ۔ آپ نے اُموی خلیفہ بنتے ہی اپنے سبھی گورنروں کے نام یکساںاحکام بھیجے۔گورنر سلیمان بن ابی السریٰ کو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے لکھا:'' تم مسافر خانے بنواؤ۔
جو مسلمان ادھر سے گزرے، اس کو ایک دن اور ایک رات مہمان ٹھہراؤ۔اس کو کھانا کھلاؤ، اس کی سواری کے چارے کا بندوبست کرو۔اگر مسافر مریض ہو تو اس کے علاج ومعالجے کی طرف توجہ دو اور سرکاری خرچ پر اس کو اس کے گھر پہنچانے کا بندوبست کرو۔'' اور ہمارے آج کے حکمرانوں نے مسافروں کو تو خیر علاج معالجے کی کیا سرکاری سہولت فراہم کرنی ہے ، عام پاکستانی شہری کو بھی طبی سہولتوں سے محروم کررکھا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ہمارے موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے قصے تو عوام کو بہت سنائے اورمتعدد اعلانات بھی کیے کہ لُوٹی رقوم ہر صورت میں واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرواؤں گا۔ہُوا مگر کیا؟ جواب ہم سب کے سامنے ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے مگر جب سابقہ کرپٹ حکمرانوں سے لُوٹی گئی سرکاری رقوم نکلوانے کا اعلان کیا تو اس پر کامیابی سے عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ خراسان کے گورنر، یزید بن مہلب، کے ذمے حکومت کی ایک گراں قدر رقم وجب الادا تھی۔آپ نے اُسے دربارِ خلافت میں طلب کر کے اس سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اُس نے مگررقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے گورنر یزید بن مہلب سے کہا: ''اگر تم نے واجب الادا رقم بیت المال میں جمع نہ کرائی تو تجھے قید کر دیا جائے گا۔ یہ مسلمانوں کا حق ہے اور میں اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا''۔ اور جب گورنر نے ٹال مٹول کیا تو یزید بن مہلب کو جیل خانے بھجوا دیا گیا۔
یزید بن مہلب کے بیٹے ،مخلد، کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی جیل سے رہائی کامطالبہ کیا۔عمر بن عبدالعزیز ؒنے فرمایا: ''میں جب تک تمھارے والد سے حکومت کی ایک ایک کوڑی نہ وصول کر لوں گا ،تمھارے والد کو نہ چھوڑوں گا کیونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے''(بحوالہ ،عالمی ترجمان القرآن۔جنوری 2020۔ صفحہ45) حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے خلفا، جب عشاء اور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جاتے تھے تو ایک آدمی شمع لے کر ساتھ چلتا تھا اور شمع کا خرچہ بیت المال پر پڑتا تھا۔
جمعہ کے دن اور رمضان کے مہینے میں مساجد میں خوشبو سلگائی جاتی تھی اور اس کے مصارف بھی بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے۔ آپ نے(اسلامی ریاست کی خاطر) فوراً یہ سلسلہ بالکل بند کردیا۔ ریاستِ مدینہ کی اصل تاریخ کو پیشِ نگاہ رکھتے ہُوئے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔اس لیے بھی کہ وہ اسلامی ریاست کے ایک ایک روپے کے ذمے دار اور امین بنائے گئے تھے۔اور ہمارے حکمرانوں کا احوال یہ ہے کہ توشہ خانے کا حساب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو بس اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور آیندہ کے انتخابات بھی اپنے حق میں رکھنے کا جنوں ہے۔ دو روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکمرانوں نے طاقت اور دھونس کی اساس پر جو کھیل کھیلا ہے، اس سے بھی ایک بار پھر عیاں ہو گیا ہے کہ ہمارے اصل حکمران چاہتے کیا ہیں؟ کیا ایسی مقتدر ترین سیاسی اشرافیہ سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ریاستِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چلیں گے ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے اپنی تصنیف ''مقدمہ سیرۃ الرسولﷺ۔ حصہ دوم ۔ صفحہ 357پر اصل ریاستِ مدینہ کے بے مثال حکمران سیدنا عمر فاروق ؓ کے حوالے سے جو ایمان افروز واقعہ لکھا ہے، ضرورت مند عوام کی اعانت کے لیے کیا ہمارے وزیر اعظم اس پر عمل کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟واقعہ یوں ہے: ''قحط کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمرؓ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ہاتھ میں لاٹھی لیے گشت کررہے تھے کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ ؓ نے اُس سے کہا: اے بندئہ خدا، دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔اُس نے جواب دیا: اے بندئہ خدا، وہ مشغول ہے۔
حضرت عمر ؓ آگے بڑھ گئے۔جب دوبارہ وہاں سے گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے بھی وہی جواب دیا۔ جب تین بار اُس شخص نے یہی جواب دیا تو آپ ؓ نے پوچھا کہ تیرا دایاں ہاتھ کس کام میں مشغول ہے؟ اُس نے جواب دیاکہ(جنگِ) موتہ کی لڑائی میں کام آگیا۔ یہ سُن کر آپ ؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں وضو کون کرواتا ہے ؟ تمہارا سر کون دھوتا ہے؟ کپڑے کون دھوتا ہے ؟ فلاں فلاں کام کون کرتا ہے ؟ پھر آپ ؓ نے اُس کے لیے ایک ملازم لگوایا، اُسے ایک سواری دلوائی اور دوسرے سامانِ ضرورت بھی دیے ۔'' جنابِ وزیر اعظم، یہ تھی ریاستِ مدینہ اور یہ تھے ریاستِ مدینہ کے حکمران۔