مؤذن کی فضیلت و اہمیت
اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے
اذان، لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کے لیے چند مخصوص الفاظ کے دُہرانے کو اذان کہا جاتا ہے۔
اذان کی مشروعیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقاتِ نماز کی اطلاع ہوجایا کرے، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کرسکیں۔ چناں چہ بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کردی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہوجایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ناقوس بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے وغیرہ۔
چناں چہ صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہییں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے، بل کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے!
بات معقول تھی، اس لیے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوگئی اور صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فکر و پریشانی دُور ہوجائے، چناں چہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آکر سوگئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہوکر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ! یہ خواب سچا ہے۔ اور فرمایا: ''بلال رضی اﷲ عنہ کو اپنے ہم راہ لو اور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کیے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔''
(مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف)
چناں چہ جب حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ دوڑتے آئے اور عرض کیا: ''یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ابھی جو کلمات ادا کیے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں۔ یہ سن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ بہ ہر حال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اﷲ بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما کا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔
اِس میں شک نہیں کہ اذان اﷲ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم اور اہم ترین ذکر ہے، جس میں اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتا ہے، لوگوں کو کام یابی و کام رانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔ چناں چہ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ مؤذن ہوں گے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ ''(صحیح بخاری)
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (زاید اُس کے اعمال میں) اُس کے لیے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں۔''(احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص (مزدوری اور اُجرت کی لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیّت سے سات سال تک اذان دے تو اُس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔'' (ترمذی و ابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہادی عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، پس اﷲ عزوجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں: ''میرے اِس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا۔'' (ابو داؤد، نسائی)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب مؤذن ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان محمد رسول اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان محمد رسول اﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الصلوٰۃ'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولا قوۃ الا باﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الفلاح'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولاقوۃ الا باﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر' کہے، پھر جب مؤذن ''لا الٰہ الا اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''لا الٰہ الا اﷲ'' کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنّت میں داخل ہوگا۔'' (صحیح مسلم)
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اُس کے بدلے میں دس مرتبہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے، پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اﷲ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے ، جو اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دُعا کرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''قیامت کے دن تین آدمی مُشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اﷲ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اذان کہتا ہو۔'' (جامع ترمذی)
اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کے لیے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیرے میں جاکر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اﷲ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام پانچ مرتبہ نماز کی طرف اور کام یابی و کام رانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اذان کی مشروعیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقاتِ نماز کی اطلاع ہوجایا کرے، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کرسکیں۔ چناں چہ بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کردی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہوجایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ناقوس بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے وغیرہ۔
چناں چہ صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہییں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے، بل کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے!
بات معقول تھی، اس لیے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوگئی اور صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فکر و پریشانی دُور ہوجائے، چناں چہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آکر سوگئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہوکر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ! یہ خواب سچا ہے۔ اور فرمایا: ''بلال رضی اﷲ عنہ کو اپنے ہم راہ لو اور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کیے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔''
(مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف)
چناں چہ جب حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ دوڑتے آئے اور عرض کیا: ''یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ابھی جو کلمات ادا کیے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں۔ یہ سن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ بہ ہر حال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اﷲ بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما کا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔
اِس میں شک نہیں کہ اذان اﷲ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم اور اہم ترین ذکر ہے، جس میں اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتا ہے، لوگوں کو کام یابی و کام رانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔ چناں چہ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ مؤذن ہوں گے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ ''(صحیح بخاری)
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (زاید اُس کے اعمال میں) اُس کے لیے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں۔''(احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص (مزدوری اور اُجرت کی لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیّت سے سات سال تک اذان دے تو اُس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔'' (ترمذی و ابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہادی عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، پس اﷲ عزوجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں: ''میرے اِس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا۔'' (ابو داؤد، نسائی)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب مؤذن ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان محمد رسول اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان محمد رسول اﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الصلوٰۃ'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولا قوۃ الا باﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الفلاح'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولاقوۃ الا باﷲ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اﷲ اکبر، اﷲ اکبر' کہے، پھر جب مؤذن ''لا الٰہ الا اﷲ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''لا الٰہ الا اﷲ'' کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنّت میں داخل ہوگا۔'' (صحیح مسلم)
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اُس کے بدلے میں دس مرتبہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے، پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اﷲ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے ، جو اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دُعا کرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''قیامت کے دن تین آدمی مُشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اﷲ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اذان کہتا ہو۔'' (جامع ترمذی)
اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کے لیے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیرے میں جاکر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اﷲ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام پانچ مرتبہ نماز کی طرف اور کام یابی و کام رانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔