’چٹکی بجانا‘ انسانی جسم کی سب سے تیز رفتار صلاحیت قرار
صرف سات ملی سیکنڈ میں چٹکی ہتھیلی تک پہنچتی ہے جو پلک جھپکانے سے بھی تیز عمل ہے
RAWALPINDI:
چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل ہونے کا محاورہ ہم اکثر سنتے ہیں لیکن سائنسی تحقیق کی رو سے انسانی جسم سے انجام دیا جانے والا یہ سب سے تیز رفتار عمل بھی ہے۔
جارجیا ٹیک کے طالب علم راگھیو اچاریہ اور دیگر نے یہ تحقیق کی ہے جس کا احوال رائل سوسائٹی انٹرفیس کے جرنل میں شائع کیا ہے۔ اس تحقیق میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے چٹکی بجانے کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس کی طبیعیات کو نئے سرے سے کھوجا ہے۔
تحقیق کے مطابق چٹکی بجانے کے عمل کو یوں سمجھیے کہ اس کا اسراع (ایسلریشن) اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ چٹکی کا انگوٹھا صرف سات ملی سیکنڈ میں ہتھیلی کو چھولیتا ہے جو پلک جھپکانے سے بھی تیزعمل ہے۔
ماہرین کے مطابق انگلی اور انگوٹھے کے بیرونی جلد کی درمیانے درجے کی رگڑ (فرکشن) سے چٹکی کی آواز پیدا ہوتی ہے لیکن اس عمل میں گھماؤ کا اسراع خود بیس بال بلے باز سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس مشاہدے سے مصنوعی ہاتھوں اور بازؤں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح وہ انسانی ہاتھوں سے مزید قریب ہوسکیں گے۔
تحقیق میں شامل سائنس داں سعد بھملا نے بتایا کہ یہ تحقیق روزمرہ کی سائنس اور انسانی تجسس کو بھی ظاہر کرتی ہے جس سے دریافت کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق چٹکی بجانے کا عمل بہت ہی تیزا ور حیران کن ہے جس میں انسان توانائی جمع کرکے فوری طور پرریلیز کرتا ہے اور یوں چٹکی بجانے کی آواز آتی ہے۔
سائنس دانوں نے انتہائی تیزعکس نگاری، خودکار امیج پروسیسنگ، ڈائنامک فورس سینسر اور دیگر ٹیکنالوجی سے چٹکی بجانے کے عمل کو دیکھا اور سمجھا۔ اس کے علاوہ انگلیوں کی رگڑ کو سمجھنے کے لیے ان پر پلاسٹک اور دھات وغیرہ بھی لگائی گئی۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ عام حالات میں چٹکی بجانے کے عمل میں روٹیشنل ولاسٹی 7800 ڈگری فی سیکنڈ اور روٹیشنل ایسلریشن 16 لاکھ ڈگری فی مربع سیکنڈ ہوتا ہے۔ یعنی صرف سات ملی سیکنڈ میں ان انگوٹھا پھسل کر ہتھیلی پر جالگتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس عمل سے مزید تحقیق اور ٹیکنالوجی کی راہ ہموار ہوگی۔
چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل ہونے کا محاورہ ہم اکثر سنتے ہیں لیکن سائنسی تحقیق کی رو سے انسانی جسم سے انجام دیا جانے والا یہ سب سے تیز رفتار عمل بھی ہے۔
جارجیا ٹیک کے طالب علم راگھیو اچاریہ اور دیگر نے یہ تحقیق کی ہے جس کا احوال رائل سوسائٹی انٹرفیس کے جرنل میں شائع کیا ہے۔ اس تحقیق میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے چٹکی بجانے کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس کی طبیعیات کو نئے سرے سے کھوجا ہے۔
تحقیق کے مطابق چٹکی بجانے کے عمل کو یوں سمجھیے کہ اس کا اسراع (ایسلریشن) اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ چٹکی کا انگوٹھا صرف سات ملی سیکنڈ میں ہتھیلی کو چھولیتا ہے جو پلک جھپکانے سے بھی تیزعمل ہے۔
ماہرین کے مطابق انگلی اور انگوٹھے کے بیرونی جلد کی درمیانے درجے کی رگڑ (فرکشن) سے چٹکی کی آواز پیدا ہوتی ہے لیکن اس عمل میں گھماؤ کا اسراع خود بیس بال بلے باز سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس مشاہدے سے مصنوعی ہاتھوں اور بازؤں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح وہ انسانی ہاتھوں سے مزید قریب ہوسکیں گے۔
تحقیق میں شامل سائنس داں سعد بھملا نے بتایا کہ یہ تحقیق روزمرہ کی سائنس اور انسانی تجسس کو بھی ظاہر کرتی ہے جس سے دریافت کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق چٹکی بجانے کا عمل بہت ہی تیزا ور حیران کن ہے جس میں انسان توانائی جمع کرکے فوری طور پرریلیز کرتا ہے اور یوں چٹکی بجانے کی آواز آتی ہے۔
سائنس دانوں نے انتہائی تیزعکس نگاری، خودکار امیج پروسیسنگ، ڈائنامک فورس سینسر اور دیگر ٹیکنالوجی سے چٹکی بجانے کے عمل کو دیکھا اور سمجھا۔ اس کے علاوہ انگلیوں کی رگڑ کو سمجھنے کے لیے ان پر پلاسٹک اور دھات وغیرہ بھی لگائی گئی۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ عام حالات میں چٹکی بجانے کے عمل میں روٹیشنل ولاسٹی 7800 ڈگری فی سیکنڈ اور روٹیشنل ایسلریشن 16 لاکھ ڈگری فی مربع سیکنڈ ہوتا ہے۔ یعنی صرف سات ملی سیکنڈ میں ان انگوٹھا پھسل کر ہتھیلی پر جالگتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس عمل سے مزید تحقیق اور ٹیکنالوجی کی راہ ہموار ہوگی۔