سیاسی مکالمہ کی اشد ضرورت

ملکی سیاسی صورتحال ایک دلچسپ منظرنامہ کے گردگھوم رہی ہے

ملکی سیاسی صورتحال ایک دلچسپ منظرنامہ کے گردگھوم رہی ہے

ملکی سیاسی صورتحال ایک دلچسپ منظرنامہ کے گردگھوم رہی ہے، سیاست کو بالکل ایک فلسفیانہ معمہ درپیش ہے، یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل کوئی جمہوری الیکشن کبھی نہیں ہوا، ہمارے ان پارلیمنٹرینزکوکوئی یاد نہیں کرتا جن کی سحرانگیز تقاریر سے ایوان گونجا کرتے تھے، جن کی سیاسی خطابت سے سیاست نے نمو پائی تھی، سب کچھ بھلا دیا گیا ہے، اب لوگ کہتے ہیں کہ سیاست اپنے فطری حسن سے محروم اور گفتگو اپنے استدلال اور فصاحت سے لاتعلق ہوگئی ہے، ایسی گفتگو نہ کسی ایوان میں ہوتی ہے نہ کسی پریس کانفرنس اور سیمینار میں سنائی دیتی ہے.

ارکان کے چہروں پر تناؤ ہے، سینئر صحافیوں کے مطابق تمام ملکی انتخابات جھرلو، انجینیئرڈ، جعلی ، بوگس ووٹوں ، بیلٹ باکس چرانے سے عبارت ہیں، پولنگ ایجنٹوں کے اغوا کی وارداتوں کا شور ہے کسی انتخابی عمل پر یقین نہیں کیا گیا ، حتیٰ کہ 1970 کے انتخابات ، جن کو عرصہ دراز تک شفافیت کی سند دی جاتی تھی، وہ بھی بے اعتباری کی دھند میں کھو گئے، لیکن رفتہ رفتہ جب انتخابی و جمہوری عمل پولرائزیشن، محاذ آرائی.

، سیاسی نظام کے عدم استحکام سے آلودہ ہوا اور پھر مارشل لا کے بعد سیاست ہی کی بساط اورکیمسٹری ہی بدل گئی تو بہت سارے سیاسی معاملات کی سیاسی لغت میں کئی نئے الفاظ شامل ہوگئے۔ نئے اشاریے، نئی فلاسفی ، نئے نظام ، عالمی قوتوں اور ان کے فکری دھارے کے مطابق عالمی و ملکی سیاست کی اخلاقیات ہی بدل گئی۔ ملک نائن الیون کے بعد نئی سیاسی اسٹرٹیجکل کشمکش کی زد میں آگیا ، بلکہ یوں سمجھئے کہ دنیا ان سے غیر محفوظ ہوگئی، امریکی استعمار اورگلوبلائزیشن کے معاشی نظام سے دنیا کی صورت گری ہونے لگی۔

مارکس نے کہا تھا کہ '' فکر آرزوکا سرچشمہ ہے، قوموں اور گروہوں کی بنیاد ہمیشہ معاشی ہوتی ہے'' بسمارک نے کہا تھا کہ قوموں کے باہمی روابط میں اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اور عظیم شخصیات یا غیر ذاتی قوتوں کے اظہارکا ایک وسیلہ ہیں، اگر وہ یہ نہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ ایسا بے اثر دیوانہ ہے جسے تاریخ کوئی توجہ کیے بغیر آسانی سے نظر انداز کر دیتی ہے، نظریات کا تمدن سے وہی تعلق ہے جو فکر کا فرد کے عمل سے ہے، دونوں صورتوں میں خیال نتیجہ کا سبب نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے مخصوص تمدن کا اقتصادی زندگی کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو خیال کا جسم کے ساتھ ہے.

یہ تعبیر و تاویل ہے جس سے تحریکوں اور اجتماعی قوتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔'' ہمارے آج کے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ وہ ایسی گفتگوکے لیے کس ایوان اور سیاسی فورمزکا رخ کریں جہاں انھیں ایسے خرد افروز مکالمہ سے واسطہ پڑے، ہماری تو سیاست گالیوں سے لتھڑی ہوئی ہے، آج پاکستان بے سمت وحشیانہ سیاسی گرداب میں پھنسا ہے۔ سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں، قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاسوں کی کارروائی دیکھیے تو دل خون کے آنسو روتا ہے، عجیب خلفشار ہے.

مہنگائی ، بیروزگاری نے پورے سسٹم کو یرغمال بنا لیا ہے، ادارہ جاتی بھونچال نے سیاسی و سماجی اور معاشی نظام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ادارہ جاتی ہم آہنگی کا فقدان ہے، حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی نے صورتحال سنگین بنالی ہے، ان دنوں انتخابات کے لیے ایک مشینی سسٹم پر بحث ہورہی ہے، ایک ساتھ کئی بل منظوری کے لیے پیش ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو لوگ پرانے کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ تبدیلی نہیں آنے دیتے، مرے ہوئے لوگوں کے ووٹوں کا اندراج کرایا ہوا ہے، وزیر اعظم نے یقین دلایا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔


وزیر اعظم کے بقول ہمارے سسٹم میں کرپشن ہے اور اوورسیز پاکستانی جس نظام کے عادی ہیں وہاں کرپشن نہیں ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک میں جائیداد خریدتے ہیں تو اس پر قبضہ ہو جاتا ہے، سرمایہ کاری کرنے آتے ہیں توکرپشن کی وجہ سے واپس چلے جاتے ہیں۔ ہم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملکی جمہوریت میں شامل کرلیا ہے۔

گزشتہ روز وزیراعظم کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں موجودہ سیاسی صورتحال اور انتظامی معاملات پر مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، حماد اظہر، مشیر خزانہ شوکت ترین، خسرو بختیار اور عامر کیانی نے شرکت کی۔ اجلاس میں مہنگائی کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی گفتگو ہوئی۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا اگلا ہدف بلدیاتی انتخابات ہیں۔ سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں موجود پارٹی عہدیداروں اور تنظیموں کو بلدیاتی انتخابات سے قبل فعال کیا جائے اورگراس روٹ لیول پر موجود ٹیموں پر مشتمل ایسا ماڈل تشکیل دیا جائے جو بلدیاتی انتخابی مہم کے ساتھ آیندہ عام انتخابات کے لیے بھی تیار ہو ۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق بل تو منظورکروا لیا گیا لیکن کیا آیندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن ہو پائے گا؟ اس سے متعلق اب بھی کئی خدشات اور سوالات باقی ہیں۔ الیکشن کمیشن آیندہ عام انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال سے متعلق کنفیوژن کا شکار ہے، انتخابی عمل جس ماحول میں ہونا چاہیے اس کے لیے حالات و سازگار بنانے کی اشد ضرورت ہے، سنگین اختلافات ، بلیم گیم ، ای ووٹنگ پر عدم اتفاق پر ماہرین، تجزیہ کاروں اور الیکشن کمیشن حکام میں تحفظات ، میڈیا میں پھیلائی گئی بے یقینی میں تنازع کے امکانات موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مشینی ووٹنگ پر غیر ممالک کے حوالے نے شدید ہیجان پیدا کیا ہے، جس ملک کی انتخابی تاریخ سنگین بے ضابطگیوں سے بھری ہوئی ہو، اسے حکومت کی جانب سے متعارف کردہ ای ووٹنگ سسٹم پر اتفاق رائے پیدا ہونا ایک معجزہ ہی ہوگا، جہاں آئینی ترامیم، قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر فورم پر لفظی گولہ باری تھمنے کا نام نہیں لے رہی وہاں پر پولنگ اور الیکشن کا انعقاد اور نتائج کو تسلیم کرنے کی آئینی ذمے داری پر اپوزیشن کا خاموشی سے پولنگ کے نتائج پر اتفاق رائے بہت سے سوالات کو جنم دے سکتا ہے۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہیں، اس کا استعمال آیندہ عام انتخابات میں ہوگا یا نہیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیرصدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس موقعے پر الیکشن کمیشن حکام پر سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی، اراکین نے پوچھا کہ بلوچستان کے عوام ای وی ایم پر ووٹ کاسٹ کے لیے کیسے جائیں گے؟ جہاں انٹرنیٹ نہیں ہے وہاں ای وی ایم کیسے استعمال ہوگی؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کہاں کہاں رکھیں گے؟ بتائیں بعد میں ان معاملات کوکس پر ڈالیں گے؟ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بریفنگ میں کہا بلوچستان کے حوالے سے تحفظات پر کام کر رہے ہیں، اس وقت میں آپ کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہیں، ای وی ایم کے استعمال سے متعلق مزید 3 سے 4 پائلٹ پراجیکٹ کرنا پڑیں گے، ایک پولنگ اسٹیشن پر کتنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہوں گی یہ جانچنا بھی باقی ہے۔ آیندہ عام انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال سے پہلے مشین کی خریداری اور عملہ کی ٹریننگ سمیت مختلف مراحل سے گزرنا ہوگا۔ حکومتی اراکین پارلیمنٹ نے کہا پارلیمنٹ سپریم ہے، الیکشن کمیشن کو بلا تاخیر قانون پر عملدرآمد کی تیاری کرنی چاہیے جب کہ اپوزیشن اراکین نے الیکشن کمیشن کے تحفظات کو سپورٹ کیا۔ ذرایع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے کم از کم خرچہ 150 ارب روپے آئے گا، کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی، مشین کی منتقلی اور حفاظت پر سوالات اٹھیں گے، اس مشین کو باآسانی ٹیمپر اور سافٹ ویئر بدلا جا سکتا ہے، ووٹرز کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی رکاوٹ بنے گی۔ بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروکیورمنٹ بھی ایک مشکل کام ہے جب کہ اتنی قلیل مدت میں ای وی ایم کا استعمال بھی ممکن نظر نہیں آ رہا، ایسے میں آیندہ انتخابات ای وی ایم پر ہوں گے یا نہیں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی رہنما فکری انحطاط اور قحط الرجال پر غورکریں، سیاسی مکالمہ کی افادیت اور جمہوریت کے حسن کے محض حوالے پر انحصار نہ کریں بلکہ جمہوریت کے استحکام اور ارتقا کو معنویت عطا کرنے کی سعی کریں، اسی میں ملک وقوم کا مفاد ہے۔
Load Next Story