کوریا کی شرمندگی اور ہمارا فخر
کوریا کے لیے یہ ایک شدید جذباتی اور نفسیاتی جھٹکا تھا
سئیول جنوبی کوریا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے زیر زمین ٹرین اسٹیشن پر ہمیں اپنا مطلوبہ راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اسی کوشش میں بیس پچیس منٹ ضایع کیے مگر مطلوبہ Exit ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے آس پاس کسی ایسے چہرے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جس کے چہر ے بشرے سے اندازہ ہو کہ انگریزی کی شد بد رکھتا ہو گا۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اس ہجوم اور ہائو ہو کے شور میں سوٹ پہنے، ٹائی لگائے ایک بنچ پر ادھیڑ عمر شخص کو بیٹھے دیکھا۔
قریب جا کر پوچھا کہ انگلش آتی ہے ؟ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں جواب دیا کہ تھوڑی بہت آتی ہے۔ مدعا بیان کیا تو بات سمجھ گیا۔ ہم نے ایک ایڈریس اسے دکھایا تو اس نے اشارے سے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم نے مروتاً اصرار کیا کہ وہ ہمیں گائیڈ کردے، بس یہی کافی ہے، مگر وہ ناں ناں کرتے ہوئے ہمارے ساتھ ہولیا۔
ہم نے اس دوران رسمی گفتگو کی کوشش میں اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ میں ایک مکینیکل انجینئر ہوں مگر آج کل بے روزگار ہوں۔ ہم نے چونک کر پوچھا کہ یوں بن ٹھن کر بیٹھے ہوئے تھے، بے روزگار کوئی یوں تیار ہوکر بیٹھتے ہیں۔ You know; IMF! ، میں آئی ایم ایف کا شکار ہوں۔ وقت گزاری کے لیے تیار ہوکر باہر آجاتا ہوں، نوکری ہے نہیں ،کیا کروں؛ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش اور اشاروں کے سہارے ہمیں بتایا، خدا حافظ کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کو کوسا اور واپس اسٹیشن کی سیڑھیاں اتر گیا۔
یہ سال 1998 کے ابتدائی دن تھے۔ ایشیاء میں کرنسی بحران نے بیشتر ایشیائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جنوبی کوریا ان چار ایشیائی ممالک میں سے ایک تھا جسے ایشیائی اکنامک ٹائیگرز کہا جاتا تھا مگر کرنسی کرائسس نے چند ہی ہفتوں میں معیشت اور کرنسی کی ویلیو کا بھرکس نکال دیا۔ کورین کرنسی وان کی شرح ایک ڈالر کے مقابلے میں 95% گر گئی۔
305 ارب ڈالرز کے ذخائر بھاپ بن کر اڑنے لگے تو کوریا کی حکومت کے طوطے اڑ گئے۔ کل تک عالمی سرمایہ کاروں کی ڈارلنگ اکانومی کو اب دیوالیے کا سامنا تھا۔ چند ہی دنوں میں زرِ مبادلہ خالی ہوتا دیکھ کر جنوبی کوریا نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا۔
جنوبی کوریا کو گمان تھا کہ اس کی ماضی قریب کی شاندار معاشی ترقی کے پیش نظر آئی ایم ایف کو اسے سادہ شرائط پر قرض دینے میں کیا قباحت ہو گی۔ کوریا کی معاشی ٹیم اسی خوش گمانی کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچی۔ مگر دوسری جانب سے قرض کے لیے شرائط کی فہرست تھما دی گئی جس میں کرنسی کی قدر مزید کم کرنے، شرح سود بڑھانے سمیت بہت سی دیگر پالیسیاں اور اسٹرکچرل اقدامات پر آمنا و صدقنا شامل تھا۔ کوریا نے بہت کوشش کی کہ شرائط میں اس کی خواہش کے مطابق نرمی ہوسکے مگر اسے مایوسی ہوئی۔ مجبوراً اسے 55 ارب ڈالرز کے تین سالہ معاہدے پر انھی شرائط پر دستخط کرنے پڑے۔
کوریا کے لیے یہ ایک شدید جذباتی اور نفسیاتی جھٹکا تھا۔ کورین جنگ کی تکلیف اور 1910 میں جاپان کے قبضے کی صعوبت کے بعد یہ ایک قومی شرمندگی تھی جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرکے ملک میں واپس آئے تو ٹی وی پر لائیو خطاب میں قوم سے معافی کا خواستگار ہوئے ؛ میں کورین عوام کے سامنے معافی مانگنے حاضر ہوا ہوں ( I have come here to beg the forgiveness of the Korean people ) ۔ پلیز اس مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں یہ اقتصادی تکلیف برداشت کرنی اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔
اس قومی شرمندگی کا پوری قوم کی نفسیات پر گہرا اثر ہوا۔ ایک ملک گیر مہم میں قرض ادائیگی کے لیے عوام نے سونا جمع کرنے کی مہم شروع کی اور اس کی کامیابی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 35 لاکھ سے زائد لوگوں نے 227 ٹن سونا جمع کیا جس کی اس وقت مالیت 2.13 ارب ڈالرز بنی۔ کوریا میں عموماً درمیانے درجے کے ریستوران گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنا مینیو اور قیمتیں باہر ڈسپلے کرتے ہیں۔ اس دوران ریستوران نے سب سے سستے مینیو کا نام آئی ایم ایف مینیو رکھا۔ حکومت، انڈسٹری اور عوام کی نفسیات کو اس واقعے نے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
ملکی معیشت آئی ایم ایف پروگرام کے پہلے سال منفی سات فیصد تک سکڑ گئی۔ جنوبی کوریا کی معیشت کی بنیادیں انڈسٹری اور ٹریڈ کے مضبوط ستونوں پر کھڑی تھی۔ اصلاحات اور پالیسی اقدامات پر صدق دل اور تیزی سے عمل ہوا۔ اجتماعی کوششوں سے ملکی معیشت دوسرے سال اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی۔ کورین وان ڈالر کے مقابلے میں اسی پرانی شرح پر واپس آگیا۔ تین سالہ مدت ختم ہونے پر جنوبی کوریا نے قرض واپس کردیا اور پھر کبھی دوبارہ آئی ایم ایف کی دہلیز پر قرض کے لیے دو زانو نہ ہوا۔ تئیس سال فاسٹ فارورڈ کریں تو جنوبی کوریا آج G20 and OECD کا ممبر ملک ہے۔
ایک طرف پاکستان ہے جو 22 مرتبہ آئی ایم ایف کا دست نگر ہوا۔ معیشت کی جھولی میں چھید اس قدر ہیں کہ چھ ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے شوکت ترین جن شرائط کو نرم کروانے کے لیے پر عزم تھے، اب ہارے ہوئے لہجے میں قوم سے مخاطب ہیں کہ جلد اچھی خبر ملے گی، آئی ایم ایف نے پانچ شرائط رکھی ہیں، کیا کریں ماننی تو پڑیں گی۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ کورین قوم آئی ایف قرض کے لیے مجبور ہونے پر شرمندہ ہوئی، وزیر خزانہ قوم سے معافی کا خواستگار ہوا، طے شدہ مدت میں قرض واپس کیا، اس بحران سے سبق سیکھے۔ ایک ہم ہیں کہ سعودی عرب اور یو اے ای سے ادھار تیل، ڈیپازٹ اور قرض پر قوم کو مبارک دیتے ہیں کہ زبردست پیکیج ملا ہے، وزیر خزانہ عوام کو نوید مسرت سناتے ہیں کہ جلد اچھی خبر ملے گی۔ علامہ اقبال یاد آئے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
قریب جا کر پوچھا کہ انگلش آتی ہے ؟ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں جواب دیا کہ تھوڑی بہت آتی ہے۔ مدعا بیان کیا تو بات سمجھ گیا۔ ہم نے ایک ایڈریس اسے دکھایا تو اس نے اشارے سے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم نے مروتاً اصرار کیا کہ وہ ہمیں گائیڈ کردے، بس یہی کافی ہے، مگر وہ ناں ناں کرتے ہوئے ہمارے ساتھ ہولیا۔
ہم نے اس دوران رسمی گفتگو کی کوشش میں اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ میں ایک مکینیکل انجینئر ہوں مگر آج کل بے روزگار ہوں۔ ہم نے چونک کر پوچھا کہ یوں بن ٹھن کر بیٹھے ہوئے تھے، بے روزگار کوئی یوں تیار ہوکر بیٹھتے ہیں۔ You know; IMF! ، میں آئی ایم ایف کا شکار ہوں۔ وقت گزاری کے لیے تیار ہوکر باہر آجاتا ہوں، نوکری ہے نہیں ،کیا کروں؛ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش اور اشاروں کے سہارے ہمیں بتایا، خدا حافظ کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کو کوسا اور واپس اسٹیشن کی سیڑھیاں اتر گیا۔
یہ سال 1998 کے ابتدائی دن تھے۔ ایشیاء میں کرنسی بحران نے بیشتر ایشیائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جنوبی کوریا ان چار ایشیائی ممالک میں سے ایک تھا جسے ایشیائی اکنامک ٹائیگرز کہا جاتا تھا مگر کرنسی کرائسس نے چند ہی ہفتوں میں معیشت اور کرنسی کی ویلیو کا بھرکس نکال دیا۔ کورین کرنسی وان کی شرح ایک ڈالر کے مقابلے میں 95% گر گئی۔
305 ارب ڈالرز کے ذخائر بھاپ بن کر اڑنے لگے تو کوریا کی حکومت کے طوطے اڑ گئے۔ کل تک عالمی سرمایہ کاروں کی ڈارلنگ اکانومی کو اب دیوالیے کا سامنا تھا۔ چند ہی دنوں میں زرِ مبادلہ خالی ہوتا دیکھ کر جنوبی کوریا نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا۔
جنوبی کوریا کو گمان تھا کہ اس کی ماضی قریب کی شاندار معاشی ترقی کے پیش نظر آئی ایم ایف کو اسے سادہ شرائط پر قرض دینے میں کیا قباحت ہو گی۔ کوریا کی معاشی ٹیم اسی خوش گمانی کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچی۔ مگر دوسری جانب سے قرض کے لیے شرائط کی فہرست تھما دی گئی جس میں کرنسی کی قدر مزید کم کرنے، شرح سود بڑھانے سمیت بہت سی دیگر پالیسیاں اور اسٹرکچرل اقدامات پر آمنا و صدقنا شامل تھا۔ کوریا نے بہت کوشش کی کہ شرائط میں اس کی خواہش کے مطابق نرمی ہوسکے مگر اسے مایوسی ہوئی۔ مجبوراً اسے 55 ارب ڈالرز کے تین سالہ معاہدے پر انھی شرائط پر دستخط کرنے پڑے۔
کوریا کے لیے یہ ایک شدید جذباتی اور نفسیاتی جھٹکا تھا۔ کورین جنگ کی تکلیف اور 1910 میں جاپان کے قبضے کی صعوبت کے بعد یہ ایک قومی شرمندگی تھی جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرکے ملک میں واپس آئے تو ٹی وی پر لائیو خطاب میں قوم سے معافی کا خواستگار ہوئے ؛ میں کورین عوام کے سامنے معافی مانگنے حاضر ہوا ہوں ( I have come here to beg the forgiveness of the Korean people ) ۔ پلیز اس مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں یہ اقتصادی تکلیف برداشت کرنی اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔
اس قومی شرمندگی کا پوری قوم کی نفسیات پر گہرا اثر ہوا۔ ایک ملک گیر مہم میں قرض ادائیگی کے لیے عوام نے سونا جمع کرنے کی مہم شروع کی اور اس کی کامیابی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 35 لاکھ سے زائد لوگوں نے 227 ٹن سونا جمع کیا جس کی اس وقت مالیت 2.13 ارب ڈالرز بنی۔ کوریا میں عموماً درمیانے درجے کے ریستوران گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنا مینیو اور قیمتیں باہر ڈسپلے کرتے ہیں۔ اس دوران ریستوران نے سب سے سستے مینیو کا نام آئی ایم ایف مینیو رکھا۔ حکومت، انڈسٹری اور عوام کی نفسیات کو اس واقعے نے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
ملکی معیشت آئی ایم ایف پروگرام کے پہلے سال منفی سات فیصد تک سکڑ گئی۔ جنوبی کوریا کی معیشت کی بنیادیں انڈسٹری اور ٹریڈ کے مضبوط ستونوں پر کھڑی تھی۔ اصلاحات اور پالیسی اقدامات پر صدق دل اور تیزی سے عمل ہوا۔ اجتماعی کوششوں سے ملکی معیشت دوسرے سال اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی۔ کورین وان ڈالر کے مقابلے میں اسی پرانی شرح پر واپس آگیا۔ تین سالہ مدت ختم ہونے پر جنوبی کوریا نے قرض واپس کردیا اور پھر کبھی دوبارہ آئی ایم ایف کی دہلیز پر قرض کے لیے دو زانو نہ ہوا۔ تئیس سال فاسٹ فارورڈ کریں تو جنوبی کوریا آج G20 and OECD کا ممبر ملک ہے۔
ایک طرف پاکستان ہے جو 22 مرتبہ آئی ایم ایف کا دست نگر ہوا۔ معیشت کی جھولی میں چھید اس قدر ہیں کہ چھ ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے شوکت ترین جن شرائط کو نرم کروانے کے لیے پر عزم تھے، اب ہارے ہوئے لہجے میں قوم سے مخاطب ہیں کہ جلد اچھی خبر ملے گی، آئی ایم ایف نے پانچ شرائط رکھی ہیں، کیا کریں ماننی تو پڑیں گی۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ کورین قوم آئی ایف قرض کے لیے مجبور ہونے پر شرمندہ ہوئی، وزیر خزانہ قوم سے معافی کا خواستگار ہوا، طے شدہ مدت میں قرض واپس کیا، اس بحران سے سبق سیکھے۔ ایک ہم ہیں کہ سعودی عرب اور یو اے ای سے ادھار تیل، ڈیپازٹ اور قرض پر قوم کو مبارک دیتے ہیں کہ زبردست پیکیج ملا ہے، وزیر خزانہ عوام کو نوید مسرت سناتے ہیں کہ جلد اچھی خبر ملے گی۔ علامہ اقبال یاد آئے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور