بچوں کے حقوق پامال قوانین پر عملدرآمد کا نظام کمزور

بچوں کا تحفظ کسی ایک ادارے یا حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر پورے معاشرے کی ذمے داری بنتی ہے


شائستہ جلیل November 20, 2021
20 نومبر عالمی یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

GENEVA: پاکستان سمیت دنیا بھر میں 20 نومبر عالمی یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر بچوں کے حقوق کےلیے آوازیں بلند کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور مسائل کی طرح بچوں کے حقوق کےلیے بھی مزید اور بہتر سے بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا شمار ان ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کے حقوق اور مسائل تاحال ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ ملک بھر میں بچوں کے حقوق سے متعلق آگاہی کےلیے حکومتیں اور سول سوسائٹی مل کر اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کے باوجود ملک بھر میں بچوں کے مسائل میں کمی آئی، نہ ہی ان کے حقوق کی پامالیاں رک سکیں۔ جنگیں ہوں یا عالمی وبائیں، دنیا بھر میں آنے والے کسی بھی بحران سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے آئے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی صحت، تعلیم و تربیت، تشدد، جنسی استحصال، حقوق کی عدم فراہمی، قوانین بن جانے کے باوجود عملدرآمد نہ ہونے جیسے کئی مسائل جوں کے توں ہیں۔

عالمی وبا نوول کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث ملک بھر میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پاکستان میں جہاں دیگر مسائل پہلے ہی حل طلب تھے وہیں اس عالمی وبا کے بعد مسائل میں اضافہ ہوا اور صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی ہے۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور بچوں کےلیے غیرسرکاری سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں بچوں کے حقوق سے متعلق صورتحال کو تشویشناک قرار دیتی ہیں۔

کورونا وبا میں تعلیم سے دوری بچوں کے مسائل میں اضافے کا باعث بنی۔ پاکستان میں بچوں کےلیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ کا کہنا ہے کہ کووڈ سے جب بچے تعلیم سے دور ہوئے تو بچوں کی صورتحال ابتر ہوتی گئی۔ تعلیم سے دوری اور فراغت کے نتیجے میں بچوں کے ذہنی مسائل، صحت اور جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کورونا وبا سے پاکستان میں تعلیم کی شرح میں کمی آئی۔ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تعلیمی نظام تنزلی کی جانب چلا گیا۔ لاک ڈاؤن کے باعث آن لائن تعلیم کا نیا نظام تو آگیا مگر اس کےلیے اکثر بچے موبائل فون اور ٹیبلٹ کی عدم دستیابی کے باعث تعلیم سے دور رہے، کیونکہ پسماندہ اور غریب طبقات کے بچوں کے والدین اسے خریدنے سے قاصر تھے۔

بچوں کی صحت کے حل طلب مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ ایک جانب تو کورونا نے اسکولوں کی بندش سے بچوں کی تعلیم پر گہرا اثر چھوڑا ہے، وہیں بچوں کی صحت کے مسائل جو پہلے ہی عدم توجہی کا شکار تھے ان میں بھی اضافہ ہوگیا۔ پانچ برس کی عمر تک پہنچنے تک بچوں کی اموات اور کیسز میں کمی نہ آسکی، ماؤں اور بچوں کی صحت کے مسائل تاحال حل طلب ہیں۔

سماجی سطح پر بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم سے منسلک فرد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوسناک صورتحال ہے کہ بچوں کےلیے جو قوانین بنائے گئے ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ان قوانین کے بارے میں عام سطح پر آگاہی کا فقدان ہے، وہیں ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی انتہائی کمزور ہے۔

قوانین کی خلاف ورزیاں روکنے کےلیے بھی کوئی میکنزم موجود نہیں۔ حال ہی میں دیکھا جائے تو چائلڈ میرج بل منظور ہوا۔ اس کا قانون بھی بنا لیا گیا مگر اس قانون پر ابتدا میں تو کچھ عرصے تک عمل کیا گیا اور کم عمری کی شادیوں پر پابندی بھی لگائی گئی مگر یہ سب وقتی ثابت ہوا اور اس قانون کو دیگر قوانین کی طرح پس پشت ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں قوانین تو بن گئے ہیں مگر وہ ان مسائل کو روکنے میں ٹھوس ثابت نہیں ہوتے۔ حکومتی اداروں کو ان قوانین پر عملدرآمد کروانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ چائلڈ میرج ایکٹ، اینٹی برائبری ایکٹ یعنی گداگری میں بچوں کا استعمال، اور ان جیسے کئی قوانین ہیں جن پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

دنیا بھر میں بچوں کےلیے خاندانی نظام میں پرورش کو ترجیح دی جاتی ہے، مگر ہمارے ملک میں اگر کوئی بچہ لاوارث ہے تو ایسے بچے نجی اداروں کے سپرد کردیے جاتے ہیں جن کے پاس ان بچوں کی بہتر اور حقیقی تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اگر ایسے اداروں کی جانچ پڑتال کی جائے یا کہیں نشاندہی بھی کی جائے تو ان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں تجویز ہے کہ بجائے بچوں کےلیے یتیم خانے بنائے جائیں ان کے اہلخانہ کی تلاش کی جائے جس کے بعد والدین کے نہ ہونے کی صورت میں ان یتیم بچوں کو قریبی رشتے داروں اور گارجین کے حوالے کرنے کا نظام تشکیل دیاجائے۔

ہر بچہ ہمارا اپنا بچہ ہے۔ بچوں کا تحفظ کسی ایک ادارے یا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر پورے معاشرے کی ذمے داری بنتی ہے۔ ہم سب کو اپنی ذمے داری پوری کرنی پڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔