مشیت ِ ایزدی

جگ بیتیاں تو ہم ہر روز سنتے، دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن آپ بیتی کا بیان شاید کسی کو نامناسب لگے

h.sethi@hotmail.com

جگ بیتیاں تو ہم ہر روز سنتے، دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن آپ بیتی کا بیان شاید کسی کو نامناسب لگے جب کہ کچھ اِسے خود نمائی کہیں جب کہ میرے پیشِ نظر یہ ذکر صرف مشیت ایزدی پر ایمان کی حد تک ہے۔

میں نے نیا نیا ایل ایل بی کیا تھا ، ایئرفورس میں بھرتی ہونے کے لیے پہلا مرحلے کے بعد مجھے کوہاٹ بھجوا دیا گیا۔ وہاں تین دن بعد مجھے کمبائنڈ میڈیکل بورڈ کے لیے کراچی بھجوا دیا گیا جہاں مجھے چار پونڈکم وزن ہونے کی وجہ سے 3ماہ کے لیے ڈیفر قرار دے کر دوبارہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا۔میں نے وزن بڑھانا شروع کیا ہی تھا کہ میرے کلاس فیلو توقیر حسین نے جس کے والد مال افسر تھے ، مجھے کہا کہ والد نے اسے تین کمروں کا اپارٹمنٹ کرائے پر لے دیا ہے جہاں توقیر کی نانی اماںکھانے وغیرہ کا بندوبست کریں گی۔

توقیر حسین وہاں سی ایس ایس کی تیاری کرے گا۔ توقیر نے مشورہ دیا کہ میں بھی اس کے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو جاؤں تاکہ ہم دونوں سی ایس ایس کی تیاری کریں۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے اپنا بستر اور ٹرنک تانگے میں رکھا اور اس کے ہاں شفٹ ہو گیا۔ حیرت کی بات تھی کہ میں 95 فیصد ایئرفورس میں select ہونے کے باوجود ایک منٹ کے لیے بھی دل میں یہ خیال نہ لایا کہ سول سروس میں ناکام ہو گیا تو کیا ہو گا۔ میرے لیے ایک پُراز خطر فیصلہ تھا جب کہ مجھے والدین کی طرف سے کوئی مالی مدد نہیں ملتی تھی۔ میں ٹیوشنز پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کرتا تھا اور ایسا کرنا میرے لیے کبھی باعث پریشانی یا پشیمانی نہ ہوا اور توقیر کا مجھے سول سروس امتحان کے لیے راغب کرلینا مشیت ایزدی ہی تھا ورنہ کون ہو گا جو ائیر فورس میں select ہو کر بھی ایک High Risk فیصلہ کرے۔

ایک دن ریسٹورنٹ میں چائے پینے کے دوران مجھے جسٹس سجاد سپرا نے کہا جاؤ برابر میں سول ملٹری گزٹ آفس میں اپنا رزلٹ معلوم کر کے آؤ۔ خوش قسمتی کہ میرا نام کامیاب امیدواروں میں تھا۔ خدا نے ہمیں سول سروس کے امتحان کی تیار ی کے لیے لاہور رکھا تھا۔ توقیر کو فارن سروس پوسٹنگ سے پہلے ٹریننگ کے لیے اسلام آباد بھجوا دیا گیا اور میری تعیناتی بحیثیت مجسٹریٹ راولپنڈی کچہری میں ہو گئی۔ توقیر ٹریننگ کے بعد بحیثیت تھرڈ سیکریٹری کینیڈا چلا گیا لیکن اب ہمارا تعلق خطوط نویسی تک محدود ہو گیا تھا۔ توقیر کے 54 سال پرانے خطوط اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں جن میں اس نے کارٹون بھی بنائے ہوئے ہیں۔

میری تعیناتیاں بحیثیت مجسٹریٹ، اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر و ایڈیشنل کمشنر رہیں جہاں ریونیو و فوجداری مقدمات کی سماعت اور فیصلے کرنا ہوتے تھے،دوبار ایڈیشنل سیکریٹری اور ممبر گورنر انسپکشن ٹیم بھی رہا پھر کمشنر و صوبائی سیکریٹری پروموشن کے بعد ریٹائرمنٹ ہوئی۔ لاہور جمخانہ میں 18 سال گولف کھیل کر دوبار Hole in One کرنے کا موقع ملا۔ گزشتہ بیس سال سے ایک ہفتہ وار شوق میں تبدیل ہو گیا جن کو سنگ میل پبلشرز نے پانچ کتابوں کی صورت میں شایع کر دیا ہے۔ ان پانچ کتابوں میں میرا تعارف لکھنے والوں میں ملک معراج خالد، عابد حسن منٹو، منو بھائی، قتیل شفائی، احمد ندیم قاسمی، جاوید اقبال (کارٹونسٹ) جاوید چوہدری اور حسن نثار شامل ہیں۔ یہاں میں قتیل شفائی کے تین شعر درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:۔

نہ خوشامد کروں اس کی نہ قصیدہ لکھوں


میں تو اس دوست کے اوصاف حمیدہ لکھوں

کام ہے جس کا گل افشانی قرطاس و قلم

اس کے لفظوں کو متاع ِدل و دیدہ لکھوں

جب حمید آئے قلم تھامے تو دل چاہے مرا

اس کی تعریف میں اک پورا جریدہ لکھوں

اسکول کے دنوں سے آج تک اگر میرا رابطہ دو تین دوستوں سے قائم رہا ہے تو ان میں ایک توقیر حسین ہے۔ہر اچھے کام کے پیچھے رضائے الٰہی ہوتی ہے اور جہاں مشیت ِ ایزدی شامل ہو وہاں کامیابی قدم چومتی ہے۔ میرا ایئر فورس چھوڑ کر سول سروس میں آنے کا فیصلہ بھی مشیت ِ ایزدی تھا۔
Load Next Story