بس اب بہت ہوچکا
متحدہ قومی موومنٹ کو پھر سے متحد کرنے کی کوشش شروع ہوچکی ہیں
متحدہ قومی موومنٹ کو پھر سے متحد کرنے کی کوشش شروع ہوچکی ہیں۔ لگتا ہے اس مہم کو آگے بڑھانے کا بیڑہ ایم کیو ایم کے سابق لیڈر فاروق ستار نے اٹھالیا ہے۔ خبروں کے مطابق انھوں نے اس سلسلے میں دبئی میں رہائش پذیر سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات کی ہے اور انھیں ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔
عشرت العباد نے گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایم کیو ایم سے واجبی سا ہی رشتہ قائم رکھا تھا کیوں کہ وہ گورنر بن کر کسی سیاسی پارٹی کی طرف داری نہیں کرسکتے تھے۔ مگر سندھ کی گورنری سے ہٹنے کے بعد ایم کیو ایم کے پہلے کی طرح فعال لیڈر نہیں رہے تھے کچھ عرصے بعد وہ ایم کیو ایم کے جھمیلے میں پڑنے کے بجائے دبئی چلے گئے۔
اس وقت تک ایم کیو ایم کئی حصوں میں بٹ چکی تھی۔ اس وقت اس کے ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن دو اہم دھڑے ہیں، دونوں کے نظریات مختلف نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کی رہنمائی بانی ایم کیو ایم کررہے ہیں، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی مرکزی لیڈر نہیں ہے۔
اس میں شامل ماضی کے کئی رہنما اسے چلا رہے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے بانی ایم کیو ایم کے نظریات سے خود کو دور کرلیا ہے۔ ادھر لندن میں مقیم بانی ایم کیو ایم مسلسل پاکستان کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ ان پر پہلے ہی یہ الزام تھا کہ وہ پاکستان کو لسانی بنیاد پر تقسیم کررہے ہیں۔ ان کے جو حالیہ بیانات آرہے ہیں ان کے ذریعے وہ پاکستان کے صوبوں کو باہم لڑاکر ملک کو کمزور کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل انھوں نے بھارت کے ایک ٹی وی چینل پر نریندر مودی سے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی اپیل کی تھی مگر بھارت کی جانب سے انھیں ذرا بھی پذیرائی نہیں مل سکی تاہم ان کا یہ عمل یہاں مہاجروں کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ ویسے اس سے پہلے مصطفیٰ کمال ان کا سارا کچا چٹھا کراچی میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بیان کرچکے تھے۔ پھر پاک سرزمین پارٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا جس نے نفرت کے بجائے محبت کا پیغام پھیلانا شروع کیا۔
ادھر ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ پارٹی کی سربراہی کے معاملے پر کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ فاروق ستار جو کہ پہلے سے ایم کیو ایم کے کنوینر تھے اور ان کے نام پر ہی ایم کیو ایم کی رجسٹریشن ہوئی ہے اس طرح ان کا پارٹی کی رہنمائی کا دعویٰ کسی حد تک درست تھا پھر وہ بانی ایم کیو ایم کے رائٹ ہینڈ بھی رہے تھے مگر اندر کی کہانی کچھ ایسی ہوئی کہ انھیں پارٹی سے ہی باہر کردیاگیا۔
اب وہ مہاجر محاذ کے نام سے ایک تنظیم چلارہے ہیں مگر اسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی ختم ہوتی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے ایک نئی مہاجر پارٹی یا پھر پرانی ایم کیو ایم کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
اب مہاجر ماضی کی تباہی اور بربادی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں۔ وہ پہلے ہی اپنے 35 برس برباد کرچکے ہیں اور اپنی دو نسلوں کو خاک و خون میں لوٹتا دیکھ چکے ہیں، وہ اب پھر ہڑتالوں کی بھرمار اور روزانہ 25 سے30 افراد کی لاشوں کو سڑکوں پر پڑا دیکھنا نہیں چاہتے۔ مسلسل ہڑتالوں اور جبری بھتے کی وجہ سے کراچی میں چلتی ہوئی متعدد فیکٹریاں بند ہوگئی تھیں۔
یہ فیکٹریاں بھی مہاجروں کی تھیں اور ان میں کام کرنے والے جو مزدور بیروزگار ہوئے وہ بھی مہاجر ہی تھے۔ بلاشبہ مہاجروں نے ایم کیو ایم کے لیے بہت قربانیاں دیں کہ اس سے ان کا اور ان کی اولاد کا مستقبل سنور جائے گا مگر اس پارٹی کا رخ بھلائی سے دوسری سمت موڑ دیا گیا تھا اور اس کی ذمے دار خود پارٹی قیادت تھی۔ اب مہاجر اس سانحے سے گزرنے کے بعد اپنے آباء و اجداد کے بہت سوچ سمجھ کر بنائے گئے پاکستان کو مزید برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے، وہ پاکستان کے سچے شہری ہیں اور پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
فاروق ستار ایک جہاں دیدہ سیاسی رہنما ہیں ، اب انھیں تمام پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں پی ایس پی کے سربراہ کا یہ کہنا بالکل درست لگتا ہے کہ مہاجروں نے خود کو ایم کیو ایم سے منسوب کرکے اپنے آپ کو محدود کرلیا تھا۔ اس سے مہاجروں کو بہت نقصان پہنچا۔ اب انھیں پاکستان کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔
اس لیے کہ اسی میں ان کی فلاح و ترقی کا راز مضمر ہے۔ کراچی کے کئی سیاسی رہنماؤں کو کراچی کی آبادی کم دکھانے پر اعتراض ہے۔ اب اس وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں گھر گھر جاکر ووٹروں کی تصدیق کا کام جاری ہے۔
کاش کہ اس موقع پر اس کام کی نگرانی یہ سیاسی رہنما کریں تاکہ کراچی کا کوئی محلّہ اور گھر ووٹنگ اندراج سے نظر انداز نہ ہونے پائے اور کراچی کے عوام کی صحیح گنتی ہوسکے۔ جہاں تک کراچی کی کم آبادی شمار ہونے کا معاملہ ہے یا میئر کے اختیارات میں کمی کا مسئلہ ہے یہ دونوں ہی مسائل ایم کیو ایم کے حکومتی فیصلوں کو قبول کرنے سے پیدا ہوئے ہیں اب ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔
عشرت العباد نے گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایم کیو ایم سے واجبی سا ہی رشتہ قائم رکھا تھا کیوں کہ وہ گورنر بن کر کسی سیاسی پارٹی کی طرف داری نہیں کرسکتے تھے۔ مگر سندھ کی گورنری سے ہٹنے کے بعد ایم کیو ایم کے پہلے کی طرح فعال لیڈر نہیں رہے تھے کچھ عرصے بعد وہ ایم کیو ایم کے جھمیلے میں پڑنے کے بجائے دبئی چلے گئے۔
اس وقت تک ایم کیو ایم کئی حصوں میں بٹ چکی تھی۔ اس وقت اس کے ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن دو اہم دھڑے ہیں، دونوں کے نظریات مختلف نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کی رہنمائی بانی ایم کیو ایم کررہے ہیں، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی مرکزی لیڈر نہیں ہے۔
اس میں شامل ماضی کے کئی رہنما اسے چلا رہے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے بانی ایم کیو ایم کے نظریات سے خود کو دور کرلیا ہے۔ ادھر لندن میں مقیم بانی ایم کیو ایم مسلسل پاکستان کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ ان پر پہلے ہی یہ الزام تھا کہ وہ پاکستان کو لسانی بنیاد پر تقسیم کررہے ہیں۔ ان کے جو حالیہ بیانات آرہے ہیں ان کے ذریعے وہ پاکستان کے صوبوں کو باہم لڑاکر ملک کو کمزور کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل انھوں نے بھارت کے ایک ٹی وی چینل پر نریندر مودی سے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی اپیل کی تھی مگر بھارت کی جانب سے انھیں ذرا بھی پذیرائی نہیں مل سکی تاہم ان کا یہ عمل یہاں مہاجروں کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ ویسے اس سے پہلے مصطفیٰ کمال ان کا سارا کچا چٹھا کراچی میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بیان کرچکے تھے۔ پھر پاک سرزمین پارٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا جس نے نفرت کے بجائے محبت کا پیغام پھیلانا شروع کیا۔
ادھر ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ پارٹی کی سربراہی کے معاملے پر کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ فاروق ستار جو کہ پہلے سے ایم کیو ایم کے کنوینر تھے اور ان کے نام پر ہی ایم کیو ایم کی رجسٹریشن ہوئی ہے اس طرح ان کا پارٹی کی رہنمائی کا دعویٰ کسی حد تک درست تھا پھر وہ بانی ایم کیو ایم کے رائٹ ہینڈ بھی رہے تھے مگر اندر کی کہانی کچھ ایسی ہوئی کہ انھیں پارٹی سے ہی باہر کردیاگیا۔
اب وہ مہاجر محاذ کے نام سے ایک تنظیم چلارہے ہیں مگر اسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی ختم ہوتی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے ایک نئی مہاجر پارٹی یا پھر پرانی ایم کیو ایم کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
اب مہاجر ماضی کی تباہی اور بربادی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں۔ وہ پہلے ہی اپنے 35 برس برباد کرچکے ہیں اور اپنی دو نسلوں کو خاک و خون میں لوٹتا دیکھ چکے ہیں، وہ اب پھر ہڑتالوں کی بھرمار اور روزانہ 25 سے30 افراد کی لاشوں کو سڑکوں پر پڑا دیکھنا نہیں چاہتے۔ مسلسل ہڑتالوں اور جبری بھتے کی وجہ سے کراچی میں چلتی ہوئی متعدد فیکٹریاں بند ہوگئی تھیں۔
یہ فیکٹریاں بھی مہاجروں کی تھیں اور ان میں کام کرنے والے جو مزدور بیروزگار ہوئے وہ بھی مہاجر ہی تھے۔ بلاشبہ مہاجروں نے ایم کیو ایم کے لیے بہت قربانیاں دیں کہ اس سے ان کا اور ان کی اولاد کا مستقبل سنور جائے گا مگر اس پارٹی کا رخ بھلائی سے دوسری سمت موڑ دیا گیا تھا اور اس کی ذمے دار خود پارٹی قیادت تھی۔ اب مہاجر اس سانحے سے گزرنے کے بعد اپنے آباء و اجداد کے بہت سوچ سمجھ کر بنائے گئے پاکستان کو مزید برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے، وہ پاکستان کے سچے شہری ہیں اور پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
فاروق ستار ایک جہاں دیدہ سیاسی رہنما ہیں ، اب انھیں تمام پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں پی ایس پی کے سربراہ کا یہ کہنا بالکل درست لگتا ہے کہ مہاجروں نے خود کو ایم کیو ایم سے منسوب کرکے اپنے آپ کو محدود کرلیا تھا۔ اس سے مہاجروں کو بہت نقصان پہنچا۔ اب انھیں پاکستان کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔
اس لیے کہ اسی میں ان کی فلاح و ترقی کا راز مضمر ہے۔ کراچی کے کئی سیاسی رہنماؤں کو کراچی کی آبادی کم دکھانے پر اعتراض ہے۔ اب اس وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں گھر گھر جاکر ووٹروں کی تصدیق کا کام جاری ہے۔
کاش کہ اس موقع پر اس کام کی نگرانی یہ سیاسی رہنما کریں تاکہ کراچی کا کوئی محلّہ اور گھر ووٹنگ اندراج سے نظر انداز نہ ہونے پائے اور کراچی کے عوام کی صحیح گنتی ہوسکے۔ جہاں تک کراچی کی کم آبادی شمار ہونے کا معاملہ ہے یا میئر کے اختیارات میں کمی کا مسئلہ ہے یہ دونوں ہی مسائل ایم کیو ایم کے حکومتی فیصلوں کو قبول کرنے سے پیدا ہوئے ہیں اب ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔