بن کھلے مرجھاتے پھول
احساسات جو ’’اذیت، تکلیف، خیال اور لحاظ‘‘ پر مبنی ہوتے ہیں
کبھی قبرستان جانا ہو اور نظر کسی معصوم بچے کی قبر پر مرکوز ہو جائے، توکچھ''عجیب'' سے احساسات دل میں جگہ بنانے لگتے ہیں۔ احساسات جو ''اذیت، تکلیف، خیال اور لحاظ'' پر مبنی ہوتے ہیں۔ انھی احساسات کے پیش نظر اسوقت اور تو شاید کچھ نہیں لیکن اس معصوم کی قبر پر ''فاتحہ خوانی'' ضرور کردی جاتی ہے۔
یہ مثبت سوچ، یہ اچھا سا احساس، یہ بہترین کام، قبرستان میں مدفون معصومین کے لیے تو ہو جاتا ہے، جو کہ یقینا قابلِ قدر اور قابل تعریف ہے! لیکن... بستی خاموشاں سے باہر... ایک ''جیتی، جاگتی'' دنیا میں موجود ، ان زندہ بچوں کا کیا، جن کی پریشاں زیست کا ہر گزرتا دن ان کے لیے موت سے بدتر ہوتاجا رہا ہے، جن کے پاؤں ننگے،،پیٹ خالی' اور جگہ، جگہ سے ادھڑا، پھٹا لباس ''مقدر'' بنا ہوا ہے، ایسے غریب، لاوارث، بے گھر اور بے سہارا بچوں کی دادرسی کے لیے کیا اقدامات اور کیا کام ہو نے ضروری ہیں جو ان بچوں کی زندگی میں تبد یلی، بہتری اور خوشیاں لاسکیں؟ یہ سوال، گزشتہ کئی دہائیوں سے، محض ایک سوال ہی بن کر رہ گیا ہے۔
ہم میں بہت سے لوگ اس تلخ حقیقت سے شاید ناواقف ہیں کہ پاکستان میں سالانہ، انگنت شیرخوار بچے، اپنی زندگی کے پہلے ہی سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کچھ عرصہ''جی'' بھی لیں تو ''پانچ سال'' پورے کرنا محال ہیں،بہت سے تو ایسے بھی ہیں جو خوبصورت زندگی کا خواب، بند آنکھوں میں سجائے واپس لوٹ جاتے ہیں،یعنی کہ پیدا ہوتے ہی، یا پھر ''رحم ماد ر'' میں ہوتے ہوئے ہی، اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔
بچوں کی اموات کا دیرینہ مسئلہ پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے،بالخصوص نوزائیدہ بچوں کی ''شرح اموات'' پریشان کن حد تک بڑھی ہوئی ہیں، دوسری جانب ان کی صحت سے متعلق شماریات، معلومات اور اقدامات انتہائی ناقص صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں موجود لوگ صحت سے وابستہ علاج و معالجے کی جس ''نازک'' صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی، چھپی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں موجود بچوں کو لاحق (نمایاں) بیماریوں میں اسہال، نمونیہ، خسرہ، ملیریا اور غذائی قلت سے پیدا ہونے والے مرض عام ہیں، جب کہ نوزائیدہ بچوں میں قبل از وقت پیدائش، دم گھٹنا، تشنج، خون اور جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریاں، موت کی وجہ بنتی ہیں۔ اب تو چکن گونیہ، روٹا وائرس، ڈنگی اور HIV / AIDS جیسے مہلک امراض بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔
صحت مند زندگی کا خواب پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لاچاربچوں کے لیے محض ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اپنے اوپر بیتی ستم ظریفی تو برداشت ہوہی جاتی ہے لیکن، جب غریب والدین سے بات، ان کے بیمار بچوں کی صحت کے بارے میں کی جائے، تو ''شدت افسوس'' سے آنکھیں نم ہوجانا یقینی ہے، ان کی ''سچ بیانی'' اگرچہ دن کے بھرپور ''اجالوں'' میں سنی جائے، تب بھی سامعین کومایوسی اور ناامیدی کے ''اندھیروں'' میں لے ہی جاتی ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں...کمی وسائل کی ہو یا زیادتی کرپشن کی، پیشہ وارانہ ہنرمندی کا فقدان ہو یا پھر اچھی ''نیتوں'' کا، ہمارا ملک کئی عشروں سے اس مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان کا موازنہ اگر دیگر ایشیائی ممالک سے کیا جائے تو واضح ہوگا کہ پاکستان، بچوں کی اموات یا اس کی روک تھام کے سلسلے میں، کم ترین شرح کا حامل رہا ہے، اگرچہ گزشتہ بیس سالوں میں اس سلسلے میں کچھ کام ہوتا ہوا ضرور نظر آیا ہے، لیکن (بشمول دیگر پیچیدگیوں کے) اس کام کی رفتار اسقدر''سست'' ہے کہ حاصل ہونے والے ثمرات بے معنی سے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
صحت سے جڑے مسائل اب تک ختم کیوں نہ ہو سکے؟ کیا ذمے داریوں کو نیک نیتی سے نبھایا جا رہا ہے؟ اس ضمن میں متعلقہ اداروں اور حکام بالا کی کاوشیں کیا ہیں؟ پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں معیاری اور موثرHealth Infrastructure کا قیام کب عمل میں آئے گا؟ کیا بدعنوانی، بدنیتی، اقربا پروری اور ناانصافی جیسے''ناسور'' کا خاتمہ ممکن ہے؟ یہ تمام سوالات ملک میں بسنے والے، انسانیت کا درد محسوس کرنے والے اور وطن سے پیار کرنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود اور جواب طلبی کے منتظر ہیں۔
بہرحال... سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا بنے گا ان والدین کا جن کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ چکے ہیں، یا پھر وہ جو زندگی اور دردناک موت کے درمیان کا فاصلہ روز بروز کم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کیا ایسے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا والدین کے لیے ان کے بچوں کا متبادل کچھ ہو سکتا ہے؟ ان کٹھن اور نامصائب حالات میں ہمارے مستقبل کے اس ڈوبتے ''سورج'' کا ابھرنا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا، لیکن۔۔ لیکن اگر یہ معجزہ رونما نہ ہوا تو... تو کیا ہو گا؟ دعا ہے، اللہ کریم ہمارے وطن عزیز کے بچوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور انھیں ہر بیماری سے شفا ء عطا فرمائے۔( آمین)
حال ہی میں بچوں کے بارے میں لکھی گئی، اپنی ایک آزاد نظم قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں:
''چلو آؤ...''
کچھ ایسا کرتے ہیں
خوشیاں بکھیر دیتے ہیں
آنسو چرا لیتے ہیں
ننھے، منے پھولوں کو
مرجھانے سے بچا لیتے ہیں
بچوں کو بتا دیتے ہیں
کہ ہاتھوں میں تھا مے ہاتھ
ہم سب
ان کے ساتھ ہیں
چلو آؤ...
کچھ ایسا کرتے ہیں۔