ملک کی زبوں حالی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بہت شور سنتے ہیں پہلو میں دل کا۔ مہنگائی ، مہنگائی اور مہنگائی جس ملک کے وزراء صرف زبانی جمع خرچ پر یقین رکھتے ہیں، اس ملک کو دشمن کے حملوں کی ضرورت نہ ہوگی، اندرونی حملے ہی اتنے ہونگے اس پر جواس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور چاٹ رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انھی زمینی آفات کا شکار وطن عزیز پاکستان ہو رہا ہے۔
معیشت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری اقتصادی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ کیا کہنے ! ہمارے پیارے وطن کو بین الاقوامی قرضوں تلے دبا دیا گیا ہے جس کی اہم ترین وجہ صرف اور صرف ایسی سیاسی وابستگیاں رکھنے والے نمایندے ہیں جنھیں صرف اپنا خزانہ بھرنا ہے اور اس کے لیے وہ کرپشن کی ایسی تاریخ رقم کرر ہے ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی اور اس پر ڈھٹائی یہ کہ عدالتی انکوائری کروائے جانے کے بعد بھی وہ کوئی افسوس تو دور کی بات شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے ۔ گورنمنٹ کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں میں ایسے افراد کا تقرر کیا گیا ہے جو ملک اور اس ادارے کے وفادار ہونے کی بجائے حاکم وقت کی پرستش میں مبتلا ہیں۔
ان سے پیسہ کھانے کی وجہ سے ان کی غلامی پر مجبور ہیں ان کے لیے ہر نا جائز کام کو جائز سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت بھی اتنی نہیں ہوتی کہ کسی بات کو ، کسی لفظ کو صحیح طور پر سمجھ سکیں ، لکھ سکیں انگریزی جملے تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے ایک بہت ہی شفیق محسن نے حالات حاضرہ پر لکھنے کے لیے اصرار کیا یوں تو اب ہم حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں کیونکہ دور حاضر میں حالات حاضرہ پر لکھنا محض صفحے سیاہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں چونکہ جن اشرافیہ کے لیے ہم اپنے مادر وطن کی محبت میں سرشار ہو کر وطن عزیز کی حالت زار اور اس میں بسنے والی خلق خدا کا نوحہ کرتے ہیں۔
تاکہ ارباب اختیار ان کی بھلائی اور بہتری کے لیے کچھ سوچیں پر ان اعلیٰ و ارفع انسانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ان جیسی دیگر تحریروں کو پڑھ سکیں جن میں عوام سے متعلق کچھ گزارشات ہوں تاکہ وہ خوش نصیب لوگ جنھیں اللہ نے اختیار عطا کیا مظلوم عوام نے اپنا نمایندہ چنا اسی دکھیاری عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ اقدامات کرسکیں۔ افسوس صد افسوس جب اقتدار ، اختیار اور پیسے کا نشہ چڑھ جاتا ہے تو آنکھوں کی بینائی کے ساتھ ساتھ دماغ بھی مکمل ماؤف ہو جاتا ہے اور آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں۔
وطن عزیز کے اعلیٰ ترین عہدے دار کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک پر تعش دعوت کا اہتمام کیا گیا ظاہر ہے اس میں ہر طرح کی بڑی شخصیات مدعو ہوتی ہیں۔ (بہرحال بڑائی کا مفہوم و تعریف بہ لحاظ دنیا سب جانتے ہیں ، کیونکہ دنیا اور آخرت کے مطالب لوگوں نے اپنی اپنی سہولتوں کے حساب سے بنا لیے ہیں اور اس پر سختی سے کاربند ہیں) ، اس عظیم الشان تقریب میں کچھ علم کے متوالے ، حق و سچ لکھنے کے جنون میں مبتلا معاشرے اور انسانیت کا درد رکھنے والے بھی موجود تھے جو ہر آنکھ کو نہیں بھاتے کیونکہ ان کے ضمیر زندہ ، ان کے دل میں خدا کا خوف روز جزا و سزا کی فکر ہوتی ہے کہ ایک دن وہ سب پر آئے گا۔
ایسی ہستیوں کو بلایا ضرور جاتا ہے صرف جمہوری عمل کی نشاندہی کے لیے۔ اپنے عہدے کے غرور میں سرشار جب وہ شخصیت تقریب میں تشریف لائے تو ان کے سیکریٹری نے انھیں سب سے ملوایا جب اساتذہ رائٹرز کی صفوں کی طرف انھیں لایا گیا تو وہ یہ کہتے ہوئے منہ پھیر کر وہاں سے گذر گئے کہ ہاں یہ بھی ایک طبقہ ہے ہمارے ملک کا۔ ان کے اس رویے سے اس طبقے کو کوئی حیرت اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ انھوں نے تقریب میں آتے ہوئے اس عالی الشان عمارت کے گیرج جہاں سے ان عالم فاضل ہستیوں کو لایا گیا تھا، وہاں انھوں نے کتابوں کی ناقدری دیکھ لی تھی کہ جگہ جگہ کتابیں فرش پر بکھری پڑی ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ وہ بتلائیں یا ہم بتلائیں کہ جب ملک کی باگ ڈور ایسے اشخاص کے پاس ہوگی تو بے چارہ ملک ترقی کرے گا یا تنزلی کی راہ لے گا۔
ایسی انگنت مثالیں موجود ہیں جس سے یہ جاننا کوئی پہیلی نہیں کہ ملک گزشتہ کئی سالوں سے کس ڈگر پر چل رہا ہے جہاں آئے دن پیٹرولیم مصنوعات یا پھر بجلی کے نرخوں (جب کہ بجلی کی عدم فراہمی اپنے عروج پر ہے) میں مسلسل اضافے کی صورت میں جاری و ساری ہے۔
یہاں ٹیکس کا سارا بوجھ درمیانے طبقے پر ہے چاہے وہ بے روزگار ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی آمدنی ہو نہ ہو وہ اپنی ضروریات کس قدر تکلیف سے پوری کرتا ہو، پر وہ حکمرانوں کے اخراجات کے لیے ٹیکس دے گا ورنہ اس کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ بازار سے کوئی بھی چیز لے گا مارکیٹ ریٹ پر لے گا جو بھی ٹیکس اس میں لکھے ہوں گے وہ بدنصیب ادا کرے گا، نان فائلر ہوگا تو ڈبل دے گا ارے کوئی اس بدنصیب سے پوچھو تو کہ تم روزگار سے وابستہ بھی ہو یا نہیں اگر نہیں تو حکومتی زکوۃ خیرات کے پیکیجز لے لو ارے کیوں لے لو سفید پوش آدمی پر آخر زندگی اتنی تنگ کیوں کی جارہی ہے کہ وہ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
کیوں وہ اس آزاد ملک کے باعزت با وقار شہری کی طرح ایک اچھی جاب کے مستحق نہیں خصوصاً اردو بولنے والوں پر زندگی اتنی تنگ کیوں کی جارہی ہے اتنی محنت سے مڈل کلاس طبقے کے ماں باپ اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ آخری عمر میں بے آسرا ہو کر رہ جائیں۔ اپنی اولاد کی پڑھائی لکھائی کے لیے ساری جمع پونجی تو لگا دیتے ہیں، اب روزگار کی غرض سے ان کو باہر بھیجنے کے لیے اپنا سائبان تک فروخت کرنا پڑ جاتا ہے ( اگر بڑی مشکل سے انھوں نے کسی نہ کسی طرح بنا لیا ہو تو جو کہ آج کے دور میں ایک سفید پوش کے لیے بے انتہا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے) ورنہ قرضے لے کر اولاد کی زندگی کے لیے کہ کہیں حالات کی مایوسی ناامیدی ان کے لخت جگر پر غالب آگئی تو ساری عمر کا رونا رہ جائے گا۔
اس لیے وہ اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنی امیدوں کا گلہ اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک جن کی ہر دم نقالی کی جاتی ہے اس لیے کہ وہاں کا تعلیمی فیض چاہے سی گریڈ کا ہو یا ڈی گریڈ کا سر چڑھ کر بولتا ہے۔
ان ممالک میں ٹیکس دینے والوں کو ہر طرح کی مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ مادر وطن میں بے روزگار باپ خود تو بھوکا رہ سکتا ہے پر اولاد کی بھوک برداشت نہیں کرسکتا اس لیے مجبور ہوکر بغیر سوچے سمجھے خودکشی کرلیتا ہے ،کیونکہ حالات اس حد تک مایوس کردیتے ہیں ۔
صحت کے حوالے سے جملہ پریشانیوں نے تو عوام کو مار ہی ڈالا ہے۔ اس مہنگائی میں ڈاکٹروں کے خرچوں سے تو سفید پوش کو مرجانا ہی بہتر لگتا ہے کیونکہ بھاری فیسوں کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہو پاتا جس کی اہم ترین وجہ لالچ ہے جس کے باعث خدا نے ان کے ہاتھوں سے شفا دور حاضر میں مڈل کلاس طبقہ المعروف غریب عوام ٹیکس دینے کے باوجود مہنگائی کے شر سے فیض یاب ہونے کے لیے رہ گیا ہے۔ وطن عزیز کو اس مہنگائی نے جس طرح دولخت کردیا ہے تو سمجھو عوام کے صبر کا پیمانہ اب مکمل طور پر بھر چکا ہے۔ بقول شاعر۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کہ ہاتھوں مر چلے
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بہت شور سنتے ہیں پہلو میں دل کا۔ مہنگائی ، مہنگائی اور مہنگائی جس ملک کے وزراء صرف زبانی جمع خرچ پر یقین رکھتے ہیں، اس ملک کو دشمن کے حملوں کی ضرورت نہ ہوگی، اندرونی حملے ہی اتنے ہونگے اس پر جواس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور چاٹ رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انھی زمینی آفات کا شکار وطن عزیز پاکستان ہو رہا ہے۔
معیشت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری اقتصادی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ کیا کہنے ! ہمارے پیارے وطن کو بین الاقوامی قرضوں تلے دبا دیا گیا ہے جس کی اہم ترین وجہ صرف اور صرف ایسی سیاسی وابستگیاں رکھنے والے نمایندے ہیں جنھیں صرف اپنا خزانہ بھرنا ہے اور اس کے لیے وہ کرپشن کی ایسی تاریخ رقم کرر ہے ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی اور اس پر ڈھٹائی یہ کہ عدالتی انکوائری کروائے جانے کے بعد بھی وہ کوئی افسوس تو دور کی بات شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے ۔ گورنمنٹ کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں میں ایسے افراد کا تقرر کیا گیا ہے جو ملک اور اس ادارے کے وفادار ہونے کی بجائے حاکم وقت کی پرستش میں مبتلا ہیں۔
ان سے پیسہ کھانے کی وجہ سے ان کی غلامی پر مجبور ہیں ان کے لیے ہر نا جائز کام کو جائز سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت بھی اتنی نہیں ہوتی کہ کسی بات کو ، کسی لفظ کو صحیح طور پر سمجھ سکیں ، لکھ سکیں انگریزی جملے تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے ایک بہت ہی شفیق محسن نے حالات حاضرہ پر لکھنے کے لیے اصرار کیا یوں تو اب ہم حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں کیونکہ دور حاضر میں حالات حاضرہ پر لکھنا محض صفحے سیاہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں چونکہ جن اشرافیہ کے لیے ہم اپنے مادر وطن کی محبت میں سرشار ہو کر وطن عزیز کی حالت زار اور اس میں بسنے والی خلق خدا کا نوحہ کرتے ہیں۔
تاکہ ارباب اختیار ان کی بھلائی اور بہتری کے لیے کچھ سوچیں پر ان اعلیٰ و ارفع انسانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ان جیسی دیگر تحریروں کو پڑھ سکیں جن میں عوام سے متعلق کچھ گزارشات ہوں تاکہ وہ خوش نصیب لوگ جنھیں اللہ نے اختیار عطا کیا مظلوم عوام نے اپنا نمایندہ چنا اسی دکھیاری عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ اقدامات کرسکیں۔ افسوس صد افسوس جب اقتدار ، اختیار اور پیسے کا نشہ چڑھ جاتا ہے تو آنکھوں کی بینائی کے ساتھ ساتھ دماغ بھی مکمل ماؤف ہو جاتا ہے اور آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں۔
وطن عزیز کے اعلیٰ ترین عہدے دار کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک پر تعش دعوت کا اہتمام کیا گیا ظاہر ہے اس میں ہر طرح کی بڑی شخصیات مدعو ہوتی ہیں۔ (بہرحال بڑائی کا مفہوم و تعریف بہ لحاظ دنیا سب جانتے ہیں ، کیونکہ دنیا اور آخرت کے مطالب لوگوں نے اپنی اپنی سہولتوں کے حساب سے بنا لیے ہیں اور اس پر سختی سے کاربند ہیں) ، اس عظیم الشان تقریب میں کچھ علم کے متوالے ، حق و سچ لکھنے کے جنون میں مبتلا معاشرے اور انسانیت کا درد رکھنے والے بھی موجود تھے جو ہر آنکھ کو نہیں بھاتے کیونکہ ان کے ضمیر زندہ ، ان کے دل میں خدا کا خوف روز جزا و سزا کی فکر ہوتی ہے کہ ایک دن وہ سب پر آئے گا۔
ایسی ہستیوں کو بلایا ضرور جاتا ہے صرف جمہوری عمل کی نشاندہی کے لیے۔ اپنے عہدے کے غرور میں سرشار جب وہ شخصیت تقریب میں تشریف لائے تو ان کے سیکریٹری نے انھیں سب سے ملوایا جب اساتذہ رائٹرز کی صفوں کی طرف انھیں لایا گیا تو وہ یہ کہتے ہوئے منہ پھیر کر وہاں سے گذر گئے کہ ہاں یہ بھی ایک طبقہ ہے ہمارے ملک کا۔ ان کے اس رویے سے اس طبقے کو کوئی حیرت اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ انھوں نے تقریب میں آتے ہوئے اس عالی الشان عمارت کے گیرج جہاں سے ان عالم فاضل ہستیوں کو لایا گیا تھا، وہاں انھوں نے کتابوں کی ناقدری دیکھ لی تھی کہ جگہ جگہ کتابیں فرش پر بکھری پڑی ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ وہ بتلائیں یا ہم بتلائیں کہ جب ملک کی باگ ڈور ایسے اشخاص کے پاس ہوگی تو بے چارہ ملک ترقی کرے گا یا تنزلی کی راہ لے گا۔
ایسی انگنت مثالیں موجود ہیں جس سے یہ جاننا کوئی پہیلی نہیں کہ ملک گزشتہ کئی سالوں سے کس ڈگر پر چل رہا ہے جہاں آئے دن پیٹرولیم مصنوعات یا پھر بجلی کے نرخوں (جب کہ بجلی کی عدم فراہمی اپنے عروج پر ہے) میں مسلسل اضافے کی صورت میں جاری و ساری ہے۔
یہاں ٹیکس کا سارا بوجھ درمیانے طبقے پر ہے چاہے وہ بے روزگار ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی آمدنی ہو نہ ہو وہ اپنی ضروریات کس قدر تکلیف سے پوری کرتا ہو، پر وہ حکمرانوں کے اخراجات کے لیے ٹیکس دے گا ورنہ اس کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ بازار سے کوئی بھی چیز لے گا مارکیٹ ریٹ پر لے گا جو بھی ٹیکس اس میں لکھے ہوں گے وہ بدنصیب ادا کرے گا، نان فائلر ہوگا تو ڈبل دے گا ارے کوئی اس بدنصیب سے پوچھو تو کہ تم روزگار سے وابستہ بھی ہو یا نہیں اگر نہیں تو حکومتی زکوۃ خیرات کے پیکیجز لے لو ارے کیوں لے لو سفید پوش آدمی پر آخر زندگی اتنی تنگ کیوں کی جارہی ہے کہ وہ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
کیوں وہ اس آزاد ملک کے باعزت با وقار شہری کی طرح ایک اچھی جاب کے مستحق نہیں خصوصاً اردو بولنے والوں پر زندگی اتنی تنگ کیوں کی جارہی ہے اتنی محنت سے مڈل کلاس طبقے کے ماں باپ اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ آخری عمر میں بے آسرا ہو کر رہ جائیں۔ اپنی اولاد کی پڑھائی لکھائی کے لیے ساری جمع پونجی تو لگا دیتے ہیں، اب روزگار کی غرض سے ان کو باہر بھیجنے کے لیے اپنا سائبان تک فروخت کرنا پڑ جاتا ہے ( اگر بڑی مشکل سے انھوں نے کسی نہ کسی طرح بنا لیا ہو تو جو کہ آج کے دور میں ایک سفید پوش کے لیے بے انتہا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے) ورنہ قرضے لے کر اولاد کی زندگی کے لیے کہ کہیں حالات کی مایوسی ناامیدی ان کے لخت جگر پر غالب آگئی تو ساری عمر کا رونا رہ جائے گا۔
اس لیے وہ اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنی امیدوں کا گلہ اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک جن کی ہر دم نقالی کی جاتی ہے اس لیے کہ وہاں کا تعلیمی فیض چاہے سی گریڈ کا ہو یا ڈی گریڈ کا سر چڑھ کر بولتا ہے۔
ان ممالک میں ٹیکس دینے والوں کو ہر طرح کی مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ مادر وطن میں بے روزگار باپ خود تو بھوکا رہ سکتا ہے پر اولاد کی بھوک برداشت نہیں کرسکتا اس لیے مجبور ہوکر بغیر سوچے سمجھے خودکشی کرلیتا ہے ،کیونکہ حالات اس حد تک مایوس کردیتے ہیں ۔
صحت کے حوالے سے جملہ پریشانیوں نے تو عوام کو مار ہی ڈالا ہے۔ اس مہنگائی میں ڈاکٹروں کے خرچوں سے تو سفید پوش کو مرجانا ہی بہتر لگتا ہے کیونکہ بھاری فیسوں کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہو پاتا جس کی اہم ترین وجہ لالچ ہے جس کے باعث خدا نے ان کے ہاتھوں سے شفا دور حاضر میں مڈل کلاس طبقہ المعروف غریب عوام ٹیکس دینے کے باوجود مہنگائی کے شر سے فیض یاب ہونے کے لیے رہ گیا ہے۔ وطن عزیز کو اس مہنگائی نے جس طرح دولخت کردیا ہے تو سمجھو عوام کے صبر کا پیمانہ اب مکمل طور پر بھر چکا ہے۔ بقول شاعر۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کہ ہاتھوں مر چلے