پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ اس وقت نیب ہے شاہد خاقان عباسی

نیب ایک ٹول ہے جو لوگوں کے ضمیر خریدنے کے کام آتا ہے، سابق وزیراعظم


ویب ڈیسک November 21, 2021
تفتیش اور عدالتوں میں کیمرے لگائیں تاکہ عوام کو اصل حقائق پتہ چل سکیں، شاہد خاقان عباسی۔ فوٹو:فائل

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ اس وقت نیب ہے۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ احتساب کی حقیقت ابھی طرف دھاندلی ہے کیونکہ قانون کو غلط استعمال کیا جاتا ہے، احتساب کے نام پر جو قانون بنتے رہے وہ ان لوگوں پر کبھی اپلائی نہیں ہوئے جنہوں نے قانون بنائے، یہ قوانین ججز جرنیلوں بیورو کریسی اور صنعت کاروں کے لیے نہیں بنائے گئے، نیب کا نشانہ صرف سیاستدان بنے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ نیب ایک ٹول ہے جو لوگوں کے ضمیر خریدنے کے کام آتا ہے، پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ اس وقت نیب ہے، چیرمین نیب بتائیں کہ کس سیاستدان سے کرپشن کی رقم برآمد ہوئی، یا بتائیں کس سیاستدان کو اب تک سزا ہوئی، میں تین سال نیب جیل اور بارہ سال نیب کے دفاتر کے چکر لگاتا رہا ہوں، نواز شریف کو جن کیسز میں سزا ہوئی وہ سب کے سامنے ہیں، نیب کہتا ہے میں آپ کو منی لانڈر کہتا ہوں اب آپ ثابت کریں کہ آپ منی لانڈر نہیں ہیں، نیب کیسز میں خود ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے، کیا چیرمین نیب یا عدلیہ نہیں جانتے کہ کسی کو چارج شیٹ کے بغیر منی لانڈرنگ کا ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے فنانشل ریکارڈ 7 سال کا رکھنا ضروری ہے، نیب کہتا ہے 35 سال پرانا ریکارڈ لائیں، ظاہر ہے وہ کسی کے پاس نہیں ہوگا، اگر آپ سیاستدانوں کا احتساب چاہتے ہیں تو انہیں عوام کے سامنے اپنے اکاؤنٹس اور لائف اسٹائل کا حساب دینا ہوگا، اگر کوئی ممبر 6 کروڑ کی گاڑی میں آئے اور 50 کروڑ کے گھر میں رہے تو وہ کرپٹ سیاستدان ہے یہ سوچ ہے، اس طرح صدر وزیر اعظم کو پوچھنا چاہئے کہ وہ لگژری گھروں میں کیسے رھ رہے ہیں۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ جج بنتے ہوئے 10 سال کا اکاؤنٹس کا حساب کیوں نہیں لیا جاتا، نیب صرف انفرادی اور اجتماعی انتقام کے لیے احتساب کا نعرہ لگاتا ہے، نیب بیوروکریٹ کے سامنے گرفتاری کا وارنٹ اور وزیر کے خلاف بیان کی کاپی رکھتا ہے اور سائن کرنے کا کہتا ہے، ایسے شخص کو کیسے بلا سکتا ہے جس کا پبلک منی ہر کنٹرول نہیں ہوتا، تفتیش کے دوران اور عدالتوں میں کیمرے لگائے جائیں تاکہ عوام کو اصل حقائق پتہ چل سکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں