زندگی میں بہت پاپڑ بیلے‘‘ عالمی سطح پر اردو ادب کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا

معروف نقاد اور افسانہ نگار، رئوف نیازی کی کہانی

معروف نقاد اور افسانہ نگار، رئوف نیازی کی کہانی۔ فوٹو ایکسپریس

وہ مختصر سا کمرا، جہاں اُن کا دن بیتتا ہے، مکان کی پہلی منزل پر ہے۔ کمرے کے بڑے حصے پر کتابیں قابض ہیں۔ میز بھی کتابوں سے سجی ہے، اُسی پر قلم، کاغذات کے پلندے اور ٹیلی فون دھرا ہے۔ ایک پلنگ کی موجودگی کے بعد جو تھوڑی بہت جگہ بچتی ہے، اُسے کرسیاں پُر کر دیتی ہیں۔ وہاں روشنی کی فراوانی ہے کہ کھڑکی کُھلی رہتی ہے، اُجالا در آتا ہے، اُن کے مطالعے میں ڈوبے دنوں کا گواہ بنتا ہے۔

یہ ایک ایسے علم دوست انسان کی کہانی ہے، جس نے مطالعے کو حرز جاں بنا رکھا ہے۔ رئوف نیازی اُن لوگوں میں سے ہیں، جو لکھتے کم، پڑھتے زیادہ ہیں۔ تدریس، بینکنگ اور سیاست سے وابستہ رہنے والے رئوف صاحب کی پہلی ہی کتاب ''مابعدجدیدیت: تاریخ وتنقید'' نے اُنھیں سنجیدہ ناقدین کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔ دیگر کُتب کے علاوہ ایسے کئی سنجیدہ تنقیدی مضامین لکھے، جو معیاری ادبی جراید کی زینت بنے، زیر بحث آئے۔ مابعدجدیدی فکر اُن کی توجہ کا مرکز ہے، اِسی فلسفے سے مستقبل کے ادبی منصوبے نتھی ہیں۔ تنقید کے تعلق سے وہ یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح تخلیق ذہنی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے، اِسی طرح تنقید بھی کسی خاص نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیق پر اظہار پسند نہیں کرتی۔ کہتے ہیں،''تخلیق ذہنی آزادی کا نام ہے، تو تنقید ذہنی کشادگی کا!''

اُن کا پورا نام عبدالرئوف خان ہے۔ سلسلۂ نیازی سے بیعت ہونے کے باعث نام کے ساتھ نیازی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ 20 اکتوبر 1940 کو اُنھوں نے بانس بریلی، یوپی میں عبدالوحید خان کے گھر آنکھ کھولی، جو محکمۂ ریلوے سے منسلک تھے۔ چھے بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ بچپن میں خاصے شرارتی ہوا کرتے تھے، والد انتہائی سخت مزاج آدمی تھے، سو سزا باقاعدگی سے ملا کرتی۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان کراچی پہنچا، کچھ وقت لاہور میں بیتا، پھر پنڈی میں ڈیرا ڈالا۔ وہیں سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ پھر والد کا تبادلہ پشاور ہوگیا، جہاں اُنھوں نے حقیقی معنوں میں شعور کی آنکھ کھولی۔ بتاتے ہیں، کلیم میں والد کو پشاور میں ایک سنیما اور چارسدہ میں کچھ زمین ملی تھی، لیکن بعد میں اُن پر قبضہ ہوگیا۔

کرکٹ کا کھیل دل چسپی کا محور بنا رہا۔ یاد ہے، بچپن میں تخت لگا کر، چارپائیاں کھڑی کرکے اسٹیج تیار کیا کرتے تھے۔ محلے کے بچے اکٹھے ہوجاتے۔ پھر مشاعرے ہوتے، ڈرامے پیش کیے جاتے۔ پشاور سے وہ ماموں کے پاس واہ کینٹ چلے گئے، جہاں سے 56ء میں میٹرک کیا۔ پھر کراچی میں مقیم اپنے پھوپھا کے پاس آگئے، جنھوں نے اُنھیں سٹی کورٹ میں بہ طور کلرک بھرتی کروا دیا۔ نیشنل کالج سے فرسٹ ایئر کا مرحلہ طے کرنے کے بعد وہ بھاگ کر پشاور چلے گئے۔ وہاں سے لاہور کا رخ کیا کہ فلم نگری اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہاں قسمت آزمائی، بہ طور اسسٹنٹ بھی کام کیا۔ اُس وقت ''چراغ جلتا رہا'' کی کاسٹنگ ہورہی تھی۔ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے اُنھیں رد کردیا گیا، محمد علی منتخب ہوگئے۔ پروڈیوسر نے مشورہ دیا،''کچھ کھایا پیا کرو نوجوان، اگلی فلم میں تمھیں موقع دوں گا!'' خیر، چند ماہ وہاں صَرف ہوئے۔ جی اُوب گیا، تو ''ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، لیاقت آباد'' میں داخلہ لے لیا۔ بہ طور طالب علم پچاس روپے وظیفہ ملا کرتا تھا، ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے، یوں گزر بسر کا امکان پیدا ہوجاتا۔ 62ء میں ''سی ٹی'' کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے لگے۔ 63ء میں عثمانیہ کالج سے آرٹس سے انٹر کیا۔ پھر اردو کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

دو برس سندھ مدرسہ میں پڑھاتے رہے۔ پھر بی وی ایس پارسی اسکول سے نتھی ہوگئے۔ اِسی عرصے میں اسٹیٹ بینک کے تحت ایک سالہ ٹریننگ حاصل کی، اور گریڈ ٹو کے افسر کی حیثیت سے حبیب بینک سے وابستہ ہوگئے۔ پیشہ ورانہ ذمے داریاں ہری پور لے گئیں۔ تیزی سے ترقی کے مراحل طے کیے، پانچ چھے برانچز کے انچارج ہوگئے، لیکن پھر لین دین کے معاملات میں پیدا ہونے والی چند بے قاعدگیوں سے دل برداشتہ ہو کر 75ء میں اُس ادارے سے الگ ہوگئے۔ شہر قائد لوٹ آئے، جہاں سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ وہ ایم ایم بشیر کی تشکیل کردہ جماعت ''کراچی صوبہ تحریک'' سے بہ طور جنرل سیکریٹری منسلک ہوگئے۔ صدر، احمد الطاف تھے۔ 77-8 میں جب جماعت نے بلدیہ کے انتخابات میں حصہ لیا، اُن کی رہایش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ بدلتے حالات اور اپنے کنسٹرکشن کے کاروبار کے باعث وہ دھیرے دھیرے سیاست سے دور ہوتے گئے۔ اُن ہی برسوں میں حافظ محمد تقی سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے لیاقت آباد میں قائم اپنے ذاتی دفتر کی کُلی ذمے داری اُنھیں سونپ دی۔ یہ ذمے داری، رضا کارانہ طور پر چند برس بہ خوبی نبھائی۔ جب کاروبار ڈوب گیا، تو تدریس کی جانب لوٹ آئے۔ چھے سات برس چینیوٹ اسکول میں پڑھاتے رہے۔ بعد کے برسوں میں خود کو لکھنے پڑھنے کے کاموں میں الجھائے رکھا۔ کہتے ہیں،''زندگی میں بہت پاپڑ بیلے، اب بھی بیل رہا ہوں!''

ماضی بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ علمی و ادبی ماحول وراثت میں ملا۔ مطالعے کا آغاز ابن صفی سے ہوا۔ اسکول سے بھاگنے کا سبب والدہ کی کتابوں کا ذخیرہ بنا، جن میں سے کوئی ایک اٹھاتے، اسکول کا کہہ کر گھر سے نکلتے، اور پارک میں جا بیٹھتے۔ لکھنے کی تحریک ہوئی، تو کہانیاں سُپرد قلم کیں، جو مختلف رسائل میں شایع ہوئیں۔ پھر تخلیقی سفر میں ایک طویل وقفہ آگیا۔ چینیوٹ اسکول کے زمانے میں شاعر اور نقاد، شفیق احمد شفیق سے ملاقات ہوئی، جن کی تحریک پر ایک بار پھر قلم تھام لیا، افسانے لکھے، جو مختلف جراید میں شایع ہوئے۔ تقریبات میں بھی آنے جانے لگے۔ جو کتابیں اُن کے پاس آتیں، اُن پر تبصرہ لکھ ڈالتے۔


وہ ادبی تنظیم ''حلقۂ آہنگ نو'' کے جوائنٹ سیکریٹری رہے، جس کی نشستیں، پروفیسر اظہر قادری کی سرپرستی میں شفیق احمد شفیق کے گھر ہوا کرتی تھیں۔ ''ترسیل'' کے نام سے ایک ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ باندھا، لیکن ایک ہی شمارہ شایع ہوسکا۔ ''حلقۂ آہنگ نو'' سے الگ ہوئے، تو نورالہدیٰ سید سے رابطہ ہوگیا، ''انجمن جدید مصنفین'' کے صدر ہوگئے۔ یہ انجمن اُس وقت عالم تعطل میں تھی۔ رئوف صاحب نے تنظیم کے بدن میں نئی روح پھونکی، لیکن بعد میں چند وجوہات کے باعث وہ اُس سے الگ ہوگئے۔ اب ''دراک'' کی بنیاد رکھی گئی۔ وہ صدر مقرر ہوئے، اور آج اِسی حیثیت میں مصروف ہیں۔ شمشاد احمد نائب صدر، سلمان صدیقی سیکریٹری ہیں۔ تنظیم کی نشستیں ماہانہ بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ اُن کے مطابق ''دراک'' کے قیام کا مقصد اردو ادب کو بین الاقوامی رفتار ادب سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ ''ہمارے ہاں ادبی تحاریک ہی کے نتیجے میں بین الاقوامی ادب میں آنے والی تبدیلیوں سے واقفیت پیدا ہوئی، تاہم ایک تحریک کے اختتام اور دوسری کے آغاز کا درمیانی وقفہ اتنا طویل ہوتا ہے کہ ہم بین الاقوامی ادبی صورت حال سے یک سر کٹ جاتے ہیں۔ یہی خواہش ہے کہ ہماری ادبی برادری عالمی رفتار ادب سے، یعنی کہاں کیا ہورہا ہے، واقف ہو۔ اِسی ضمن میں ہم کوشش کر رہے ہیں۔''

مابعدجدیدیت کے موضوع پر قلم اٹھانے کا محرک 93ء میں شایع ہونے والی گوپی چند نارنگ کی کتاب ''ساختیات، پس ساختیات'' بنی۔ کہتے ہیں، گوکہ اب اِس کتاب کی حیثیت متنازع ہوگئی ہے، تاہم اِسی نے اُن میں ادب کا نئے زاویے سے جائزہ لینے کی جُوت جگائی۔ اسی ضمن میں ڈاکٹر فہیم اعظمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کو پڑھا، اُن سے رابطہ بھی رہا۔

جلد ہی اِس احساس نے آن گھیرا کہ اردو میں اِس موضوع پر دست یاب کتابوں کے بجائے، بہتر ہے براہ راست پڑھا جائے۔ مغرب میں شایع ہونے والی کتابوں کی جانب متوجہ ہوئے، امریکا میں مقیم بھانجا اُنھیں کتابیں بھجواتا رہا۔ ذہن سازی ہوتی رہی، بالآخر خود قلم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ بتاتے ہیں، ساختیات کی تحریک جدیدیت کی شکل میں ڈھلی، جس سے مابعدجدیدیت کی سوتے پھوٹے۔ مابعدجدیدیت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں،''ہم کسی فکر کو تقلیدی طور پر اختیار نہ کریں، بلکہ اپنی صلاحیت، علمیت و فکر کو برتتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچیں۔'' مزید کہتے ہیں،''مابعدجدیدیت کی فکر کے نزدیک کوئی فکر، سوچ یا نظریہ حرف آخر نہیں ہوتا، کیوں کہ ارتقائی عمل جاری رہتا ہے!'' کیا اخلاقی سچائیاں بھی حتمی نہیں ہوتیں؟ اِس سوال کے جواب میں مختلف مثالیں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک سے موسمی حالات میں دو انسان مختلف طرز عمل اختیار کرسکتے ہیں۔ ''دراصل سچائیاں ذاتی ہوتی ہیں۔ یہ اپنے زمان و مکاں کی مطابقت سے ہوتی ہیں۔ جو چیز آپ کے نزدیک سچ ہے، میرے نزدیک جھوٹ ہے، جو مجھے صحیح لگتا ہے، آپ اُسے غلط سمجھتے ہیں!''

کیا یہ حقیقت ہے کہ مابعدجدیدی فکر کے ادیب، بڑا ادب پیش کرنے میں ناکام رہے؟ اِس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں، گوکہ یہ تحریک ابھی پوری طرح اردو میں نہیں آئی، تاہم اِس کے نقطۂ نگاہ سے کام ہورہا ہے، نیرعباس نیر اور وہاب اشرفی مابعدجدیدی تنقید لکھ رہے ہیں۔ فکشن میں وہ کسی کو نام زد کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔ ''دیکھیں، مابعدجدیدیت کو ابھی ہمارے ہاں سمجھا ہی نہیں گیا، اُس پر بھلا کیا لکھا جائے گا! نہ تو ایسا کوئی ناول، نہ ہی افسانہ نگار میری نظر سے گزرا، جو مابعدجدیدیت کے کلیوں پر پورا اترتا ہو۔'' ہاں، پاکستانی ادیبوں میں حسن منظر، محمد امین الدین اور سائرہ غلام نبی کے چند افسانوں میں اُنھیں مابعدجدیدی فکر کی جھلکیاں ضرور ملتی ہیں۔ کہنا ہے، ہندوستان میں یہ فکر زیادہ واضح ہے، البتہ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں مابعدجدیدی فکر کے ادیب، نسائیت کی جانب رجحان رکھتے ہیں۔ اِس ضمن میں فہمیدہ ریاض اور شہناز شورو کا نام لیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ''کہانی'' وہاں سے شروع ہوتی ہے، جہاں سے اُس میں مصنف کی ذاتیات کا دخل ہوجاتا ہے، ورنہ وہ ''رپورٹ'' ہے۔ اِسی باعث ترقی پسند ادب کے قائل نہیں۔

پہلی کتاب 2003 میں شایع ہوئی، پیش لفظ ڈاکٹر منظور احمد نے لکھا۔ علمی و ادبی حلقوں میں اِس کاوش کی بہت پذیرائی ہوئی۔ معروف ماہر تعمیرات، عارف حسن کی کتاب کا ''کراچی: منصوبہ سازی اور ترقیاتی متبادلات'' کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ کتاب ''کوزہ گر جہان فن'' افسانہ نگار اور شاعر، ابوالامتیاز ع س مسلم کے فن و شخصیت کی بابت تھی، جو مرحوم پروفیسر آفاق صدیقی کے ساتھ مرتب کی۔ 2007 میں نقد و نظر کے مضامین پر مشتمل کتاب، ''کچھ صورت گر افسانوں کے'' شایع ہوئی، جسے بہت پسند کیا گیا۔ مستقبل میں مابعدجدیدیت کی بابت دنیا کے مختلف حصوں میں تحریرکردہ مضامین کا ترجمہ کرنے کا ارادہ ہے۔ ''ترجمہ اِسی لیے کر رہا ہوں، تاکہ میرے قلم کاروں کو اندازہ ہو کہ دنیا میں لوگ کیا سوچ رہے ہیں، کیا لکھا جارہا ہے۔ ایسے ہزاروں موضوعات ہیں، جن پر لکھا جارہا ہے، تاہم ہمارے ادیبوں کو اُن کا علم نہیں!'' دو کتابیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ایک ''اطلاقی تنقید'' دوسری ''نظری تنقید'' کی بابت ہے۔ افسانوں کا مجموعہ شایع کرنے کا بھی ارادہ ہے۔

وہ اردو ادب کو بین الاقوامی ادب سے بہت پیچھے پاتے ہیں۔ ''دنیا میں لگ بھگ چھے ہزار زبانیں ہیں، جن میں تین ہزار فعال ہیں۔ اُن میں سے بھی بیش تر مخصوص دائرے میں ہیں۔ مستقبل فقط اُس زبان کا ہے، جو تجارتی سطح پر بولی اور سمجھی جاتی ہو، اور وہ ہے انگریزی! اِس زاویے سے عالمی سطح پر اردو ادب کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔'' اردو ادب کا دیگر زبانوں میں ترجمہ نہ ہونے کا سبب وہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ''ترجمے کے لیے کسی کتاب کا انتخاب اِس زاویے سے کیا جاتا ہے کہ اُس کے توسط سے قارئین کے سامنے کوئی نئی بات آئے گی۔ اب ایسی کتاب، جس میں سب گھسا پٹا ہو، وہی استعارے ہوں، پرانی باتیں ہوں، اُس کا کون ترجمہ کرے گا، اور کیوں کرے گا؟''

ادب کے مستقبل کو وہ پاکستان کے مستقبل سے جوڑتے ہیں۔ تنقید کے میدان میںگوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر فہیم اعظمی اور نیر عباس نیر کا نام لیتے ہیں۔ ناول میں اختصار اُن کے نزدیک بنیادی ضرورت ہے۔ اِس عہد کے ناول نگاروں میں آمنہ مفتی کو سراہتے ہیں۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ محسوس کرنے والے رئوف نیازی پرہیزی کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ مصروفیات بیماریوں کے خلاف ڈھال ہے۔ بہار کا موسم اُنھیں بھاتا ہے۔ دو شادیاں کیں۔ پہلی زوجہ سے ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔ بیٹی اور ایک بیٹے کی شادی ہوچکی ہے۔ پہلی بیگم کے انتقال کے بعد 95ء میں دوسری شادی کی۔
Load Next Story