فضائی آلودگی پر قابو پانے کی تدبیر کیجیے

فضائی آلودگی سے فصلوں، درختوں پر انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔


Editorial November 22, 2021
فضائی آلودگی سے فصلوں، درختوں پر انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔فوٹو:فائل

فضائی آلودگی کے اعتبار سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبرپر آگیا ہے۔ ملک کی فضا میں اسموگ کی آمیزش کا مسئلہ تو بہت ہی سنگین ہوگیا ہے اور ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد سانس اور جلدی امراض کا شکار تو ہورہے ہیں، ان کے پھیپھڑے بھی اس آلودگی سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔

نیز، ملک کے دیگر شہروں، خصوصاً کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ اور پشاور میں بھی فضائی آلودگی کی مقدار بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ ہے ۔اسموگ کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا تعمیراتی کام، کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے درخت اور سبزہ بھی اسموگ کی ایک وجہ ہیں۔

حکومتی وزرا میڈیا پر آکر بیانات دیتے ہیں کہ لاہور میں اسموگ کی وجہ بھارت میں جلائی جانے والی چاول کی فصلیں ہیں، لیکن شاید یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتے کہ لاہور جو کبھی اپنے باغات کی وجہ سے مشہور تھا، اب دنیا کا پہلے نمبر کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی کوتاہیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں،خود کو ہمیشہ بری الذمہ قرار دینا اور تمام واقعات سے خود کو الگ کرنا ہمیں خوب آتا ہے، کیا کبھی ہمارے پڑوسی ممالک کے وزرا یا وزیراعظم نے اپنے یہاں ماحولیاتی آلودگی کی ذمے داری دوسرے پر ڈالی ہے؟

فضائی آلودگی سے فصلوں، درختوں پر انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اسی سبب پیداوار میں 20سے 40فی صد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ زرعی اور قابلِ کاشت زمینوں کا خاتمہ کرکے وہاں دھڑا دھڑ رہائشی کالونیاں یا عمارتیں تعمیرکی جارہی ہیں۔ درحقیقت پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں پر نظر ڈالیں، تو جا بہ جا گندگی، غلاظت، کوڑے کرکٹ کے انبار نظر آتے ہیں۔

پولیتھین بیگز، سیوریج لائن بلاک کرنے کا سبب بنتے ہیں، جس کی وجہ سے گٹروں کا پانی سڑکوں پر پھیل جاتا ہے اور اُن پر بیٹھنے والی مکھیاں اور دیگر حشرات بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ملک میں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب کارخانے بھی ہیں۔

ملک کے صنعتی شہروں میں ٹیکسٹائل، چمڑے کھاد، سیمنٹ، غذائی مصنوعات، تیل، گھی، کاغذ، گتّے، رنگ و روغن، پولیسٹر، فائبر اور انڈسٹریل کیمیکلز وغیرہ کے لاتعداد کارخانے موجود ہیں، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر میں ماحولیات کے تجویز کردہ اُصولوں پر عمل درآمد نہیں ہوتاہے،کارخانہ دارمافیا کے طاقتور ہونے کی وجہ سے محکمہ ماحولیات بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتا ہے۔

نیز،شہروں کے گردونواح میں دھاتیں (لوہا، تانبا وغیرہ) پگھلانے کی لاتعداد بھٹّیاں اور کارخانے بھی قائم ہیں، جن سے خطرناک گیسز ہوا میں شامل ہوجاتی ہیں، جب کہ اکثر چھوٹی صنعتوں کو چلانے کے لیے ٹائرز، پلاسٹک کی اشیاء یا استعمال شدہ انجن آئل جلایا جاتا ہے، جس سے انتہائی مہلک گیس ڈائی آکسن اور پولی کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربنز پیدا ہوتے ہیں، جو سانس کی شدید بیماریوں اور جلد کی الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

اسی طرح تانبے، چاندی کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں خراب اور ناقابلِ استعمال کمپیوٹرز کے ہارڈ ویئرز، کِٹس اورالیکٹرانکس کا دیگر سامان جلا کر بھی خاصا منافع کمایا جاتا ہے، مگر اس عمل سے بھی زہریلی گیسز پیدا ہوتی ہیں، جو ماحول کو برُی طرح آلودہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نواحی علاقوں میں شہروں کا سیوریج کا پانی سبزیاں اُگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاں ایک طرف شہر اس قدر بے ہنگم طریقے سے بڑھے کہ اپنی حدود و قیود سے نکل گئے، تو دوسری طرف کارخانے، بھٹّے اور ٹریفک کی بھرمار نے بھی ماحول پراگندہ کردیا۔ تین دہائی قبل تک شہروں میں موٹر گاڑیوں کی تعداد انتہائی کم تھی، تاہم آج ہردوسرے گھر میں کئی کئی گاڑیاں ہیں، جو نہ صرف ٹریفک اور ماحولیاتی شور میں اضافے کا سبب ہیں، بلکہ ان سے نکلنے والا دھواں ماحول کو بے پناہ آلودہ بھی کررہا ہے۔

گاڑیوں میں نصب ایئرکنڈیشنرز سے نکلنے والی گرم ہوا اور فضا میں زہریلی گیسوں کی مقدار میں تیزی سے اضافہ بھی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ خصوصاً ملک کے بڑے صنعتی شہروں کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ڈائی آکسن، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ،پولی کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربن،ایلڈی ہائیڈ، کیٹون، بینزین کے کمپاؤنڈز، اَیروسول اورفری ریڈیکلز جیسی کثافتوں سے بھری پڑی ہے، جو بنی نوع انسان کے علاوہ کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے جانداروں کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔

دوسری طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کھپانے کے لیے دھرتی کے سینے سے ہرے بھرے درختوں کا قتل عام بھی جاری و ساری ہے، حالانکہ درخت کائنات کے پھیپھڑوں کی مانند ہیں، جو مہلک کثافتوں کو اپنے پتوں میں جذب کرکے جانداروں کی بقا کے لیے آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ درختوں کے پتے، پھول اور پھل غذا کے ساتھ مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں، لیکن افسوس ناک امر ہے کہ ملک میں جنگلات پانچ فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود جگہ جگہ درخت بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں۔

حکومت کے بلین ٹری منصوبے کا شوروغوغا تو بہت ہے لیکن عملی طور پر کیا ان درختوں کی تعداد، کسی نے گنتی کی ہے یا پھر یہ صرف پبلسٹی کی حد تک محدود ہیں۔بدقسمتی سے شہروںکے اردگرد بننے والی کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکٹر رقبے پر آموں کے باغات کا بھی قتل عام کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، شہری آبادیوں کے قریب قائم اینٹوں کے بھٹّے بھی ہوائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، خصوصاً اُن سے نکلنے والی ہائیڈروجن فلورائیڈ گیس انسانی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہورہی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیامیںہر سال چھ ملین کے قریب لوگ فضائی آلودگی کے اثرات سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔امریکا اور بہت سے ممالک نے اسموگ میں کمی کے قوانین ترتیب دیے ہیں،لیکن ہمارے یہاں حکومت کی نظر میں اس مسئلے کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی نہ ہی حکومتی سطح پر ایسے اقدامات نظر آتے ہیں تو مسئلہ سے نمٹنے میں معاون ومددگار ثابت ہوں ۔

ہم ہوا اور پانی کو قدرت کا مفت عطیہ سمجھ کر آلودہ کرنے میں لگے ہیں۔کراچی ، لاہور، اسلام آباد میں پہلے پانی صاف شکل میں زمین کے نیچے تھا، اور اب پانی کی سطح دن بدن گرتی جارہی ہے ، وفاقی وزیر اسد عمر نے گزشتہ روز انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کا ہر تیسراشہری آلودہ پانی پینے کی وجہ سے کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوچکا ہے ۔ نالی سے نالوں میں پھر چھوٹی ندیوں سے بڑی ندیوں میں پھر سمندر میں مل کر کھارا ہو گیا ہے اور زمین کی مٹی بھی کاٹ کر لے جا چکا ہے۔

پانی میں طرح طرح کی گندگیاں، کارخانوں کا گندہ پانی، زہریلی دوائیں، کھیتوں میں ڈالنے والی کھاد، کیڑوں و مکوڑوں کو مارنے والی دوائیں، جوہری اورنیو کلیائی کچرے مل رہے ہیں اور ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ ہم نے بہت سے کنویں اور تالاب پاٹ دیے ہیں کہیں کھیتی کر رہے ہیں اور کہیں گھر بنا رہے ہیں ماحولیاتی توازن پر اس کا بھی اثر پڑ رہا ہے۔

قدرتی اور بشریاتی عمل کی وجہ سے جانوروں اور پودوں کی نایاب اقسام ان کا قدرتی ماحول اور جغرافیائی محل وقوع شدید خطرے میں ہے درحقیقت اس کرہ ارض کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں رکھنے کے لیے ہی جاندار ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر یہ ختم ہوگئے تو کرہ ارض کا نظام بھی شدید طور پر متاثر ہوگا۔

کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں تیسری عالمی جنگ پانی کے مسائل پر ہوگی، اس کی ابتدائی جھلکیاں یا ہم کو اپنے ملک کے صوبوں اور پڑوسی ممالک کے درمیان صاف نظر آرہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ پانی کی تقسیم پر ہونے والے جھگڑوں پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟ کس طرح ہم ماحول کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ پانی کو سمندر میں جانے سے کیسے روکا جائے تاکہ وہ زمین میں جذب ہوسکے؟

ناگزیر ہے کہ ملک میں مزید ڈیم بنائے جائیں۔ زیادہ پانی والے علاقوں کو کم پانی والوں سے جوڑیں، ندیوں کو آپس میں جوڑیں،زمین سے کم پانی نکال کر سب کی ضرورت پوری کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہو وہاں سے پانی نکالنا کم کریں یا مکمل طور پر بند کریں۔ پانی کے استعمال پر قانون بنایا جائے ، گندا اور زہریلا پانی زمین میں جذب ہونے سے روکا جائے۔

عوام میں اس حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی ماحول زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے اور جب اس قدرتی ماحول کو ایک خاص حد سے زیادہ چھیڑا جائے تو اس کا ردعمل ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔

حیاتیاتی تنوع کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جس قدر زیادہ ممکن ہو سکے، شجر کاری کی جائے، فیکٹریوں اور گھروں کی گندگی پانی میں نہ پھینکی جائے، زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے۔سب سے اہم بات کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک ایسا میکنزم بنائیں جو فضائی آلودگی پر قابو پانے میں معاون ومددگار ثابت ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں