چھوٹی چھوٹی باتیں
چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے اندر بہت سے معنی پوشیدہ رکھتی ہیں
WASHINGTON:
وہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی جہاں کا سی ای او آج فرش پر بکھرے چند کاغذ اٹھا رہا تھا۔ تمام ملازمین دم سادھے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ شاید اس غفلت پر ابھی کسی نہ کسی کو عتاب کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
سی ای او نے راہداری میں پڑے کاغذوں کے ٹکڑے اٹھائے، انھیں پاس رکھے ڈسٹ بن میں پھینکا اور ہاتھ جھاڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
منظر تبدیل ہوا۔ ایک سکول کا ہیڈ ماسٹر ہاتھ میں بوٹ پالش اور برش لیے کلاس کے باہر بیٹھ گیا اور کلاس میں آنے والے ان بچوں کے جوتے پالش کرنے لگا جنہوں نے جوتے پالش نہیں کیے ہوئے تھے۔ اردگرد کے لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
کئی ایک نے تو جرأت کرکے پوچھ بھی لیا کہ سر آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ تو ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بس آپ 2 دن مجھے یہ کرنے دیں، تیسرے دن کلاس تو کیا پورے اسکول میں ڈسپلن ہوگا۔ اب یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ سی ای او کے آفس میں کاغذ تو کیا ایک تنکا تک دکھائی نہ دیا اور اسکول میں بچے بھی چمکدار جوتوں کے ساتھ آنے لگے۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے اندر بہت سے معنی پوشیدہ رکھتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے قابل تقلید افراد یا رول ماڈل کم ملتے ہیں جو اپنے عمل سے ہمیں یہ بتا سکیں کہ درست اور غلط کیا ہے؟
ہم میں سے آج تک کسی کو ہاتھی نے نہیں کاٹا لیکن چیونٹی کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کا کاٹے بغیر گزارا نہیں۔ ہاتھی اپنی جسامت کے باوجود بھی ہمیں اس طرح فوری نقصان نہیں پہنچا سکتا جس طرح ایک چیونٹی ہمیں کوفت میں مبتلا کردیتی ہے، یعنی چھوٹی چیز کا بہت اثر ہوتا ہے۔
اسی طرح کسی بھی ملک کی فوج خواہ کتنے ہی ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور فوجیوں کا مورال بھی بلند ہو، لیکن اگر فوجیوں کے پاؤں میں جوتے نہ ہوں تو جنگ کا اختتام تو کیا آغاز بھی نہیں ہوسکتا۔ معمولی معمولی سے نظر آنے والے کام بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بن جاتے ہیں۔ یعنی ایک نقطہ پہلے لکیر بن جاتی ہے، پھر لفظ اور پھر ایک پیرا گراف۔
ہمارے گھروں میں والدین کا ذرا سا بھی رویہ، ان کا کردار، بچوں کے اذہان پر نقش ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہم کئی مرتبہ قرآن شریف اس لیے بھی پڑھتے ہیں کہ والدین کو قرآن کی تلاوت کرتے دیکھتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ جو چیزیں جہاں سے ہمارے والدین لیتے تھے وہیں سے خریداری کی کوشش کریں۔
دوسری طرف یہی حال برائی کا ہے۔ بچے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی اچھی عادات سے خود کو درست کیوں نہیں کرتے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں بھی کوئی بچہ بدتمیزی کرنے لگتا ہے وہیں مائیں غلط عادت کے دفاع میں آگے آجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بری عادات جو ابھی کچے بیج ہوتی ہیں پھل پھول کر ایک توانا درخت بن جاتی ہیں۔ پھر ان بری علتوں سے چھٹکارا پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
سی ای او اور ہیڈ ماسٹر جیسے کردار ہمارے اردگرد ہی کہیں موجود ہیں۔ ان کو ڈھونڈنا اب ہماری ذمے داری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی جہاں کا سی ای او آج فرش پر بکھرے چند کاغذ اٹھا رہا تھا۔ تمام ملازمین دم سادھے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ شاید اس غفلت پر ابھی کسی نہ کسی کو عتاب کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
سی ای او نے راہداری میں پڑے کاغذوں کے ٹکڑے اٹھائے، انھیں پاس رکھے ڈسٹ بن میں پھینکا اور ہاتھ جھاڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
منظر تبدیل ہوا۔ ایک سکول کا ہیڈ ماسٹر ہاتھ میں بوٹ پالش اور برش لیے کلاس کے باہر بیٹھ گیا اور کلاس میں آنے والے ان بچوں کے جوتے پالش کرنے لگا جنہوں نے جوتے پالش نہیں کیے ہوئے تھے۔ اردگرد کے لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
کئی ایک نے تو جرأت کرکے پوچھ بھی لیا کہ سر آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ تو ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بس آپ 2 دن مجھے یہ کرنے دیں، تیسرے دن کلاس تو کیا پورے اسکول میں ڈسپلن ہوگا۔ اب یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ سی ای او کے آفس میں کاغذ تو کیا ایک تنکا تک دکھائی نہ دیا اور اسکول میں بچے بھی چمکدار جوتوں کے ساتھ آنے لگے۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے اندر بہت سے معنی پوشیدہ رکھتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے قابل تقلید افراد یا رول ماڈل کم ملتے ہیں جو اپنے عمل سے ہمیں یہ بتا سکیں کہ درست اور غلط کیا ہے؟
ہم میں سے آج تک کسی کو ہاتھی نے نہیں کاٹا لیکن چیونٹی کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کا کاٹے بغیر گزارا نہیں۔ ہاتھی اپنی جسامت کے باوجود بھی ہمیں اس طرح فوری نقصان نہیں پہنچا سکتا جس طرح ایک چیونٹی ہمیں کوفت میں مبتلا کردیتی ہے، یعنی چھوٹی چیز کا بہت اثر ہوتا ہے۔
اسی طرح کسی بھی ملک کی فوج خواہ کتنے ہی ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور فوجیوں کا مورال بھی بلند ہو، لیکن اگر فوجیوں کے پاؤں میں جوتے نہ ہوں تو جنگ کا اختتام تو کیا آغاز بھی نہیں ہوسکتا۔ معمولی معمولی سے نظر آنے والے کام بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بن جاتے ہیں۔ یعنی ایک نقطہ پہلے لکیر بن جاتی ہے، پھر لفظ اور پھر ایک پیرا گراف۔
ہمارے گھروں میں والدین کا ذرا سا بھی رویہ، ان کا کردار، بچوں کے اذہان پر نقش ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہم کئی مرتبہ قرآن شریف اس لیے بھی پڑھتے ہیں کہ والدین کو قرآن کی تلاوت کرتے دیکھتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ جو چیزیں جہاں سے ہمارے والدین لیتے تھے وہیں سے خریداری کی کوشش کریں۔
دوسری طرف یہی حال برائی کا ہے۔ بچے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی اچھی عادات سے خود کو درست کیوں نہیں کرتے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں بھی کوئی بچہ بدتمیزی کرنے لگتا ہے وہیں مائیں غلط عادت کے دفاع میں آگے آجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بری عادات جو ابھی کچے بیج ہوتی ہیں پھل پھول کر ایک توانا درخت بن جاتی ہیں۔ پھر ان بری علتوں سے چھٹکارا پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
سی ای او اور ہیڈ ماسٹر جیسے کردار ہمارے اردگرد ہی کہیں موجود ہیں۔ ان کو ڈھونڈنا اب ہماری ذمے داری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔